شادی کر دریا میں ڈال ۔۔۔۔۔ اسد مفتی

خبر آئی ہے کہ انگلستان میں بسنے والی ایشیائی کمیونٹی میں جبری، بے جوڑ اور سہولت کی شادیوں کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے اس بات کا اظہار یا انکشاف حال ہی میں منعقدہ بے جوڑ شادیوں کے حوالے سے ایک ملک گیر کا نفرنس میں کیا گیا ۔اس سے قبل وزیر اعظم تھریسامے کے حوالے سے خبر آچکی تھی کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ حکومت بوگس اور جبری شادیوں کے خلاف اقدامات اٹھائے گی۔

علاوہ ازیں گزشتہ ہفتے پاکستانی نژاد میئر لندن صادق خان نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے پھر کہا ہے کہ منظم گروہ بوگس شادیاں وسہولت کی شادیاں کروا کے بھاری رقم بٹوررہے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ بھی جبری شادیوں جیسا جرم  ہے۔ ادھر اسکاٹ لینڈ میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق صرف اسکاٹ لینڈ میں ہر برس تقریباً2سو ایشیائی شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں ایک فریق کا تعلق غیر ممالک سے ہوتا ہے ان میں سے پچاس 50فیصد شادیوں کا براہ راست تعلق بے جوڑ اور جبر سے ہوتا ہے ۔اس قسم کی صورت حال سے اس جبری شادی شدہ جوڑے کے علاوہ ان دونوں کے خاندان پربھی اس بے جوڑ شادی کا اثر پڑتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت ایک نئے قانون کو ملک میں متعارف کروارہی ہے جس سے ان افراد کے خلاف جنسی جرائم اغوا اور حبس بے جا کے قانون کے تحت مقدمہ چلایا جاسکے گا جن پر زبردستی کی شادی کا الزام ثابت ہوجائے گا۔ آنے والے وقت میں انگلستان میں مقیم پاکستانی بھارتی اور دوسرے ایشیائی والدین کو اپنے بچوں کی زبردستی شادی کروانے پر کڑی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرے حساب سے جبری شادی نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور معیار کی بھی خلاف ورزی ہے اور نہ ہی مذہبی یا کلچر کے حوالے سے اس کا جواز پیش کیا جاسکتا ہے ہمارے مقابلے میں بھارتی کمیونٹی میں اگرچہ اس قسم کی بے جوڑ اور جبری شادیوں کی مثال خال خال ہے۔

تاہم پورے برصغیر میں اسکا رواج ہے حکومت برطانیہ جس نئے قانون کو ملک میں متعارف کرارہی ہے اس کے تحت ایشیائی والدین کو اپنے بچوں کی مرضی کے خلاف شادی کے بندھن میں باندھنے پر اغوا اور حبس بے جا کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایسی شادی کیلئے کسی بھی ایشیائی ملک سے آنے والے کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی اس لئے قانون کے تحت کسی ایشیائی والدین کیلئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اپنے بیٹے بیٹی یا بھائی بہن کی شادی اسکی مرضی کے خلاف کرسکے ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں سالانہ بارہ سو شادیاں والدین کی مرضی سے ہوتی ہیں جن میں زیادہ تر لڑکیاں شامل ہیں لیکن اب آئندہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔

جو مذہبی رہنما شادی جیسے خوشگوار واقعہ کو والدین کی صوابدید پر چھوڑنے کے حق میں ہیں میرے حساب سے وہ مذہب کی روح کو نہیں سمجھتے۔ اسلام کا نقطہ نظر قانون نکاح وطلاق میں بالکل واضح ہے اسلام میں شادی کا مقصد یہ ہے کہ نفس کی تسکین ہو دل کو راحت ہے ضمیر کو استقرار حاصل ہو اور مرد و عورت محبت رحم وہمدردی، یکسانیت وہم آہنگی باہمی تعاون آپس کی شفقت ومہربانی اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کے ساتھ زندگی گزاریں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب دونوں فریقوں کی سوفیصد رضامندی شامل ہو۔ جب اسلام میں جبر نہیں ہے تو اسلامی شادی میں جبر کیسے روا ہوسکتا ہے؟

اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں اس میں پہلی چیز شریک حیات کے انتخاب میں اسکی پسند ومعیار کا خیال رکھنا اور نکاح کے وقت اسکی رضا مندی ہے جس کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ عہد رسالت کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک مالدار شخص سے کردیا لڑکی اس کو پسند نہیں کرتی تھی اس نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا کہ میرے والد نے میری شادی اپنے دولت مند بھتیجے سے کردی ہے تاکہ مجھ کو پھنسا کراپنے عیش وعشرت کا سامان کرے ’’آپﷺ نے فرمایا‘‘ تجھ کو یہ عقد پسند نہیں تو تو آزاد ہے‘‘۔ تو اس نے جواب دیا۔ ’’میرے والد نے جو اقدام کیا ہے اسکو میں بحال کرتی ہوں لیکن میں چاہتی ہوں کہ عورتوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کی مرضی کے خلاف والدین کوان کے نکاح کا حق نہیں ہے‘‘۔(مسند احمدج2ص136)

اب ایک دوسرا واقعہ سنیئے: ایک بریرہ نامی لونڈی (اس وقت لونڈیاں اور غلام رکھنے کا رواج تھا) جسکا نکاح مغیث نامی غلام سے ہوا تھا آزادی کے بعد بریرہ نے اسلامی قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مغیث کے نکاح میں رہنے سے انکار کردیا جبکہ مغیث کا یہ عالم تھا کہ وہ اسکی محبت میں زارو قطار روتے ہوئے اسکے پیچھے دیوانہ وار دوڑتا پھرتا تھا اسکی یہ حالت دیکھ کر نبی کریمﷺ نے بھی بریرہ سے اسکی سفارش کی، بریرہ نے پوچھا۔ ’’کیا یہ آپﷺ کا حکم ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’نہیں۔ صرف سفارش‘‘… تو بریرہ نے جواباً کہا۔ ’’مجھے ان کی ضرورت نہیں‘‘۔ (بخاری)

اسی طرح جبر کا ایک اور تاریخی واقعہ پیش خدمت ہے۔
دور رسالت میں چونکہ خواتین مساجد جایا کرتی تھیں، حضرت عمرؓ کو اپنی بیوی حضرت عاتکہؓ کا مسجد جانا پسند نہ تھا لیکن حضرت عاتکہ شریعت کی اس رعایت کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں لہٰذا انہوں نے اپنا طریقہ نہیں چھوڑا اور حضرت عمرؓ نے بھی خلیفہ وقت ہونے کے باوجود یہ گوارہ نہ کیا کہ ان کو زبردستی اس سے محروم کریں (بخاری)

آخر میں ان لوگوں جو جبری شادیوں (یا کوئی بھی نام دے لیں) کے قائل ہیں سے گزارش کرونگا کہ وہ اسلام کے قوانین کو اپنے ہاتھوں میں نہ لیں اور معاشرے کو بگاڑنے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنے سے اجتناب کریں یہی ان کے اور معاشرے کے حق میں بہتر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج کالطیفہ۔۔۔ایک بچہ اپنی ماں سے پوچھ رہا تھا۔ امی امی کیا اللہ میاں کی طبیعت خراب ہے؟‘‘
ماں نے پوچھا۔ کیوں بیٹے کیا ہوا؟‘‘
بچے نے کہا ’’لوگ کہہ رہے تھے کہ ہمارے محلے کے ڈاکٹر کواللہ نے اپنے پاس بلالیا‘‘۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply