ایک تنہائی کی سلطنت اور نم جادوگری۔ مریم مجید

یہ ایک ہلکے پھلکے سفر کی داستان ہے۔ یوں ہی چہل قدمی سے ملتا جلتا سمجھ لیجئے ۔ رواں مہینے کے دو عشرے کچھ نجی خاندانی مصروفیات میں گزارنے کے بعد ، اعصاب شکن مراحل سے بخیر و خوبی نکل آنے کے بعد تھکے ماندے ذہن کو یکسوئی، تازگی اور ریجینریشن درکار تھی اور اس کے لئیے آزمودہ نسخہ کیمیا سفر تھا۔
سو طے پایا کی آج کا دن ایک قریبی آبشار کا قصد کرتے ہوئے جو دو گھنٹے کی ڈرائیو پر موجود ہے، سفر کی برکات حاصل کی جائیں ۔ اور اسی مقصد کے لیئے آج کا دن قدرت کی آغوش میں قطرہ قطرہ حیات نچوڑتے گزرا۔
یہ آبشار ضلع حویلی کے علاقے ریجی میں موجود ہے اور بہت حد تک گمنام ہے۔ اور بچپن کی ان طلسماتی جگہوں میں سے ایک ہے جہاں فطرت سے محبت ہماری رگوں میں اتاری گئی۔
مجھے اس سے محبت بھی اس لئیے ہے کہ یہ شاہراہ عام نہیں ہے ۔اور اللہ نے اس کی بناوٹ ایسی رکھی ہے کہ اس کو مکمل فلما لینے کا کوئی زاویہ نہیں رکھا۔ بہت اوٹ میں چھپی ہوئی برفیلے پانیوں کی ملکہ جو مکمل سامنے نہیں آتی۔
سنتے ہیں کہ محبوب کے دیدار ، اور واضح دیدار کے لیئے شرط ہے کہ آپ اسے فاصلہ رکھ کر دیکھیں ورنہ قرب محبوب بصارت کو دھندلا دے گا۔ یہ قول ہر محبوب چہرے کے لئیے یکساں ہے۔ چاہے وہ چہرہ انسانی ہو یا کسی پتھریلی چٹان سے تشکیل پایا ہوا محبوب، نانگا کا رخ قاتل ہو یا شاہ گوری کا سفید بدن جس پر کہیں کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ نشان ہیں جن سے ہر بے داغ حسن حسد کرتا ہے ۔ یا پھر وہ ایک گمنام آبشار کی تندی، وحشت اور ہر سو بکھرتی نم آلودگی میں پنپتے ہوئے جامنی پھول ہوں، یا پانی کو ہوا میں بدلتی بلندی سے جنم لینے والی ننھی سفید تتلیاں ہوں۔ ان سب کے مکمل دیدار کے لیئے دوری شرط ہے اور مجھ سے دیوانے جو عشق میں وحشت کو جزو لاینفک سمجھتے ہیں وہ اپنے اس وحشی جزبے کے نابینا پن کے ہاتھوں مکمل دیدار اور کامل وصل سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں ۔ اور راز کی بات بتاوں؟ ہمیں یہ دیوانگی ہی راس ہے ۔ ہم وصل کے تمنائی ہی نہیں ۔ کیونکہ۔۔۔”وہ مزہ دیا تڑپ نے”۔۔۔خیر۔ یہ کہانی پھر سہی ۔
تو ہوا یوں کہ ہم ایک بار پھر محبوب صورت کو سامنے پا کر بے اختیار ہوئے، ہوش کھوئے اور دوری کے فوائد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس گمنام ملکہ کی آغوش میں جا سمانے کو بے قرار ہوئے مگر۔۔۔۔۔
وہ حسن ہی کیا جسے پا لینا اس قدر آسان ہو۔ ؟
گھر سے جب نکلے تھے تو ابا نے بارہا تاکید کی تھی کہ جہاں آبشار گرتی ہے وہ بے حد گہری پیالہ نما جگہ ہے لہذا ایڈونچر سے پرہیز کرتے ہوئے دور ہی رہا جائے۔ اس وقت ہم سب نے زورو شور سے سر ہلا ہلا کر یقین دلایا کہ ہم بالکل دور رہیں گے پانی کے قریب بھی نہ جائیں گے اور اس سیاسی یقین دہانی کا منہ ایک شاپنگ بیگ میں رکھی ربڑ کی سلیپرز چڑا رہی تھیں جو ہم نے پانی میں پہن کر جانا تھیں ۔۔
مگر تب تک جانتے نہ تھے کہ وہ سلیپرز بھی ہمارے کسی کام نہ آ سکیں گی۔
گاڑی سے باہر نکلے تو پانی کی برستی پھواروں نے دور سے ہی استقبال کیا۔ ہوا کے ساتھ بکھرتا پانی ہر پتھر ، ہر پتے، ہر پھول اور ہماری پلکوں سے بھی ٹپکتا تھا۔ ایک بلند چٹانی دیوار پر ایک آوٹ لیٹ تھی جہاں سے پانی کی سفید دھار دو مزید دیواروں سے ٹکرانے کے بعد نیچے گرتی تھی۔
ہم نے سلیپرز پہنے اور آبشار کی طرف دیوانہ وار لپکے۔ گزرنے کا راستہ چٹانی سلوں کے غیر مستحکم ڈھیر اور گارے پر مشتمل ہے جن پر مسلسل برستی پھوار کی وجہ سے شدید پھسلن بھری کائی اگی ہے۔ خیر شوق کا کیا مول؟ لڑکھڑاتے سنبھلتے نئے نئے مئے نوشوں کی مانند ڈولتے پہنچ ہی گئے آبشار کے چرنوں میں۔ اس وقت تک ہم سب بھیگے مرغوں کی مانند اور غریب کی کٹیا کی طرح نچڑ رہے تھے۔
ایک دوسرے کو چلا چلا کر گہرائی سے دور رہنے کی تاکید کرنا فضول تھا کہ پانی کے شور نے سب کو بہرہ کر رکھا تھا مگر اصل بات یہ تھی کہ ہم جان بوجھ کر بہرے بنے ہوئے تھے۔
ایک مناسب فاصلے پر جب ہم پہنچے کہ مزید قربت اختیار کرنے کی کوئی صورت نہیں تھی تو مجھے شدید سردی کی لہر نے کپکپا دیا۔ اور تب مجھے احساس ہوا کہ میں سر سے پاوں تک کسی فلمی شوٹنگ کی ہیروئین بنی ہوئی ہوں۔ یعنی سر سے پاوں تک شرابور۔ اور باقیوں کا حال بھی عین میرے والا ہی تھا۔
عمیر نے ہاتھ میں پکڑے موبائلوں اور گلے سے لٹکے ڈی ایس ایل آر کو پانی پانی ہوتے دیکھا تو وہ انہیں بچانے کی فکر میں پڑ گیا۔
“کسی کے پاس کوئی خشک کپڑا ہے”؟؟ اس نے پوچھا اور ظاہر ہے وہاں کچھ بھی خشک نہ تھا۔ ایک دو بار اس نے فوٹو گرافی کی کوشش کی مگر لینز کھولتے ہی پانی اسے ڈھانپ لیتا تھا۔ میں نے جب دیکھا کہ تصویر لینا ناممکن ہے تو مزید کوشش کرنے کے بجائے ہاتھ میں موجود موبائل وغیرہ ایک چٹان کی اوٹ میں رکھے اور پوری طرح فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئی۔
چٹانی دیوار پر آبی پودے، مختلف بیلیں اور زرد اور جامنی پھولوں کے گچھے اگے ہوئے تھے اور پانی جو بلندی سے گرنے کے باعث باریک غبار کی صورت اختیار کر لیتا تھا وہ ان کی پتیوں پر سفید تتلیوں کی صورت اترتا تھا۔ میں باقی لوگوں سے بے خبر گردن اٹھائے آبشار کو تکنے کی کوشش کرتی تھی مگر قرب محبوب بصارت دھندلا دیتا تھا ۔ آنکھوں میں گھستا پانی بہت دیر دیکھنے کی اجازت نہ دیتا تھا اور تبھی میں نے اس سفید غبار میں ایک سلو موشن میں اترتی سیاہ شے دیکھی۔ پہلے مجھے لگا یہ شاید کسی درخت کا پتہ ہے جو اس نیم دیوانگی میں مجھے سیاہ دکھ رہا ہے مگر اس کی حرکت اور اترنے کے انداز میں ایک اختیاری جھلک تھی ۔ یعنی وہ کوئی زندہ شے تھی۔ اور بے حد سیاہ! مگر کیا؟؟
وہ کوئی آبی پرندہ بھی نہیں تھا کہ اس کی جسامت بہت مختصر اور پرندے سے الگ تھی۔ سفید پانی کے پس منظر میں اس کا انوکھا سیاہ رنگ بہت نمایاں تھا ۔ میں تجسس سے مجبور ہو کر آخری ممکن حد تک قریب ہوئی اور وہ سیاہ شے کسی شہنشاہی تمکنت سے ایک جامنی پھول پر اتری۔ اور تب میں نے جانا کہ وہ ایک تتلی ہے۔ بڑے حجم کی مکمل سیاہ تتلی جس کے پروں میں کسی اور رنگ کا دھبہ تک نہ تھا۔ جیسے کوا مکمل سیاہ ہوتا ہے ۔ ویسے ہی وہ جادوئی سیاہ تتلی تھی جو کم از کم میں نے تو پہلی مرتبہ دیکھی تھی۔ اور اس مکمل تنہائی کی نم آلود سلطنت میں وہ پہلی مکمل خشک شے تھی کہ اس کے چمکتے سیاہ پر بے حد سبک تھے۔ جانے کس قسم کی واٹر پروف کوٹنگ اس کے پروں پر تھی کہ اس نم غبار میں بھی وہ کسی بیلے رینا کی مانند اڑان کرتی تھی۔ میں اسے دیکھتی رہی۔ وہ جامنی پھول پر کچھ پل بیٹھی رہی۔ پنکھ پھیلاتی اور سمیٹتی رہی اور پھر اڑ گئی۔
میں نے اس جامنی پھول کو رشک سے دیکھا جسے اس شاندار پرتمکنت سیاہ تتلی نے کچھ پل کو اپنا تخت بنایا تھا۔
“میں وہ پھول کیوں نہ ہوئی جس پر جادوئی تتلیاں اپنے لمس سے سنہری لکیریں تخلیق کرتی ہیں”۔
پھوار برستی رہی اور میں برفیلے پانی میں کھڑی آبشار کو تکتی رہی۔ اتنی دیر تک کہ میرے پاوں شل ہو گئے ۔ اور میرے جسم کے جتنے بھی مالیکیول تھے ان سب میں حیات بخش پانی سما گیا اور ملال دھلنے لگے۔ زنگ اترنے لگے ۔ “اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں تتلی کے لمس سے محروم ہی رہوں گی؟ یہ تو شاید لی پو کی تتلی ہے جو بیک وقت تتلی بھی ہے اور لی پو بھی۔ جذب بھی ہے اور مجذوب بھی، عشق بھی اور عاشق بھی، طور بھی وہی، نور بھی وہی۔ تو میں ،میں بھی ہوں اور تم بھی! یوسف بھی میں اور زنان مصر بھی میں ہی تو ہوں۔ وہ جامنی پھول بھی میں ہوں اور اس پر لمحہ بھر اترنے والی سیاہ تتلی بھی میں ہی تو ہوں۔۔تو پھر یہ قصہ ہجر و محرومی کیا؟؟ اونہوں!! اے میرے دل مبارک ہو۔۔۔۔۔۔”

تو جب عشق مبارک میرے اندر بگولے کی مانند رقصاں ہوا، گلے، ملال، کسک ، بوجھ تکلیف رخصت ہوئے اور تازگی، نمی اور فطرت نے دراڑیں بھرنے کا آغاز کیا تو دل شکر گزاری کے جذبات سے بھر گیا۔۔
” آپ ایک جام کے تمنائی ہوں اور ساقی آپ پر یوں مہربان ہو جائے کہ آپ کے ہر موئے بدن کو لطیف ترین کیف سے لبریز کر دے ، تو شکوہ جائز ہے کیا؟ آپ اپنے عشق خاص کو آنکھوں سے دیکھنا چاہیں اور وہ آپ کے ہر مسام میں سما جائے تو دیدار کی طلب کرنا کور ذوقی نہیں تو اور کیا ہے؟ میں نے اسے دیکھنے کی چاہ میں قصد کیا تھا اور اس نے مجھے سیراب کر دیا۔ میری آنکھوں میں اس کے پانی تھے ۔ میرے ہونٹ اس کی سیرابی سے نچڑتے تھے اور میں اس کی چاہت میں شرابور تھی۔
اور تبھی اس بے پل، میرے سرد ہو چکے چہرے پر پھسلتے پانی میں گرم نمکین پانی بھی شامل ہو گیا۔ ۔ ناصر کاظمی نے رونے کے لئیے سایہ گل منتخب کیا تھا اور میں نے اس مہربان ٹھنڈک بھری نم تنہائی کو چنا تھا۔ ڈسٹ ان ٹو ڈسٹ۔۔ایشز ان ٹو ایشز ۔۔۔۔۔واٹر ان ٹو واٹر۔ ۔۔۔ میرے اشک بھی ہیں اس میں، یہ شراب ابل نہ جائے ۔۔۔اور۔۔۔پانی پانی میں ملتا رہا، گھلتا رہا۔۔ نہ تو یہ دریائے ایراوتی تھا، نہ میرے آنسو کسی ملاح کے تھے مگر یہ نظم یاد آتی رہی۔۔۔”اے ایراوتی کی لہرو۔۔۔تمہارا رنگ میرے آنسووں کی وجہ سے گدلا ہے” ۔۔۔پانی گدلا نہ ہوا ، دودھیا سفید ہی رہا۔
وہاں کھڑےبہت دیر گزر گئی۔۔۔اتنی کہ مزید کچھ وقت جاتا تو میرے بدن پر پھسلن بھری کائی اگنے لگتی، جامنی اور زرد پھول اس کائی میں سر اٹھانے لگتے اور ان پر انہونی خواہشوں کی سیاہ تتلیاں وارد ہونے لگتیں ۔لیکن جیسا کہ ہر معجزے کی بھی ایک حد ہوتی ہے، اسی طرح ہر پاگل کر دینے والے لمحے کی بھی اک عمر ہوتی ہے۔ “سنا ہے ایک عمر ہے، معاملات دل کی بھی ۔۔۔وصال جانفزا تو کیا، فراق جانگسل کی بھی” ۔ تو فراق جانگسل کا لمحہ اختتام پذیر ہوا۔
نیلے پڑتے ہونٹوں اور سن ہوتے بدن کے ساتھ پانی سے نکلی تو باقی سب ہاتھوں کی آڑ بنا بنا کر اندازے سے فوٹوگرافی میں مصروف تھے۔ کچھ دیر چٹانی ڈھیر پر تصویریں بنانے کے بعد ہم نے آبشار سے جنم لینے والی ندی کا رخ کیا۔
یہاں چٹانیں اور پتھر تھے جو دھوپ میں گرم ہو رہے تھے۔ میں ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گئی اور آہستہ آہستہ نمی خشک ہونے لگی۔
میرے تینوں بہن بھائی اب اپنے اچھے موبائلز اور کیمروں کی جانچ پڑتال سے مطمئن ہو کر اپنی اپنی اور مناظر کی تصویروں کے چکر میں ہلکان ہوئے جا رہے تھے۔ میرے پاس کیونکہ غریب سا فون ہے لہذا میں مزے سے دھوپ سینکتی اور انہیں ایک ایک اینگل کے لئیے ہلکان ہوتے دیکھتی رہی۔
دراصل ایسی کسی بھی جگہ وہ سب بے حد کمینے سے ہو جاتے ہیں اور صرف اور صرف اپنی تصویروں میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ دوسرے غریب کی منت، ترلا اور گھگھیا کر کی گئی درخواست کو کہ” ایک اچھی تصویر بنا دے، ڈی پی لگانی ہے یا واٹس ایپ کا سٹیٹس” کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں ۔
مجھے اچھی طرح علم تھا لہذا میں نے انہیں ہلکان ہوتے چھوڑا اور آس پاس کے منظر سے لطف اندوز ہونے کے لئیے ایک پگڈنڈی پر چلنے لگی ۔
آس پاس گھنی مہک لئیے ہوئے جڑی بوٹیاں تھیں۔ بے حد طبی فوائد کے حامل پودے تھے ۔ زخم حیات کے گول اور دبیز پتوں والے پودے چٹانوں پر جا بجا اگے تھے۔ اسے السر اور معدہ کے امراض کے لئیے اکسیر مانا جاتا ہے۔ وہاں رتن جوت کے سرخ پھول تھے، نیلوفر کے ٹھنڈک سے بھرے نیلے پھول، فاکس گلوو کے زرد سٹے اور بنفشے کے جامنی پھول تھے ۔
منکی سوارڈ یعنی بندر کی تلوار بھی تھی۔ یہ ایک طرح کے جنگلی للی ہوتے ہیں ۔ گہرے جامنی مائل نیلے پھولوں والے پودے۔
اور وہاں بیر بیریز تھیں”سملو” ۔ گہرے جامنی خوش ذائقہ پھل ۔ میں نے انہیں کھایا ۔
بش بیریز ابھی کچی تھیں انہیں صرف دیکھ کر دل بہلایا اور کران بیریز کی ایک وائلڈ ورائٹی کے پھولوں پر آنے والی شہد کی مکھیوں کو دیکھتی رہی۔
ہوا میں نیند گھلی تھی اور اس تنہائی میں آبشار اور اس ندی کا شور گونجتا تھا ۔
دن ڈھلنے لگا تو واپسی کا مارے بندھے ارادہ کیا گیا کہ میرے ساتھ آنے والوں کو اگلے روز اپنے ٹھکانے یعنی اسلام آباد کے کنکریٹ کے جنگل کا سفر بھی اختیار کرنا تھا- سب گاڑی میں ٹھنسے اور واپس ہوئے اگرچہ میرا جی تھا کہ وہ مجھے یہیں بھول جائیں کہ مجھے نہ تو کالج اٹینڈ کرنا تھا، نہ شفا انٹرنیشنل کے انٹرنیز کو لکچرز دینے تھے اور نہ ہی کسی شوہر اور گھر کی ذمہ داری مجھ پر تھی، تو کیا حرج تھا کہ وہ مجھے یہیں بھول جاتے۔ مگر وہ نہ بھولے اور بادل نخواستہ ہم اس نم جادو نگری سے رخصت ہوئے ۔

راستے میں ایک جگہ ایک ہوٹل پر رکے اور کھانا جو ہم گھر سے بنا کر لائے تھے اسے گرم کروا کر کھایا ۔ اس کے بعد چیڑھ کی مہک سے لبریز گرم چائے پی تو لگا جنت میں آ گئے ہیں۔ لیکن اس جنت سے ہم چائے کے آخری گھونٹ کے ساتھ ہی نکل آئے ۔ لکڑی جلنے کی مہک ہر سو پھیلی تھی اور گاڑھے سفید دھویں کے مرغولے ہوٹل کی چمنی سے نکل کر فضا میں گھل رہے تھے۔واپسی کا سفر جاری تھا۔ پہاڑوں کی چوٹیاں چمک رہی تھیں اور دامن میں سبز چھایا تھی۔
“کہیں دور جب دن ڈھل جائے”۔۔۔دن ڈھل رہا تھا۔
ہر دس قدم کے فاصلے پر کوئی نہ کوئی آبشار نظر باندھ لیتی تھی۔ نم جادو نگری!
ایک موڑ مڑے تو ایک کچے گھر کی چھت پر دو پیاری سی بچیوں کو بیٹھے دیکھا۔ ان کے لباس گہرے نیلے تھے اور ان کے بالوں میں میری گولڈ کے موٹے موٹے زرد پھول بہار دکھا رہے تھے ۔ انہوں نے پرجوش مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ہلائے اور دل خوش ہو گیا۔

ہر سفر کا اک حاصل سفر ہوتا ہے۔ میرے لئیے اس سفر کا حاصل وہ سیاہ تتلی تھی جو سفید غبار میں بیلے رینا کی مانند ایک جامنی پھول پر اترتی تھی۔ میں گھر سے چلی تو راہ کی خوشنمائی کو بونس کے طور پر وصولا تھا۔ منزل پر پہنچے تو اس تنہائی کا ایک حصہ بننے پر دل سبک ہوا مگر سیاہ تتلی میرے پلان کا حصہ نہ تھی۔ میں اسے دیکھنے وہاں نہیں گئی تھی اور اس کی یہ جھلک میرے لئیے اضافی انعام جیسی تھی۔ میں نے ایک بار پھر شکر گزاری کے کلمات دل میں ادا کئیے اور کانوں میں جگجیت کی مدھر اور اثر پذیر آواز سکون بن کر جسم و جاں میں پھیلنے لگی۔

” سنا تھا کہ وہ آئیں گے انجمن میں،سنا تھا کہ ان سے ملاقات ہو گی
ہمیں کیا پتہ تھا ہمیں کیا خبر تھی، نہ یہ بات ہو گی نہ وہ بات ہو گی

میں کہتا ہوں اس دل کو دل میں بسا لو، وہ کہتے ہیں ہم سے نگاہیں ملا لو
نگاہوں کو معلوم کیا دل کی حالت، نگاہوں نگاہوں میں کیا بات ہو گی

ہمیں کھینچ کر عشق لایا تیرا، تیرے در پہ ہم نے لگایا ہے ڈیرہ
ہمیں ہو گا جب تک نہ دیدار تیرا، یہیں صبح ہو گی، یہیں رات ہو گی

محبت کا جب ہم نے چھیڑا فسانہ، تو گورے سے مکھڑے پہ آیا پسینہ
جو نکلے تھے گھر سے تو کیا جانتے تھے، کہ یوں دھوپ میں آج برسات ہو گی

خفا ہم سے ہو کے وہ بیٹھے ہوئے ہیں، رقیبوں میں گھر کے وہ بیٹھے ہوئے ہیں
نہ وہ دیکھتے ہیں نہ ہم دیکھتے ہیں، یہاں بات ہو گی تو کیا بات ہو گی۔۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

بات کرنے کی حاجت بھلا کس کو تھی۔۔؟؟ سفر کٹتا گیا۔۔۔گھر نزدیک آتا گیا اور میرے آنسووں سے جنم لینے والی ایک سیاہ تتلی آبشار کے سینے پر کھلے جامنی پھول پر جھولتی رہی۔۔۔۔تم وہیں رہے۔ تم کو وہیں رہنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply