شہید

وہ نماز روزے کا پابند اور اپنے والدین کا فرمانبردار ایک دین دار اور خوش اخلاق نوجوان تھا۔ اس کی تربیت ایک دینی ماحول میں ہوئی تھی جس کا اندازہ اس کے رکھ رکھاؤ سے بہ آسانی لگا یا جا سکتا تھا۔ پڑھنے میں بھی تیز تھا اور اس کا شمار یونیورسٹی کے قابل طلباء میں ہوتا تھا۔ اس کے چہرے پر ہلکی خوبصورت داڑھی تھی جس کی تراش خراش کا وہ بہت خیال رکھتا تھا۔ اسے لا ابالی اور مذہب بیزار لڑکوں سے چڑ تھی اس لیے ان کی صحبت سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کرتا۔ نماز عموماً با جماعت اور محلے کی ایک مخصوص مسجد میں ادا کرتا۔ جبکہ جمعہ بھی اپنے فرقے کی مرکزی مسجد میں ہی پڑھتا۔ اس کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی کہ وقت سے پہلے مسجد پہنچ جائے تاکہ پہلی صف میں جگہ حاصل کر سکے۔ نماز کے اختتام پر وہ امام صاحب کا خطبہ ضرور سنتا۔ سامنے بیٹھ کر امام صاحب کو سننے کا اپنا ہی مزہ تھا۔

وہ بھی جمعہ کا ہی ایک دن تھا۔ نماز کے لیے صفیں درست ہونے لگیں تو وہ پہلی صف میں جگہ پانے میں کامیاب ہوگیا۔ نماز شروع ہوئی تو وہ بھی پورے انہماک سے نماز پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ ابھی دوسری رکعت پوری نہیں ہوئی تھی جب اسے سامنے ایک ہلچل کا احساس ہوا۔ اس کا انہماک ٹوٹ گیا۔ اس کے سامنے بے ترتیب داڑھی والا ایک حواس باختہ نوجوان کھڑا تھاجو زور زور سے ایک قرآنی آیت کی تلاوت کر رہا تھا۔ پھر اس سے قبل کہ وہ کچھ سمجھ پاتا اس نوجوان نے اونچی آواز میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا جس کے ساتھ ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا اور فضا میں ایک تیز روشنی پھیل گئی۔

اس کی آنکھ کھلی تو ایک بالکل نئی دنیا اس کی منتظر تھی۔ ایک ایسی دنیا جس کے بارے میں اس نے پہلے ہی بہت کچھ سن رکھا تھا۔ جو نیک اور پرہیز گار لوگوں کی جگہ تھی۔ جو خدا کی راہ میں شہید ہونے والوں کا مسکن تھا۔ وہ بلاشبہ بہت شاندار جگہ تھی، اس کے تصور سے کہیں زیادہ خوبصورت اور بے مثال۔ گھر کی دیواریں سونے کی اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں جن پر جا بجا لعل و جواہر جڑے ہوئے تھے۔ ان خوبصورت قیمتی پتھروں سے ایسی رنگ برنگی مدہم روشنیاں پھوٹتی تھیں جس سے ماحول میں قوس قزح کا گماں ہوتا تھا۔ بستر مخملی اور انتہائی آرام دہ تھا۔ گاؤ تکیے ریشم کے بنے ہوئے تھے جن سے پھولوں کی بھینی بھینی مہک آتی تھی۔ مکان کے ارد گرد ایک خوبصورت باغ تھا جس میں انواع و اقسام کے پھلوں کے درخت لگے ہوئے تھے۔ زمین پر ہر طرف پھولوں کی کیاریاں تھیں جن میں قسم قسم کے خوبصورت پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ پورا ماحول ایک عجیب مسحور کن خوشبو میں ڈوبا رہتا تھا۔

فضا میں ہروقت خوبصورت پرندے محو پرواز رہتے جو اپنی سریلی آوازوں میں دلکش نغمے بکھیرتے رہتے تھے۔ باغ کے بیچوں بیچ یاقوت سے بنا ایک خوبصورت حوض تھا جو ہمیشہ میٹھے اور شفاف پانی سے بھرا رہتا۔ اس کے قریب ہی ہیرے جواہرات سے بنا ایک خوبصورت تخت بچھا ہوا تھا جس کے پاس زمرد اور الماس سے بنے چھوٹے چبوترے پر رنگ برنگے مشروبات سے بھری بلوری صراحیاں رکھی ہوتی تھیں۔ وہ جنت کا ایک ایسا گوشہ تھا جہاں اب اس کا مستقل قیام تھا۔ وہاں وقت کا کوئی تصور نہیں تھا اس لیے وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے وہاں آئے کتنا عرصہ ہوچکا ہے۔ وہاں رات اور دن کی بھی کوئی تفریق نہیں تھی۔

سورج، چاند ، ستارے اور مختلف سمتوں میں حرکت کرتے بے شمار سیارے آسمان پر ہمیشہ ایک ساتھ دکھائی دیتے تھے۔ اس کے باوجود وہاں نہ تو اندھیرے کا کوئی نام و نشان تھا نہ ہی دھوپ کی تپش کا۔ وہاں تھکن کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ خواہش کرتے ہی دنیا کی تمام نعمتیں خود بخود اس کے قدموں میں حاضر ہوجاتیں۔ لذیذ اور خوشبودار کھانوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ درخت کی شاخیں خود ہی جھک کر اسے اپنا پھل پیش کرتیں۔ اس کے باوجود لاتعداد نوجوان حوریں ہمہ وقت اس کی دلجوئی اور خدمت کے لیے تیار رہتیں۔ ان حوروں کا حسن بھی لاجواب تھا۔ مشک، عنبر اور کافور کی بنی ان خوبصورت حسیناؤں کے بدن اتنے شفاف تھے کہ روشنی بھی آر پار گزر جائے۔ یہی حال ان کے لباس کا بھی تھا جن کی معمولی سرسراہٹ سے ماحول میں نقرئی گھنٹیاں بجنے لگتیں۔

ایسے میں لمحے بھر کے لیے بھی کسی قسم کی تنہائی کا احسا س اس کے لیے محال تھا۔ اس کے گھومنے پھرنے پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی اس لیے جب بھی اس کا من کرتا جنت کی سیر کے لیے نکل جاتا۔ اس دوران جنت کی حوریں اس کے چاروں طرف خراماں خراماں یوں چلتیں جیسے دربار میں کنیزیں اپنے شہنشاہ کے پہلو میں چلتی ہیں۔ شاید یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اب تک اس کا کسی دوسرے جنتی سے سامنا نہیں ہوا تھا۔ اس کا وقت اتنے خوشگوار طریقے سے گزر رہا تھا کہ اسے کسی اور سے ملنے میں دلچسپی بھی نہیں تھی۔ لیکن اس بار ایک عجیب بات ہوئی۔ وہ ٹہلتے ٹہلتے کافی دور نکل آیا تھا جب اسے ایک جانب سے ہلکے مترنم قہقہوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ تبھی اس کی نظر دائیں جانب حوروں کے ایک جھمگٹے پر پڑی جو ایک چھوٹے خوشنما حوض کے کنارے بیٹھی آپس میں اٹھکھیلیاں کر رہی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کے ہاتھوں میں خوبصورت صراحیاں تھیں جن سے پیالوں میں مشروب بھر کروہ کسی کو پیش کر رہی تھیں۔ کچھ دوری پر ایک انتہائی خوبصورت اور عالیشان سونے کی اینٹوں سے بنا مکان نظر آرہا تھا جس سے رنگ برنگی روشنیاں پھوٹ رہی تھیں۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔ آج اسے ایک اور جنتی کا دیدار نصیب ہونے والا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے ساتھ آئی حوریں بھی زیر لب مسکرا رہی تھیں۔ اچانک حوض کے کنارے بیٹھی حوروں میں ایک ہلچل پیدا ہوئی۔ وہ سب کھلکھلا کر اٹھیں اور ہاتھوں میں ہاتھ دے کر ایک حلقہ بنانے لگیں۔ حوض میں سے کوئی باہر نکل رہا تھا۔ وہ متناسب بدن کا ایک خوبصورت نوجوان تھا جس کے چہرے کے گرد روشنی کا ایک ہالہ نظر آرہا تھا۔ اس پر نظر پڑتے ہی اس کا دماغ جیسے بھک سے اڑ گیا۔ حوروں کے جھرمٹ میں گھرا نوجوان وہی تھا جس نے مسجد میں نماز کے دوران اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تھا اور جس کے بعد تیز روشنی پھیل گئی تھی۔

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply