• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مختصرتذکرہ حیات/عاشق رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم امام احمدرضاخان الشاہ بریلوی۔۔۔۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

مختصرتذکرہ حیات/عاشق رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم امام احمدرضاخان الشاہ بریلوی۔۔۔۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

جب بھی دین میں کوئی بگاڑپیداہوتاہے تواللہ تعالیٰ اپنے بندہ ء  مومن کوبھیجتاہے جواللہ تعالیٰ کی مددسے دین ِ متین کااحیاء کرتاہے۔سرکاراعظم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی مُردہ سنتوں کو  زندہ کرتاہے۔دین ِ متین کی جوشکل مسخ کردی گئی ہوتی ہے اس کوصحیح حالت میں لاکرحق اورباطل کے درمیان فرق واضح کرتاہے ایسے ہی خاصان ِ خدامیں سے ایک ہستی اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخانصاب محدّث بریلی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ہے۔

قرآن مجیدفرقان حمیدمیں ارشادپاک ہے۔ترجمہ ”اوررسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی تعظیم وتوقیرکرو۔اورصبح شام اللہ پاک کی پاکی بولو“۔ (پارہ۶۲سورۃ الفتح)درج بالاآیت کریمہ کے پہلے حصے میں اللہ رب العزت نے یہ حکم دیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی تعظیم وتوقیرکروان کاادب واحترام کرو۔اس لئے کہ اگرادب ہے توسب کچھ درست ہے اگرایک مسلمان کے دل میں آقادوجہاں سرورکون مکان صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کاادب نہیں ہے۔ توچاہے وہ لاکھوں نمازیں پڑھے کروڑوں روپے کی سخاوت کرے، کعبۃ اللہ کاحج کرے،قربانی کرے الغرض جتنی بھی عبادت وریاضت کرے توسب کچھ بے کارہے۔کیونکہ آقائے دوجہاں سرورکون ومکان صلی اللہ علیہ والہٖ وسلمکی محبت دین حق کی شرط اّول ہے۔
محمدﷺ کی  محبت دینِ  حق کی شرط اوّل ہے

اسی میں ہواگرخامی توسب کچھ نامکمل ہے

اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لوگوں کوبارگاہ خداوندی اوردربارمصطفی ﷺکاادب سکھایا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن پاک کا جوترجمہ “کنزالایمان” کیاہے وہ اس بات کی گواہی دیتاہے۔قرآن پاک کے ترجمہ کنزالایمان کامطالعہ کیاجائے توالحمدسے لیکروالناس تک ایک ایک آیت بلکہ ایک لفظ میں ادب کے پہلونظرآتے ہیں چودہویں صدی ہجری میں کچھ بے ادب اورگستاخوں نے سرکارمدینہ راحتِ قلب وسینہ ﷺ کی شان اقدس میں بے ادبیاں اورگستاخیاں شروع کیں تواللہ رب العزت نے احمدرضارحمۃ اللہ علیہکوپیداکیا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن وسنت کی روشنی میں تحریراََ گویاہر لحاظ سے عظمت مصطفی ﷺ کواجاگرکر کے بتایاکہ ارے! بے ادب اورگستاخ نام نہادمسلمانوں سنو!وہ عیب ونقص والاکوئی تمہارا نبی ہوگا ہمارا نبی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہرقسم کے عیب سے پاک ہے۔وہ توعظمتوں رفعتوں اورشانوں والارسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہیں ۔
وہ کمالِ حسن حضورہیں کہ گمان نقص جہاں نہیں یہی پھول خارسے دورہیں یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں۔
علم وحکمت کے بے تاج بادشاہ، مجدددین وملت،پروانہ شمع رسالت مآب،عظیم المرتبت محدث،امام اہلسنت، مفکر اسلام،حسان الہند، اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمدرضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ 10شوال المکرم 1272ہجری بمطابق14جون 1856؁ ہفتہ کے دن ظہرکے وقت ہندوستان کے مشہورشہربریلی شریف کے محلہ جسولی میں رئیس المتکلمین مولانانقی علی خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کے گھرمیں پیداہوئے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کا پیدائشی نام محمداور تاریخی نام “المختار”ہے۔آ پ رحمۃ اللہ علیہ کے جدامجدمولانارضاعلی خان رحمۃ اللہ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کانام احمدرضارکھا اورآپ رحمۃ اللہ علیہ اسی نام سے مشہورہوئے (الملفوظ حصہ اول ص۳) آ پ رحمۃ اللہ علیہ کے والدمولانانقی علی خان ورآپ رحمۃ اللہ علیہ کے جدامجدمولانارضاعلی خان رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے وقت کے جلیل القدرعلمائے کرام میں شمارکیے جاتے تھے۔ امام اہلسنت امام احمدرضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے مذہب کی طرف راغب تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے دورکے معتبرعالم دین اورعاشق رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہونے کے ساتھ ساتھ علوم قدیمہ وجدیدہ پرگہری نظررکھتے تھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن وسنت کی ترویج واشاعت اوردینی اقدارکے تحفظ میں اہم کرداراداکیا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ عالم شباب میں ہی فنون عربیہ اورعلوم دینیہ کے ماہرکے طورپرمشہورہوئے آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی خدادادصلاحیتوں اورحیرت انگیز حافظہ کی بناء پرصرف تیرہ سال دس ماہ چاردن کی عمرمیں علم تفسیرواصول تفسیر،علم حدیث واصول حدیث،فقہ و اصول فقہ،صرف نحو،علم الکلام، منطق و فلسفہ وغیرہ تمام علوم دینیہ کی تکمیل کی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے تقویٰ طہارت،اتباع سنت،حسن وسیرت کے اوصاف جلیلہ سے مزین ہوچکے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے خادم بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب چوبیس گھنٹوں میں صرف ڈیڑھ یادوگھنٹے آرام(وہ بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلمپرعمل کی وجہ سے) فرماتے اورباقی تمام وقت تصنیف وتالیف،درس وتدریس،کتب بینی، افتاء اوردیگرخدمات دینیہ میں صرف فرماتے تھے۔برصغیرکے علمائے کرام آپ رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ کرتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کوعربی فارسی ہندی اورمختلف زبانوں پرعبورحاصل تھاآپ رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف عنوانات پرکم بیش ایک ہزار(1000) کتابیں لکھی ہیں۔آپؒ کی تصانیف تفسیرواصول تفسیر،حدیث واصول حدیث،فقہ اصول فقہ، صرف نحو،علم الکلام، منطق و فلسفہ،ادب،ریاضی،معاشرتی اصلاح،اخلاقی و روحانی اذکار،فتاویٰ اورسائنس جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے لاکھوں فتاوٰی لکھے ان میں سے بعض کونقل نہیں کیاجاسکاجتنے فتاوٰی نقل کیے گئے ان کانام “العطایاالنبویہ فی الفتاوٰی رضویہ”رکھاگیاہے آپ رحمۃ اللہ علیہ کوعلم توقیت میں اس قدرکمال حاصل تھاکہ دن کوسورج اوررات کو ستارے دیکھ کرگھڑی ملالیتے تھے وقت بھی صحیح ہوتاتھا۔ اورکبھی ایک منٹ کابھی فرق نہ ہوا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ساری زندگی نمازباجماعت اداکی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ رحم دل انسان تھے غرباء کوکبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے بلکہ ان کی ہمیشہ امدادکرتے تھے۔
؎کروں تیرے نام پرجاں فدا،نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا

دوجہاں سے بھی نہیں جی بھراکروں کیاکروڑوں جہاں نہیں

Advertisements
julia rana solicitors

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ساری زندگی درس وتدریس،وعظ تقریرافتاء اورتالیف وتصنیف میں بسرہوئی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ سرتاپاجذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم   سے سرشاررہتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کونبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے والہانہ محبت تھی۔ذکروفکرکی ہرمجالس میں تصوررسالت مآب صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ذہن شاداب رہتاتھا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دین مبین کے ہرگوشے اورہرشعبے کومحبت رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میں سمودیا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے تمام گوشے وشعبے اتباع شریعت اوراطاعت ومحبت رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے معمورتھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ کاایک ایک لمحہ کتاب و سنت کی پیروی میں گزرا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے عالم بیداری میں محبوب خدا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کادیدارکیا۔ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ فریضہ حج کے لئے حرمین جاتے تووہاں کے علماء جوق درجوق آپ رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ کرنے آتے تھے۔جب آپ دوسری بارحج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے توزیارت نبوی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلمکی آرزولئے روضہ اطہر کے سامنے دیرتک صلوٰۃ وسلام پڑھتے رہے مگرپہلی رات قسمت میں یہ سعادت نہ تھی اس موقع پرآپ نے معروف نعتیہ غزل لکھی۔
؎ وہ سوئے لالہ زارپھرتے ہیں تیرے دن اے بہارپھرتے ہیں
یہ غزل عرض کرکے آپ رحمۃ اللہ علیہ    دیدارمصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے انتظارمیں ادب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ قسمت جاگ اٹھی جان کائنات محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی چشمان سرسے بیداری میں زیارت اقدس سے مشرف ہوئے۔(بحوالہ حیات اعلیٰ حضرت)آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اندرعشق رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کوٹ کوٹ کربھراہوا تھا آپ رحمۃ اللہ علیہ فنافی الرسول کے اعلیٰ منصب پرفائزتھے آپ رحمۃ اللہ علیہ کانعتیہ کلام اس بات کی گواہی دیتاہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ علوم دینیہ کے عالم وفاضل ہونے کے ساتھ شعروسخن کابھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کاذوق تسلیم حمدوثناء اورنعت ومنقبت کے علاوہ کسی اورصنف وسخن کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعروسخن کے کلام میں بھی وہی عالمانہ وقارہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ فن ِشعرمیں کمال رکھتے تھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جس والہانہ عقیدت سے اورجذبہ عشق میں ڈوب کرجونعتیں کہیں ان کا ایک ایک لفظ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلاہے اوردل میں ہی اترجاتاہے آپؒ کے مشہورزمانہ “سلام”کی گونج پورے عالم اسلام میں سنائی دیتی ہے۔
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایاکرتے تھے کہ اگرکوئی میرے دل کے دوٹکڑے کرے توایک پرلاالٰہ الااللّٰہ اوردوسرے ٹکڑے پرمحمدرسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم لکھاہواپائے گا(سوانح امام احمدرضا)آپ رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے شاہ کارنعتیہ کلام حمدوثناء اورنعت ومنقبت کوچارمختلف زبانوں (عربی فارسی،اردواور ہندی) میں پیش کیاہے۔آ پ رحمۃ اللہ علیہ کانعتیہ دیوان”حدائق بخشش “ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فراق مصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میں اکثرغمگین رہتے تھے گستاخانہ عبارت کودیکھتے تو آنکھوں سے آنسوجاری ہوجاتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے گستاخوں کاسختی سے ردکرتے تاکہ وہ اعلیٰ حضرت کوبرابھلاکہنایالکھناشروع کردیں تاکہ جتنا وقت مجھے برابھلاکہے یالکھے گااس وقت تک آقا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے سے بچارہے گا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ اس پرفخرکیاکرتے تھے کہ باری تعالیٰ نے اِس دورمیں مجھے ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے لئے ڈھال بنایاہے۔
صحبت صالح تُراصالح کند صحبتِ طالح تُراطالح کند
دُورشوازاختلاطِ یاربد یارِبدبدترازمارِبد
مارِبدتنہاہمیں برجاں زند یارِبدبرجان وبرایمان زند
اچھے آدمی کی مجلس تجھے اچھاکردے گی اوربُرے کی مجلس تجھے بُرابنادے گی
جہاں تک ہوسکے بُرے دوست سے دوررہ کیونکہ بُرادوست برے سانپ سے بھی بُراہے
کیونکہ بُراسانپ صرف جان کوڈستاہے جبکہ بُرادوست جان وایمان دونوں پرضرب لگاتاہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ سوتے وقت ہاتھ کے انگوٹھے کوشہادت کی انگلی پررکھ لیتے تاکہ انگلیوں سے لفظ “اللّٰہ “بن جائے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ پَیرپھیلاکرکبھی نہ سوتے بلکہ داہنی کروٹ لیٹ کردونوں ہاتھوں کوملاکرسرکے نیچے رکھ لیتے اورپاؤں مبارک سمیٹ لیتے۔اِس طرح جسم سے لفظ “مُحمد”بن جاتاہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کاایک اورپہلوبھی بہت اہم ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دانش وعلم کامرکزصرف عبادت گاہیں،مدرسے ہی نہ تھے بلکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ برصغیرپاک وہنداوردنیاکی سیاست پربھی تھیں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے برصغیرمیں اسلامی اقدارکوبرسرنوزندہ کرنے اورمسلمانوں کوان کی گمشدہ میراث واپس دلانے کے لئے بہت جدوجہدکی.آپ رحمۃ اللہ علیہکے زندہ کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تحریک آزادی کے علمبرداراور دوقومی نظریہ کے نقیب تھے اس لئے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تحریک عدم تعاون اورترکِ موالات کے زمانے میں متحدہ قومیت کے نظریے کوباطل قراردیااور مسلمانانِ برصغیرکوہندؤوں اور انگریزوں کی سازشوں سے خبردارکیاآپ رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی کسی انگریزیاہندوکی عدالت میں حاضری نہیں دی تھی حتیٰ کہ آپ ڈاک کاٹکٹ ہمیشہ الٹا چسپاں کیاکرتے تھے۔اس ٹکٹ کوالٹاچسپاں کرنے کی اہم وجہ یہ تھی کہ اس ڈاک کے ٹکٹ پرانگریزملکہ یابادشاہ کی تصویرہواکرتی تھی۔
ایک دن جمعۃ المبارک کی نمازکے بعداعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرماتھے حاضرین کامجمع تھا۔لوگ مسائل پوچھتے جارہے تھے اوراعلیٰ حضرت جواب دیتے جارہے تھے۔ اس وقت خلیفہ اعلیٰ حضرت،مولاناسیدحافظ محمودجان صاحب نے عرض کیاحضورمیں دیکھتاہوں کہ ہرمسئلے کا جواب آپکی نوکِ زبان پرہے کبھی کسی مسئلے کے متعلق آپ رحمۃ اللہ علیہ کویہ فرماتے نہیں سناکہ کتاب دیکھ کرجواب دیاجائے گاجب اعلیٰ حضرت نے یہ بات سنی توآپ رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اورفرمایا،سیدصاحب!جب قبرمیں مجھ سے سوال ہوگاتووہاں کتابیں کہاں سے لاؤں گا۔جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کاوقت قریب آیاتوآپ رحمۃ اللہ علیہ نے مریدین کوبلاکرفرمایاجب میراانتقال ہوجائے تویادرکھومیری قبراتنی گہری کھودناکہ جس میں میں کھڑا ہو سکوں غلاموں نے عرض کیاحضورحسب معمول توقبراتنی گہری کھودی جاتی ہے کہ جس میں آدمی بیٹھ سکے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ سرکاردوعالم نور مجسم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی حدیث پاک ہے کہ جب آدمی فوت ہوجاتاہے تواس کی قبرمیں خودکملی والے صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم تشریف لاتے ہیں لہذامیں چاہتاہوں کہ میری قبر اتنی گہری ہوکہ جب امام الانبیاء محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!میری قبرمیں جلوہ گرہوں تومیں کھڑاہوکرآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کااستقبال کروں اورآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں صلوٰۃ وسلام کانذارانہ پیش کروں تقدیس خداوندی اورناموس رسالت اورعظمت مصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ   وسلم کی جوتحریک آپ رحمۃ اللہ علیہ نے1878ء سے 1921ء تک جاری رکھی اور محفل میلادکی جو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مشعلیں روشن رکھیں وہ آج چمکتے ہوئے ستاروں میں تبدیل ہوکرچہاردانگ عالم میں روشنیاں بکھیررہی ہیں۔
اعلیٰ حضرت عظیم المرتبت امام احمدرضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل مدت تک تشنگان علم ومعرفت کواپنے کمالات ظاہری وباطنی سے مستفیدکرکے عالم ِاسلام میں روحانیت،تقریب الٰہی علم وحکمت اورعشق رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کاذوق پیداکرکے 25صفرالمظفر1340ہجری بمطابق28اکتوبر1921؁ بروزجمعۃ المبارک ہندوستان کے وقت کے مطابق2بج کر38منٹ پر آ پ رحمۃ اللہ علیہ نے داعی اجل کولبیک کہا۔ادھرمؤذن نے “حی علی الفلاح”کی صدابلندکی ادھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جان جان آفریں کے سپردکردی۔اناللّٰہ واناعلیہ راجعون۔آج بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کامزارپرُانواربریلی شریف میں خاص وعام کے لئے زیارت گاہ بناہواہے۔جہاں پرآپ رحمۃ اللہ علیہ کاسالانہ عرس پاک24,25صفرالمظفرکومنایاجاتاہے۔25صفرالمظفرکوبیت المقدس میں ایک شامی بُزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں اپنے آپ کودربارِرسالت مآب صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میں پایاتمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اوراولیاء عظام دربارمیں حاضرتھے لیکن مجلس میں سکُوت طاری تھااورایسامعلوم ہوتاتھاکہ کسی آنے والے کاانتظارہے شامی بزرگ نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میں عرض کی حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم! میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں کس کاانتظارہے؟سید عالم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایاہمیں احمدرضاکاانتظارہے شامی بزرگ نے عرض کی حضور! احمدرضاکون ہیں؟ ارشادہواہندوستان کے مشہورشہربریلی کے رہنے والے ہیں۔بیداری کے بعدوہ شامی بزرگ مولانااحمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ کی تلاش میں ہندوستان کی طرف چل پڑے اورجب وہ بریلی شریف آئے توانہیں معلوم ہواکہ اس عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسل مکااسی روزیعنی25صفرالمظفر 1340ہجری کووصال ہوچکاہے۔جس روزانہوں نے خواب میں سرورکائنات فخرموجوادت احمدمختار محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کویہ کہتے ہوئے سناتھاکہ ہمیں “احمد”کا انتظارہے۔(سوانح امام احمدرضا)
محسن ملت اسلامیہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان کے بارے میں فرماتے ہیں آج سے سوسال قبل جب انگریزہندوؤں کے ساتھ سازبازکرکے ہندکی معیشت پرقابض ہوئے تومسلمانوں کے تشخص اورتعلیمی نظام کوزبردست دھچکالگااستعماری طاقتوں کے مذموم عزائم کی بدولت مذہبی قدریں زوال پذیرہونے لگی تھیں اس پرآشوب دورمیں اللہ رب العزت نے برصغیرکے مسلمانوں کوامام احمدرضاجیسی باصلاحیت اورمدبرانہ قیادت سے نوازاکہ جن کی تصانیف،تالیفات اورتبلیغی کاوشوں نے شکست خوردہ قوم میں ایک فکری انقلاب برپا کردیا۔امام صاحب کی شخصیت جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے لبریزتھی۔آپکی ساری زندگی کومدنظررکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آپؒ کی ذات نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ وفاشعاری کانشان مجسم تھی آپ کی ہمہ جہت شخصیت کاایک پہلوسائنس سے شناسائی بھی ہے سورج کوحرکت پذیراورمحوگردش ثابت کرنے کے ضمن میں آپؒ کے دلائل بڑی اہمیت کے حامل ہیں آج جبکہ دوسری طرف ہمارادشمن ہمیں تباہ وبرباد کرنے کے لئے گھات میں بیٹھاہے۔تومیں سمجھتاہوں کہ امام صاحب ؒ کی تعلیمات سے بہرورہوکرہم آج بھی ایک سیسہ پلائی ہوئی دیواربن سکتے ہیں مصورپاکستان ڈاکٹرعلامہ اقبالؒ فرماتے ہیں؛ہندوستان کے دورآخرمیں ان جیساطبّاع اورذہین فقیہ پیدانہیں ہوا۔میں نے ان کے فتاوٰی کے مطالعہ سے یہ رائے قائم کی ہے۔ان کے فتاوٰ ی ان کی ذہانت،فطانت،جودت طبع،کمال ثقاہت اورعلوم دینیہ میں تبحرعلمی کے شاہدعادل ہیں۔ مولاناایک دفعہ جورائے قائم کرلیتے اس پرمضبوطی سے قائم رہتے تھے۔یقیناوہ اپنی رائے کااظہاربہت غوروفکرکے بعدکیاکرتے تھے۔لہذا انہیں اپنی شرعی فیصلوں اورفتاوٰی میں کبھی کسی تبدیلی یارجوع کی ضرورت نہیں پڑی۔(حوالہ ہفت روزافق کراچی 22تا28جنوری 1979)
اللہ پاک سے دعاگوہوں کہ اللہ رب العزت ہماری تمام جانی مالی عبادات کواپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے صدقے اپنی بارگاہ میں قبول فرماکرہمارے لئے ذریعہ نجات بنائے۔ ملکِ پاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے۔ آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی بروزقیامت شفاعت نصیب فرمائے مسلمانوں کوآپس میں اتفاق واتحاد نصیب فرمائے۔اللہ رب العزت عالمِ اسلام اورملک پاکستان کی خیرفرمائے۔اللہ رب العزت آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی سچی اورپکی غلامی نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply