• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گڈانی شپ بریکنگ،اکیسویں صدی کی غلامانہ سلطنت ۔۔۔مشتاق علی شان

گڈانی شپ بریکنگ،اکیسویں صدی کی غلامانہ سلطنت ۔۔۔مشتاق علی شان

بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں گڈانی سے موسوم ماہی گیروں کی قدیم بستی کراچی سے 60کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ یہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر پرانے اور ناکارہ جہاز توڑنے کی صنعت شپ بریکنگ ہے ،جسے عام طور پر گڈانی شپ بریکنگ یارڈز کے نام سے جانا جاتا ہے ۔یہ بحیرۂ عرب کے 15کلو میٹر ساحلی علاقے پر محیط 134یارڈ ہیں جہاں بیک وقت 150پرانے جہاز توڑے جانے کی گنجائش موجود ہے۔ یہاں1968میں پہلا ناکارہ بحری جہاز توڑنے کے لیے لایا گیا تھا ،اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ مقام شپ بریکنگ کا ایک نمائندہ مرکز بن گیا۔ 1982سے قبل صرف انڈیا اور بنگلہ دیش میں بڑے جہاز توڑے جاتے تھے ۔ 1982میں یہاں’’ برومر‘‘ نامی 36000ٹن وزنی جہاز توڑنے کا کامیاب تجربہ کیا گیا جو کہ دنیا بھر میں توڑا جانے والا سب سے وزنی جہاز تھا ۔ اُس زمانے میں گڈانی شپ بریکنگ سے 10لاکھ ٹن سالانہ اسکریپ نکالا جاتا تھا اور اس صنعت سے 30000محنت کش وابستہ تھے۔ اِس وقت ملکی فولادی ضروریات کا تیس فیصد حصہ پوری کرنے والی اس صنعت سے دس ہزار سے زائد محنت کشوں کابراہِ راست اور سو سے زائد ری رولنگ ملز اور دیگرذیلی صنعتوں میں بیس لاکھ سے زائد مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے۔ گڈانی شپ بریکنگ کو باقاعدہ صنعت کا درجہ حاصل ہے اور شپ بریکنگ کی دنیا میں اس کا شمار تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔
آغاز میں شپ بریکنگ میں سالانہ اسکریپ 10لاکھ ٹن تک نکلتا تھا جو بعد میں سالانہ ایک لاکھ 60ہزار ٹن اسکریپ تک محدود ہو گیا ۔ اس کی وجہ شپ بریکنگ کے مالکان نے حکومت کی جانب سے اسکریپ پر نت نئے ٹیکسوں کا نفاذ اور دوسری بڑی وجہ عالمی منڈی میں اسکریپ کی قیمتوں میں کمی کو قرار دیا تھا ۔ بعد ازاں حکومت کی جانب سے بھاری ٹیکس واپس لے لیے گئے اور صرف ایک فیصد ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ۔یعنی اب شپ بریکنگ پر انکم ٹیکس 1%کسٹم ٹیکس5%اور سیلز ٹیکس5%ہے ۔ بھاری بھرکم ٹیکسوں کے خاتمے اور دیگر ٹیکسوں میں اتنی بڑی چُھوٹ کے بعدیہ صورتحال شپ بریکنگ مالکان کے حق میں مفید ثابت ہوئی اور انہوں نے دوبارہ پرانے اور ناکارہ جہاز خریدنے شروع کر دیے مگر اس صنعت کوسرمایہ داروں کی ہوس اور سفاکی نے محنت کشوں کے لیے اکیسویں صدی میں ایک ایسی غلامانہ سلطنت میں تبدیل کر دیا ہے جہاں مالکان اور ٹھیکہ داروں کا حکم اور مرضی ومنشا کو قانون کا درجہ حاصل ہے ،جہاں ایک طرف شپ بریکنگ کی عروج پر پہنچی صنعت سے مالکان اربوں اور ٹھیکہ دار کروڑوں سالانہ کما رہے ہیں تو دوسری جانب شپ بریکنگ کے مزدورنہ تو سوشل سیکورٹی اور EOBI(پنشن) کے ادارے سے منسلک ہیں اور نہ ہی نصف صدی کا عرصہ گزرنے کے باوجودیونین سازی اور اجتماعی سودا کاری کا حق رکھتے ہیں ۔ بلوچستان سمیت سندھ ، سرائیکی وسیب،پنجاب ،کشمیراور پختونخوا کے دور دراز علاقوں سے روزی روٹی کے لیے آنے والے یہ مزدور اسپتال، ایمبولنس ، رہائشی کالونیوں ، تعلیم ، ٹرانسپورٹ ،بجلی ، گیس اور پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں ۔اس پر طرفہ تماشایارڈز پر کام کے دوران حفاظتی آلات و حفاظتی تربیت کی عدم فراہمی ہے جس نے اس صنعت کوبھی کان کنی کی صنعت کی طرح خطرناک بنا دیاہے ۔مضر صحت کیمیکلز ، گیسوں اور اس طرح کے دیگر خطرناک مواد کو محفوظ طریقے سے نکالنے اور ٹھکانے لگانے کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدور جلد، پھیپھڑوں،پیٹ، آنکھوں سے لے کرہپا ٹائٹس، ٹی بی اور کینسر جیسے موذی امراض کا شکار ہیں۔
گڈانی شپ بریکنگ کے قیام کے کچھ عرصے بعد یہاں کے محنت کشوں نے اپنے حقوق کے لیے یونین بنانے کی کوشش کی جسے شپ بریکنگ مالکان اور ٹھیکہ دار مسلسل ریشہ دوانیوں کے ذریعے ناکام بناتے رہے اور یہ روش ابھی جاری ہے ۔آخر کار 1986میں شپ بریکنگ مالکان اور ٹھیکہ داروں (جمعداروں)نے ایک پاکٹ یونین بنا کر مزدوروں پر مسلط کر دی جس کے عہدیدار اور سارے کرتا دھرتا ٹھیکہ دار ہیں ۔ اپنے قیام کے تیس سال بعد بھی اس ’’یونین‘‘ کے انتخابات کبھی عمل میں نہیں لائے گئے ۔یہ ہر ماہ یونین چندے کے نام پر مزدوروں سے لاکھوں روپے کا بھتہ وصول کرتی ہے جس کا بڑا حصہ انہی مزدوروں کی بننے والی حقیقی یونینز کی ڈی رجسٹریشن سے لے کر پولیس کو ان کے خلاف استعمال کرنے،ڈرانے دھمکانے اورتشدد کرنے تک کے لیے خرچ ہوتا ہے ۔1990میں ایک بار پھر گڈانی کے محنت کشوں نے اپنی یونین بنائی جس نے پاکٹ یونین کو چیلنج کرتے ہوئے ریفرنڈم کی تاریخ بھی حاصل کر لی لیکن عین موقع پر مالکان نے لیبر ڈپارٹمنٹ سے ملی بھگت کرتے ہوئے یونین کو ڈی رجسٹرڈ کرا دیا اور یونین رہنماؤں کو ضلع بدر کر دیا گیا ۔اس کے بعد جس نے بھی مزدوروں کو منظم کرنے کی کوشش کی کی اسے ضلع بدر کرنے کی روش اپنائی گئی ۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے گڈانی شپ بریکنگ کے مزدوروں نے ایک بار پھر اپنے قانونی وآئینی حقوق کے حصول کے لیے جنوری 2009میں’’ گڈانی شپ بریکنگ ڈیموکریٹک ورکرز یونین‘‘ کی بنیاد رکھی جو جلد ہی مزدوروں کی ترجمان بن کر ابھری ۔فروری 2009میں یونین نے اپنے حقوق کے لیے کامیاب ہڑتال کی جس کے نتیجے میں اجرتوں میں 40%اضافہ ہوا اور ہیلتھ وسیفٹی کے انتظامات بہتر بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی ۔لیکن مالکان نے جلد ہی پرانے حربے سے کام لیتے ہوئے یونین کو ڈی رجسٹرڈ کرا
دیا۔
جون 2010میں ایک بار پھر اجرتوں میں 100%اضافے، غیر انسانی اوقات کارکے خاتمے ،اپائمنٹ لیٹر کا اجراء ،سوشل سیکورٹی،EOBIسے رجسٹریشن ، حفاظتی آلات کی فراہمی اور صحت وسلامتی کی دگرگوں صورتحال کے خاتمے،پینے کے صاف پانی اور مناسب خوراک کے لئے ہر پلاٹ میں کینٹین ، ہر پلاٹ میں ڈسپنسری اور ایمبولینس، رہائشی کالونی اور صحت صفائی کی سہولیات اور پولیس اور انتظامیہ کی پر تشدد کاروائیوں کے خاتمے جیسے بنیادی حقوق کے لیے مالکان کو نوٹس جا ری کیا جس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔تین دن بعد مزدور پر امن ہڑتال پر چلے گئے ۔مالکان نے ٹھیکہ داروں اور پاکٹ یونین کے ذریعے اس ہڑتا ل کو ناکام بنانے کے لئے محنت کشوں کو ڈرایا دھمکایا اور انہیں ہراساں کر نے کی کوشش کی ۔16جون2010کی صبح گڈانی پولیس نے یونین آفس سے مزدور رہنماؤں کوغیر قا نونی طور پر گرفتار کر کے گڈانی تھانے میں بند کر دیا،جس پر محنت کشوں میں شدید بے چینی اور اشتعال پھیل گیا۔ پر امن ہڑتالی مزدوروں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس اور انٹی ٹیررسٹ ٹاسک فورس نے ان پربہیمانہ تشدد ،لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس شیل کا بے دریغ استعمال کیا گیا ۔ ایک صنعتی تنازعے سے ’’نمٹنے ‘‘ کے لیے یہ شرم ناک حرکت شپ بریکنگ مالکان، ٹھیکہ داروں اور ریاستی اداروں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا ، مگر محنت کشوں کے حوصلے پست نہیں کیے جا سکے اور اس کے نتیجے میں رہنماؤں کو رہا کر دیا گیا۔ انتظامیہ نے 30 جون 2010 تک ان کے مطالبات تسلیم کر نے کی یقین دہانی کر ائی، اور ہڑتال ختم کر نے کی اپیل کی جس پر یقین کرتے ہوئے یونین نے 30 جون تک ہڑتال موخر کر دی ۔22جون کو شپ بریکنگ مالکان نے پاکٹ یونین سے ساز باز کرتے ہوئے 20%فیصد اجرتیں بڑھانے کا اعلان کیا ہے جو سراسر وعدہ خلافی تھی اور اس سلسلے میں مزدوروں کی نمائندہ تنظیم شپ بریکنگ ڈیموکریٹک ورکرز یونین کے رہناؤں کو اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا ۔

مالکان نے اپنی روایتی مزدور دشمنی کے عین مطابق مزدوروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی اور اخبارات میں جھوٹے بیانات دینے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ 30جون2010 کومزدور یونین کے ہنگامی اجلاس میں 5 جولائی2010 سے غیر معینہ مدت تک کے لئے ہڑتال پر جانے کا فیصلہ ہوا۔5 جولائی2010 کو گڈانی کے مزدوروں نے ہڑتال کر دی جس کی پاداش میں انتظامیہ کی جانب سے مزدوروں پر شدیدتشدد کیا گیاگڈانی تھانے کے SHO نے کراچی سے آنے والے ایدھی رضا کاروں کو روک دیااور نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور شپ بریکنگ ڈیمو کریٹک ورکرز یونین کے راہنماؤں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرنے کی کوشش کی جسے مزدوروں نے مزاحمت کرتے ہوئے ناکام بنا دیا۔اس کے بعد شدید گرمی میں دس ہزار سے زائد محنت کشوں نے بارہ کیلو میٹر کی شاندار ریلی نکالی ، یہ گڈانی کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی تھی ۔ جس کے خاتمے پر جلسے سے مزدور رہنماؤں نے خطاب کیا اور ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا۔اگلے روز گڈانی شپ بریکنگ کے محنت کشوں نے SHOگڈانی تھانہ،شپ بریکنگ مالکان اور ٹھیکہ داروں ،جمعداروں کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی ۔
یکم اگست2010 کو کراچی پریس کلب پر شپ بریکنگ یارڈ گڈانی میں کام کے دوران مزدوروں کی بڑھتی ہوئی شہادتوں کے خلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان ،چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ اور صوبائی و وفاقی وزیر محنت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک کی واحد شپ بریکنگ صنعت سے وابستہ مزدوروں کا خطرناک حالات میں کام کرنے پر نوٹس لیں اورمالکان کو مزدوروں کے قانونی حقوق دینے پر مجبورکریں لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ البتہ اس جدوجہد کے نتیجے میں اجرتوں میں کسی حد تک اضافہ ممکن ہو سکا ،ہیلتھ وسیفٹی کے اقدامات ،رعایتی نرخوں پر کھانا فراہم کرنے کے لیے مختلف مقامات پرکینٹین قائم کرنے ،محنت کشوں کی سوشل سیکورٹی اور حادثات کی صورت میں معاوضہ دینے کے وعدے کیے گئے جو وقت کے ساتھ ساتھ فراموش کر دیے گئے ۔اس دوران محنت کشوں کے یونین سازی کا حق سلب کرنے کے لیے مالکان اور ٹھیکہ دار مسلسل روڑے اٹکاتے رہے۔مزدوروں نے 2012میں شپ بریکنگ مزدور یونین کے نام سے ایک بار پھر اپنی یونین رجسٹرڈ کرائی لیکن اسے بھی جلد ڈی رجسٹرڈ کر ا کے یونین رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ۔جس پر ہزار وں کی تعداد میں مزدوروں نے گڈانی تھانے کا گھیراؤ کیا تب کہیں جا کر یونین رہنماؤں کو رہا کیا گیا ۔
گڈانی شپ بریکنگ کے مزدوروں کی جدوجہد ایک طویل عرصے پر محیط ہے جس میں یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری کے حق سمیت لیبر قوانین پر عمل درآمد اور صحت وسلامتی کے اقدامات سرِ فہرست ہیں ۔اس سلسلے میں مزدوروں نے 2016میں ’’ شپ بریکنگ ورکرز یونین گڈانی‘‘ کے نام سے اپنی یونین رجسٹرڈ کرائی جو ’’نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن ‘‘ کے ساتھ منسلک ہے اور ان مسائل پر مسلسل جدوجہد کررہی ہے ۔ لیکن اس غلامانہ سلطنت میں مزدوروں سے روا رکھے جانے والے قرونِ وسطیٰ طرز کے مظالم اور ہیلتھ وسیفٹی کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل ہونے والی اموات کے خلاف آواز اٹھانے والی آوازوں پر نہ کبھی مالکان، ٹھیکہ داروں نے کان دھرے اور نہ لیبر ڈپارٹمنٹ بلوچستان سے لے کر دیگر متعلقہ اداروں اور صوبائی و مرکزی حکومتوں نے اسے درخورِ اعتنا جانا۔
11ستمبر 2012کو صنعتی دنیامیں آگ لگنے کا سب سے المناک سانحہ بلدیہ ؂( علی انٹر پرائز) کے نتیجے میں 260محنت کش جھلس کر شہید ہوئے تو اس وقت بھی ’’نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن ‘‘ نے ستر مزدور تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کی جگہوں پر ہیلتھ وسیفٹی اور لیبرقوانین کے عدم اطلاق کے مسئلے کو بھرپور انداز میں اٹھایا لیکن صوبائی ومرکزی حکومتوں سے لے کر
صنعتکاروں اور لیبر سے متعلقہ اداروں نے اپنی روش تبدیل نہیں کی ۔گڈانی کے محنت کش بارہا شپ یارڈ ز کے موت کے کنوؤں میں تبدیلی کی دہایاں دیتے رہے ،مزدور اپنی زندگیوں اور اعضاء سے محروم رہے لیکن ایک بے حسی تھی جو ہر طرف محیط تھی ۔30اکتوبر 2016کی شام ایک بار پھرگڈانی شپ بریکنگ کے محنت کش کراچی پریس کلب پر خصوصی قانون سازی اورہیلتھ وسیفٹی کی سہولیات کی فراہمی کے لیے سراپا احتجاج تھے ۔
اس کے محض دو دن بعد یکم نومبر 2016کا دن گڈانی شپ بریکنگ کے مزدوروں کے لیے ایک قیامت بن کر نمودار ہوا ۔پلاٹ نمبر54پر کٹائی کے لیے موجود ایک بحری آئل ٹینکر پر آگ لگی جس پر اس وقت سو سے زائد ورکرز موجود تھے جنھیں کام کے لیے ٹھیکہ دار نے ایک رات قبل ہی جہاز پر سوارکرایا تھا ۔جہاز کے اندر آگ لگنے کی بنیادی وجہ جہاز سے آئل کی مکمل صفائی نہ کرنا او ر حفاظتی اقدامات کا نہ کیا جانا تھا ۔ چار دن تک پر آگ پر قابو نہ پایا جا سکا ۔سب سے پہلے یونین کے وہاں موجود رہنما دیگر مزدوروں کے ہمراہ جائے حادثہ پر پہنچے اور دو گھنٹے میں فیڈریشن کی مرکزی قیادت وہاں موجود تھی ۔سانحہ بلدیہ کی طرح یہاں بھی حکومتی اداروں کی بجائے سب سے پہلے امدادی سرگرمیوں کے لیے ایدھی کے رضا کار پہنچے جو مزدور رہنماؤں کے ساتھ ملکر شہید اور زخمیوں کو سنبھالتے رہے۔29مزدور شہید ہوئے جن میں سے 4کی لاشیں بھی نہ مل سکیں ، جبکہ 52مزدور بری طرح جھلس گئے تھے ۔
یونین اور فیڈریشن کے مسلسل احتجاج کے نتیجے میں سانحے کے دو ماہ بعد کہیں جا کر شہید ہونے والے مزدوروں کو مالکان کی طرف سے فی کس پندرہ لاکھ روپے اور زخمیوں کو بیس ہزار تا ایک لاکھ روپے تک معاوضہ ادا کیا گیا ہے ۔المیہ یہ ہے صوبائی و مرکزی حکومت کی طرف سے انھیں کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا ۔ورکرز ویلفیئر بورڈ نے پانچ لاکھ فی شہید کا اعلان کیا تھا جو محض اعلان ہی ثابت ہوا ، جبکہ انھیں ڈیتھ گرانٹ کی مد میں بھی کچھ نہیں دیا گیا ۔گڈانی شپ بریکنگ میں آج بھی ہیلتھ وسیفٹی کی تباہ کن صورتحال کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یکم نومبر کے ہولناک سانحے کے بعد اس ایک سال کے دوران اب تک گڈانی شپ بریکنگ یارڈز میں مختلف حادثات میں 8ورکرز شہید اور درجنوں شدید زخمی ہو چکے ہیں ۔
سانحے کے بعد مالکان نے شپ بریکنگ یارڈ میں مزدوروں کے لیے ایک اسپتال قائم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کے لیے ایک مقامی شخص نے پونے دو ایکڑ زمین بھی عطیہ کی لیکن تاحال اسپتال بنانے کے لیے قدامات نہیں کیے گئے ۔ کچھ یارڈزمیں دکھاوے کے لیے بغیر ڈرائیورکے ایمبولینس کسی ’’شوپیس ‘‘ کی مانند موجود ہیں ۔جبکہ عطائی ڈسپنسرورکرز کی صحت سے کھلواڑ میں مصروف ہیں ۔ہر پلاٹ پرپینے کے صاف پانی کے لیے ROپلانٹ لگانے اورکھانے کے لیے رعایتی کینٹین کے وعدے پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا ۔ جب کہ کمشنر قلات ڈویژن ، ڈپٹی کمشنر لسبیلہ ،لیبر ڈپارٹمنٹ لسبیلہ ، شپ بریکنگ مالکان اور یونین کے نمائندوں کے مابین سانحہ گڈانی کے بعد اجلاس میں طے کیا تھا کہ شپ بریکنگ ورکرز کو لیبر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے خصوصی شناخت ناموں کا اجراء کیا جائے گا تاکہ بطور شپ بریکنگ ورکرزان کی شناخت میں آسانی ہو اور اس کی بنیاد پر انھیں سوشل سیکورٹی اور EOBIکے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے ۔ لیکن ورکرز کو نہ تو ابھی تک شپ بریکرز کی طرف سے اپائمنٹ لیٹرجاری کیے گئے ہیں اور نہ ہی خصوصی شناخت ناموں کا اجراء ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوشل سیکورٹی اور EOBIسے رجسٹریشن کے حوالے سے نہ تو کوئی اقدامات کیے گئے ہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوششیں ہوتی نظر آرہی ہیں ۔ ’’ نیشنل ٹریڈیونین فیدریشن ‘‘(NTUF)اور ’’ شپ بریکنگ ورکرز یونین گڈانی‘‘ مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ شپ بریکنگ کی صنعت کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے قانون سازی کی جائے لیکن اس کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جارہے ۔حالانکہ اس سلسلے میں مزدوروں نے طویل مشاورت کے بعد شپ بریکنگ سے متعلق بل بھی تیار کر رکھا ہے جسے اسمبلی میں پیش کر کے شپ بریکنگ کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے ۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈز آج بھی زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی ہوس میں مبتلا سرمایہ داروں کے ہاتھوں محنت کشوں کے لیے اکیسویں صدی میں ایک ایسی غلامانہ سلطنت کی مانند ہے جہاں ان کی زندگیاں مسلسل داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ اس صورتحال کا سدِ باب گڈانی شپ بریکنگ میں ٹھیکہ داری نظام کے خاتمے،صحت وسلامتی کے اقدامات اور قانون سازی سے لے کر اس کے عملی اطلا ق ،یونین سازی، اجتماعی سودا سوداکاری کے حق ،ہانگ کانگ کنونشن اور شپ بریکنگ سے متعلقہ دیگر بین الاقوامی کنونشز کی توثیق جیسے بنیادی امور میں پنہاں ہے ۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply