تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤگے ۔۔۔۔۔۔ حسنین چوہدری

وہ بچہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوا،گھر والوں نے نام تو کچھ اور رکھا تھا لیکن پھیکو کہہ کر بلاتے تھے۔والد صاحب کی بازار میں دکان تھی،دکان کے تھڑے پر بچہ بیٹھا ہوتا ، اس زمانے میں فقیر گا کر مانگا کرتے تھے،ایک فقیر اس بازار میں آتا تھا اور گاتا ہوا چلا جاتا۔۔پھیکو اس کے پیچھے پیچھے جاتا اور جب وہ فقیر گاؤں کی حد سے نکل جاتا تو پھیکو واپس اس تھڑے پہ آکر بیٹھ جاتا اور وہی گانا اسی سُر میں گانے لگتا۔آس پاس کے دکاندار اس سے زبردستی گانا گوایا کرتے مگر پھیکو کے والد کو اس کا گانا بہت ناپسند تھا۔

کہا جاتا ہے کہ ” پوت کے پاؤں پالنے میں ہی دکھائی دینے لگتے ہیں “۔۔۔پھیکو کے بڑے بھائی نے جب دیکھا کہ پھیکو میں اچھا گلوکار بننے کی تمام صلاحیتیں ہیں تو وہ اسے لے کر بڑے بڑے استادوں کے پاس گئے،استاد بڑے غلام علی خان کسی کو اتنی آسانی سے شاگرد نہیں کرتے تھے مگر پھیکو کو سننے کے بعد انہوں نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔چند ماہ تک سر سنگیت کی تربیت لینے کے بعد پھیکو کو استاد وحید الدین خاں صاحب کے پاس بٹھا دیا گیا،وہاں سے انہوں نے سُر پر عبور حاصل کر لیا،اس کے بعد فیروز نظامی جیسے زبردست انسان کی شاگردی بھی نصیب ہوئی،انہوں نے پھیکو کو نکھار کر رکھ دیا۔

پھیکو نے پہلا گانا پنجابی فلم گل بلوچ کے لیے گایا۔۔۔یہ گانا شیام سندر صاحب نے گوایا تھا۔
یہ واقعہ بھی دلچسپ ہے،ہوا کچھ یوں کہ ایک جلسہ تھا جہاں برصغیر کے الف سے یے تک سب سنگرز کے استاد کندن لال سہگل گانے والے تھے،کندن لال سہگل کانگریس کے جلسوں سے بھی زیادہ عوام اکٹھے کر لیا کرتے تھے، خیر جلسہ شروع ہونے سے پہلے ہی بجلی چلی گئی،ہزاروں کا مجمع بیٹھا تھا اور جنریٹر وغیرہ اس زمانے میں تھے نہیں،حمید صاحب جو پھیکو کے بڑے بھائی کی طرح تھے،انہوں نے منتظمین سے کہا کہ میرے ساتھ ایک لڑکا ہے،جب تک سہگل صاحب نہیں  آتے،ہم اس سے گوا کر آڈینس کا دل بہلا دیتے ہیں۔منتظمین کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا،مجبورا ً انہوں نے پھیکو سے گانا گوایا اور پھیکو نے بغیر مائیک کے ہی اتنا زبردست گایا کہ آڈینس جھوم اٹھی۔وہیں مجمعے میں موسیقار شیام سندر صاحب بھی بیٹھے تھے۔جلسے کے بعد انہوں نے پھیکو کو پاس بلایا اور پھیکو سے اس کا نام پوچھا۔پھیکو نے بتایا : ” میرے والدین نے میرا نام محمد علی رفیع رکھا تھا لیکن سب مجھے پھیکو بلاتے ہیں “۔شیام سندر صاحب نے انہیں بریک دیا اور گل بلوچ کا ایک گانا گوایا جو انٹرنیٹ پر موجود نہیں۔۔سوہنیے ، ہیریے ۔۔ کچھ ایسا سا گانا تھا، محمد رفیع عرف پھیکو نے اس کے بعد ریڈیو لاہور کے لیے اور چھوٹی موٹی فلموں کے لیے گانا شروع کردیا۔1944ء کا سال تھا..،محمد رفیع حمید صاحب کے ساتھ بمبئی آگئے اور اے آر کاردار ، محبوب خان وغیرہ سے ملاقات کی،انہوں نے رفیع کو ایک فلم دی بھی جس میں انہوں نے اس وقت کے سپر ہٹ سنگر جی ایم درانی کے ساتھ ایک ڈوئیٹ گایا.۔

اصل شہرت انہیں دو تین سال بعد ملی.،ایک فلم آئی تھی ” جگنو ” کے نام سے،اس فلم نے دلیپ کمار کو شہرت کی ان بلندیوں تک پہنچا دیا کہ پھر وہ نیچے نہیں آئے،نور جہاں اور دلیپ کمار کی فلم تھی.۔اس میں رفیع نے ایک گانا گایا…جس نے شہرت کی تمام ریکارڈ توڑ دیے, ہر چائے کے ڈھابے پر رکھے ریڈیو یا گرامو فون میں صرف وہی گانا بجتا تھا,یہ سال اگر چہ تقسیم کا سال تھا مگر جگنو نے خوب کمائی کی اور دلیپ کمار ، نور جہاں اور رفیع کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا,وہ گانا یہ تھا ” یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے”۔۔۔

محمد رفیع کی ذاتی زندگی کے واقعات لکھنے لگوں تو شاید کئی کتب تیار ہو جائیں۔ان کے فن ، ان کے کیرئیر پر بات کرنا ہی مناسب ہے۔

محمد رفیع کی کامیابی کی کئی وجوہات ہیں، ان میں سب سے پہلی بات تو یہ کہ ان کو موسیقار ہمیشہ بہت عمدہ ملے ، دوسرا انہیں نغمہ نگار ہمیشہ عمدہ میسر آئے،تیسرا انہیں اللہ نے ایک خوبی دی تھی کہ کسی بھی ایکٹر کے رنگ میں ڈھل جاتے۔
شمی کپور کے لیے گائے ہوئے ان کے گانے ہمیشہ   یاد رکھے جائیں گے!
” چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے ” جیسا پرجوش گانا ہو۔۔۔ یا ” اس رنگ بدلتی دنیا میں ” جیسا سیڈ سانگ ہو۔۔” آجکل تیرے میرے پیار کے چرچے ہر زبان پہ ” کو کون بھول سکتا ہے،کشمیر کی کلی ، جنگلی ، برماچاری کے لیے گائے گئے گانے اپنی مثال آپ ہیں۔
شنکر – جے کشن نے رفیع کے ساتھ نہایت زبردست کام کیا، کبھی تو رفیع سے راجندر کمار کے لیے ” تیری پیاری پیاری صورت کو نظر نہ لگے ” گوایا اور کبھی رفیع سے محمود کے لیے ” اجی کالے ہیں تو کیا ہوا ، دل والے ہیں ” گوایا۔۔

گرودت کا کمال دیکھیے کہ پیاسا کے لیے ایک جگہ جانی واکر کے لیے ” سر جو تیرا چکرائے ” گوایا۔۔وہیں اپنے لیے ” یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ” گوایا۔.

رفیع صاحب کی مجموعی طور پر سب سے مشکل اور عمدہ فلم بیجو باورا تھی،جس میں انہوں نے شکیل صاحب کے لکھے ہوئے ” مدھوبن میں رادھکا ناچے رے ” اور ” من تڑپھت درشن کو ہری رام ” جیسے مشکل گانے گائے۔جنہیں گانا سات ارب انسانوں میں سے کسی اور کے بس کی بات نہیں،بیجو باورا نوشاد صاحب اور رفیع کی کیرئیر بیسٹ فلم ہے۔ایک گانا تھا۔۔۔۔ ” او دنیا کے رکھوالے ” ۔۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ نوشاد صاحب نے ایک مہینہ لگاتار پریکٹس کروائی   حتی کہ رفیع کا گلہ زخمی ہو گیا اور خون آنے لگا، یہی وجہ ہے کی نوشاد صاحب کو برصغیر کا سب سے بڑا موسیقار مانا جاتا ہے،دروغ بر گردن راوی وہ پندرہ پندرہ گھنٹے پریکٹس کرا کے ہارمونیم کے بٹن توڑ دیا کرتے تھے۔

دلیپ کمار کے ساتھ ان کی آواز سب سے زیادہ میچ کرتی تھی،چاہے لیڈر کے گانے ہوں ، یا رام اور شیام کے ، چاہے گنگا جمنا کے گانے ہوں۔

جاوید اختر ایک واقعہ بتاتے ہیں کہ ایک بار میں اسٹوڈیو گیا تو وہاں ایک گانے کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی،رفیع صاحب اور شاردھا جی گا رہی تھیں، ان دنوں سنگر شیشے کے ایک کیبن میں کھڑے ہو کر گایا کرتے تھے اور باہر سے میوزک ڈائریکٹر آرکسٹرا کو اپنی چھڑی جیسی شے سے گائیڈ کیا کرتا تھا،رفیع صاحب نے گانے کا مکھڑا گایا اور کیبن میں چلنے پھرنے لگے،وہاں پڑا پانی کا گلاس اٹھایا   اور پینے لگے،پرے شاردھا جی اپنی لائنز گا رہی تھیں،رفیع صاحب شیشے کے پاس اور اپنے دوست سے ہیلو ہائے کرنے لگے،ادھر شاردھا جی کی لائن پوری ہوئی ادھر رفیع کی طرح واپس پلٹے اور مائیک پر جا کر فوراً  گانا شروع کر دیا،اتنا انہیں سُر پر عبور تھا،آرکسٹرا اگر رکوا بھی دیتے تو اسی سر سے دوبارہ شروع کرواتے،ری ٹیک نہیں کرواتے تھے..

اگر ان کے تعلقات کی بات کی جائے تو انڈسٹری کے ہر شخص سے ان کی دوستی تھی،
منا ڈے ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ نہایت سادہ انسان تھے،سادہ کپڑے پہنتے،دیسی کھانے کھاتے،لاہوری زبان بولتے تھے،ایک دفعہ منا ڈے اور رفیع ایک جگہ سے گا کر نکلے،غالبا ً امریکہ میں فنکشن تھا،اور لڑکیوں کا ایک ٹولہ بھاگ کر ان کے پیچھے آیا اور سب رفیع صاحب کو بازووں سے پکڑ کر آٹو گراف کی ضد کرنے لگیں،اب وہ لڑکیاں غالباً  انگریزی بول رہی تھیں،اور رفیع صاحب اردو  بولتے تھے لیکن اردو پر ان کو مکمل عبور تھا، وہ لڑکیاں ضد کرتی رہیں اور رفیع صاحب بت بن کر کھڑے رہے،منا ڈے آئے تو رفیع بولے ” ویکھ یار ! اے کی کہہ رہیاں نیں ؟”منا ڈے نے بتایا کہ آپ کا آٹوگراف مانگ رہی ہیں،اور پھر رفیع صاحب نے کسی کی گال پر ، کسی کے ہاتھ پر اور کسی کی نوٹ بک پہ دستخط کر کے دیے۔

نہایت شریف ، نیک ، اور دل کے اچھے انسان تھے،نوشاد صاحب سے ان کی سب سے زیادہ دوستی تھی.، ایک بار کسی دوسرے شہر میں گانا گانے گئے،وہاں رفیع صاحب کے بعد کسی اور نے گانا تھا،لیکن وہ آ نہ سکا اور آڈینس اٹھ نہیں رہی تھی۔ امیتابھ بچن اور ایک دو دوست فوراً  ائیرپورٹ پہنچے جہاں جہاز ٹیک آف کرنے کے لیے تیار تھا…جہاز نے ٹیکسی کرنا شروع کردیا،پائلٹ سے ریڈیو پر کہہ کر جہاز کو اڑانے سے روک دیا گیا اور رن وے پر ہی روک لیا،امیتابھ جہاز میں گئے اور رفیع صاحب سے کہا کہ ادھر پیچھے سنگر نہیں پہنچا،آڈینس مشتعل ہو رہی ہے واپس آ کر ایک دو گھنٹے مزید گا دیں۔۔۔” رفیع صاحب کی بمبئی میں کوئی مصروفیت تھی لیکن وہ جہاز سے اترے اور واپس جا کر گانا گایا اور منتظمین کو مار سے بچایا.

اس قدر نیک انسان تھے کہ ایک موسیقار بتاتے ہیں کہ ایک بار رفیع صاحب نے میرے لیے گانا گایا اور میرے پاس انہیں دینے کے لیے پیسے نہیں تھے اور میں بہانہ بھی نہیں کر سکا اور میں نے بھری محفل میں ایک خالی لفافہ انہیں دے دیا،رفیع صاحب نے رکھ لیا اور اس کے بعد کبھی اس کا ذکر تک نہیں کیا،ان کی دوستی کی کئی مثالیں ہیں لیکن طوالت کے ڈر سے کسی اور موقع  کے لیے رکھ چھوڑتا ہوں۔

انہوں نے ہر طرح کے گیت گائے،فلمی گیت ، ملی نغمے ، نعتیں ، قوالیاں ، ٹھمریاں ، بھجن۔۔
ان کے کریڈٹ  تقریباً پانچ سے دس ہزار گانے ہیں، ان میں ہندی ، اردو ، پنجابی ، سرائیکی ، بنگالی ، مراٹھی ، و دیگر علاقائی زبانوں کے گانے ، اور انگریزی ، اسکاٹش ، فرنچ ، جرمن اور ہسپانوی زبان کے گانے بھی شامل ہیں…(رفیع صاحب نے کتنے گانے گائے،اس کی صحیح تعداد تو معلوم نہیں،مگر گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے لتا منگیشکر کو 25000 گانوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رکھا تھا،تو رفیع صاحب نے یہ بات چیلنج کی تھی کہ میرے گانے زیادہ ہیں  لیکن بعد میں ایک ریسرچ میں گیارہ زبانوں میں صرف سات ہزار گانے ہی نکل پائے،اور اس وقت پانچ ہزار سے زیادہ گانے دستیاب نہیں ،26000 ، 28000 کی تعداد اگر چہ بڑے بڑے فلمی پنڈتوں نے بتائی ہے لیکن اگر اس کو مان بھی لیا جائے تو روزانہ کے اڑھائی گانے بنتے ہیں۔۔۔جو کہ ناممکن ہے)

انہیں 6 فلم فئیر ایوارڈ فار بیسٹ پلے بیک سنگر کے ایوارڈ ملے۔نیشنل فلم ایوارڈ اور سیکڑوں دیگر انعام بھی ملے،ان میں سب سے عزیز انہیں وہ تھا جو بھارت کے پہلے یوم آزادی پر انہیں پنڈت نہرو نے دیا تھا۔

ممبئی میں 31 جولائی 1980 کو پچپن سال کی عمر میں رات کے دس بج کر پچیس منٹ پر ان کی رہائش گاہ پر شدید ہارٹ اٹیک کے باعث برصغیر کا سب سے بڑا فلمی سنگر ہمیشہ کیلیے اس دنیا سے چلاگیا…

آج رفیع کا گایا ہوا وہ گیت صد فی صد سچ لگ رہا ہے۔۔۔۔۔ شاید سچ ہی ہے

” تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے
جب کبھی بھی سنو گے گیت مرے
سنگ سنگ تم بھی گنگناؤگے ”

Advertisements
julia rana solicitors london

اور یہی سچ ہے…لاکھوں کروڑوں لوگ ابھی تک رفیع کو بھلا نہیں پائے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply