اُس دن کچھ بھی اچھا نہیں تھا، میرے جوتے خستہ حال تھے اور اُن کے تسمے مجھ سے باندھے نہیں جا رہے تھے ، میں اسکول جانا نہیں چاہتا تھا، امی جان نے غصے سے میری طرف دیکھا، میرے تسمے باندھے اور مجھے باہر کی سمت دھکا دیا کہ جاؤ، میں گھر سے باہر تھا بستے کا بوجھ سخت زہر لگ رہا تھا، سائیکل پنکچر تھی ، میں پیدل ہی گھر سے چل پڑا،دھول میں اٹی سڑک پر ایک گدھا گاڑی والا سست روی سے میرے آگے آگے چل رہا تھا، میں دوڑ کر اس پر سوار ہو گیا، جیب میں صرف ڈیڑھ روپیہ تھا، جو میں نے بچا رکھا تھا کہ جب پورے تین روپے ہو جائیں گے تو اُس کے لیے ایک قلم خریدوں گا، وہ جو ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، میری ہم جماعت تھی، دبلی پتلی، جیسے ککٹری گندمی رنگ، لہجے میں کہیں کہیں چناب کی روانی در آتی جو اُردو میں اور بھی مزا دیتی۔میں اسکول کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا، سامنے چند ہم جماعت کان پکڑے کھڑے تھے، میں خاموشی سے ان کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا، تاخیر سے اسکول آنے پر اکثر کان پکڑ کر ڈنڈے سے پٹائی ہوا کرتی تھی جس کی اب اتنی عادت ہو چکی تھی کہ ہم جس دن جلدی اسکول پہنچ جائیں پورا دن اپنی ہتھیلی کو بے اختیار بار بار دیکھتے کہ یہ آج لال کیوں نہیں!
میں نے اپنے ایک ہم جماعت سے پوچھا پٹائی ہو گئی یا ابھی باقی ہے؟
اُس نے کہا، کوئی نئی مس آئی ہیں ، ابھی صرف سزا میں کان پکڑوائے ہیں ، مار ابھی باقی ہے! ابھی بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ آ گئیں، مار مگر نہیں پڑی، بس ہلکی سی ڈانٹ پڑی، میرے ایک دوست نے کہا یہ لوگ لاہور سے آئے ہیں ، بہت پڑھے لکھے ہیں ، یہ مس ہمیں اُردو پڑھائیں گی!اور ان کی چھوٹی بہن انگریزی، سامنے سبز لبادے میں کوئی کھڑا تھا، میرا دھیان مگر اُردو میں اٹک کر کہیں لڑکھڑا رہا تھا، دہلی ،لکھنؤکے پالے ،اہل زباں اب زباں سیکھیں گے! !
غصے میں اپنی خود پسندی اور جہالت پر مبنی سوچ میں غلطاں آگے بڑھا،کلاس میں داخل ہوا، تو مس تختہ سیاہ پر چند موتی پرو چکی تھیں ، میں خاموشی سے اپنی نشست پر بیٹھ گیا، پڑھانے کا انداز اس قدر دل نشیں تھا، کہ اُردو سے اور محبت ہو گئی، دل اور دماغ سے نفرت کے داغ محبت سے دیے گئے ایک ہی سبق سے صاف ہو گئے!
مس کے جاتے ہی میں نے کاغذ کا ایک گولا بنایا اور زور سے اپنی کونے کی سیٹ پر بیٹھی ہم جماعت کی سمت اُچھال دیا، میری بد قسمتی کچھ زوروں پر تھی،جو گولے کا نشانہ چوک گیا اور کلاس کی دہلیز پر آتے دو قدموں میں ڈھیر ہو گیا،دو ہاتھوں نے اُسے اُٹھایا اور کھول کر بلند آواز میں پڑھا،
آئی لو یو۔۔۔۔۔
کلاس پر سناٹا طاری ہو چکا تھا، آواز دوبارہ گونجی،
آئی لو یو، آنے والے نے میری طرف اشارہ کر کے کہا،
اگر یہ پریزنٹ ہے،
تو اس جملے کا فیوچر کیا ہو گا؟
یہ ہماری انگریزی کی نئی اُستاد تھیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں