کہ معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔۔۔ حفیظ نعمانی

کل ٹی وی پر ایک عجیب و غریب منظر دیکھا کہ پاکستان کے فوجی افسر پاکستان میں مقیم ملکی اور غیرملکی صحافیوں کو ہیلی کاپٹروں میں بٹھاکر کم آباد اور پہاڑی علاقوں میں لے گئے ہیں اور انگلی اٹھا اٹھاکر دکھارہے ہیں کہ وہ دیکھئے۔ یہ وہ مقامات ہیں جن کے بارے میں ہندوستان دعویٰ کررہا ہے کہ اس نے ستمبر کی 28 ویں رات کو سرجیکل اسٹرائیک حملہ کیا اور دہشت گردی کے ٹھکانوں کو برباد کرکے 38 دہشت گردوں کو موت کی نیند سلادیا۔پھر تھوڑی دور جاکر دوسرا منظر دکھایا اور بتایا کہ یہ وہ مقام ہے۔ وہاں موجود نوجوان، جوان، ادھیڑ اور بزرگ آدمیوں سے گواہی دلائی کہ پانچ دن پہلے یا اس کے دو چار دن کے اندر یہاں نہ کوئی دھماکہ ہوا اور نہ کوئی موت ہوئی۔

سب سکون سے سوتے رہے اور وقت پر جاگتے رہے۔ انڈیا ٹی وی کے چیف ایڈیٹر رجت شرما نے سوانوبجے بتایا کہ سرجیکل اسٹرائیک میں ہندوستانی فوج نے ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کئے بلکہ وہ رینگتے ہوئے ڈیڑھ کلومیٹر اندر گئے اور دہشت گردی کیمپ تباہ کرکے بخیر واپس آگئے۔ اور ہمارے ہی رفیق و عزیز عالم نقوی صاحب نے آج ہی لکھا ہے کہ

“دنیا کے سب سے زیادہ فوجی ارتکاز والے حساس ترین سرحدی علاقے میں بھارتی حملے کے وقت پاکستانی فوجیں کیا کررہی تھیں؟”

عالم نقوی صاحب نے ہی ہندو کی 3 اکتوبر کی اشاعت میں چھپے ایک مضمون کے حوالہ سے کہا ہے کہ

“سرجیکل اسٹرائیک سے متعلق دعوؤں کے حق میں کوئی قابل اعتماد ثبوت پیش نہ کئے جانے کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف افواہوں کا بازار گرم ہے بلکہ ملک میں خوف ہے اور باہر بدنامی۔”

یہ کیسی عجیب صورت حال ہے؟ ہر معاملہ میں تو ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ جس پر حملہ ہوتا ہے وہ اس کی شکایت کرتا ہے اور جس پر حملہ کرنے کا الزام ہوتا ہے وہ انکار کرتا ہے۔ جیسے پٹھان کوٹ میں جو کچھ ہوا ہندوستان نے اس کا الزام پاکستان اور اظہر مسعود پر لگایا۔ پاکستان نے انکار کیا۔ مودی جی نے پاکستان کو دعوت دی کہ اپنی ٹیم بھیجو ہم اسے دکھائیں گے۔ پاکستان سے ٹیم آئی اس کو معائنہ کرایا گیا۔ اس کے بعد بھی اس نے جاکر بیان دیا کہ ہندوستان کا الزام غلط ہے۔ اس کے آدمیوں نے ہی حملہ کیا تھا۔ اُڑی میں صبح پانچ بجے فوجی کیمپ پر حملہ ہوا جس میں ہندوستان کے 18 فوجی ہلاک ہوگئے۔ ہندوستان نے پاکستان پر الزام لگایا۔ پاکستان نے انکار کیا اور کہا کہ یہ کشمیریوں نے کیا ہوگا جنہیں آپ کی فوج مار رہی تھی۔ ہندوستان میں کیا فوج کیا حکومت کیا مخالف پارٹیاں اور کیا عوام۔ ہر طرف سے مطالبہ ہوا کہ انتقام لیا جائے۔ وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ہم اپنے بیٹوں کا خون برداشت نہیں کریں گے اور بدلہ لے کے رہیں گے۔

اور حکومت کی طرف سے اعلان ہوا کہ ہم نے بدلہ لے لیا دہشت گردی کے تین ٹھکانے تباہ کردیئے اور 38 دہشت گردوں کو موت کی نیند سلادیا۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان شور مچاتا کہ ہندوستانی فوج نے ہمارے کشمیر کے گاؤں پر حملہ کردیا اور بے گناہ کشمیریوں کو ہلاک کیا اور ان کے گھر تباہ کردیئے۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ پاکستان کہہ رہا ہے کہ ہندوستان کا نہ کوئی فوجی آیا نہ گولیاں چلیں نہ دھماکے ہوئے۔ ہندوستان جھوٹ بول رہا ہے۔ اب پاکستان کے اس بیان کے بعد شکایت کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہ جاتا۔ تو پھر نواز شریف نے ہندوستان کے خلاف نعرہ دے کر تمام مخالف پارٹیوں کو کیوں بلایا؟ اگر بات کشمیر کی ہے تو وہ تو 70 برس سے ہے۔ اور ہمیشہ رہے گی۔

عام آدمی پارٹی کے صدر اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے ہندوستان کی طرف سے سرجیکل اسٹرائیک پر وزیر اعظم کو سلوٹ کیا ہے۔ لیکن انہوں نے بھی اگر لگا کہ اسے مشکوک کردیا ہے۔ وزیر دفاع اور پرانے زمانے کے اعتبار سے وزیر جنگ پاریکر نے پاکستان کے انکار کے بعد کہا تھا کہ سرجری سے پہلے بیہوش کیا جاتا ہے۔ پاکستان ابھی بیہوش ہے۔ وزیر اعظم نے چمکتے ہوئے چہرے سے فوج کو مبارکباد دی تھی اور قوم سے کہا تھا کہ ہم نے 18 کا بدلہ لے لیا۔ حکومت کی ہر مخالف پارٹی کے لیڈر نے سرکاری بیان پر بھروسہ کرکے دل سے مبارکباد دی تھی۔ سب نے کہا تھا کہ اس معاملہ میں ہم سب ایک ہیں۔

پاکستان کے بیانات اور دنیا بھر کے صحافیوں کو مقامِ معلوم کی سیر کرانے اور اپنے صحافیوں کی طرف سے ہیلی کاپٹر استعمال ہونے اور رجت شرما کے بقول رینگتے ہوئے ڈیڑھ کلومیٹر اندر جانے اور ہندو اخبار کے بقول سرجیکل اسڑائیک میں آندھی کی طرح جانے اور طوفان کی طرح آنے یا گھنٹوں کا نہیں منٹوں کا کام ہوتا ہے کہنے جیسے متضاد بیانوں کے بعد کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ فوج کا حکومت کا اور وزیر دفاع اور وزیر اعظم کا اعتبار باقی رہ جائے گا؟ اور اگر پاکستان جیسے چھوٹے ملک سے ڈرکر حکومت اور فوج پر جھوٹ بولنے کا الزام آیا تو کیا قوم کی کمر نہیں ٹوٹ جائے گی؟

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1965 ء اور 1971 ء میں دو بڑی جنگیں ہوچکی ہیں۔ 1965 ء میں ہندوستان کے شہریوں نے معاہدہ کو پسند نہیں کیا تھا اور پاکستان کے ان مسلمانوں نے جنہیں بتایا گیا تھا کہ یہ جہاد ہے۔ انہوں نے بھی پسند نہیں کیا تھا۔ لیکن سنجیدہ مسلمانوں نے ایوب خاں کی غلطی مانا اور ایوب خاں سے نفرت بڑھ گئی۔ لیکن پاکستان نے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ اور 1971 ء میں بھی جب مسٹر بھٹو وزیر اعظم تھے تو پاکستان نے شملہ معاہدہ میں تسلیم کیا تھا کہ غلطی اس کی تھی۔

ہم نہیں سمجھ سکے کہ وہ اب کیوں جھوٹ بول رہا ہے؟ اور اسے جھوٹ بولنے سے کس فائدے کی توقع ہے؟ اگر ہندوستان اپنے بیان کے مطابق حق پر ہے تو پاکستان کا موقف تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ کشمیریوں نے اُڑی کیمپ پر حملہ کرکے 18 ہندوستانی فوجیوں کو مار دیا اور ہندوستان نے اپنے قبضہ والے کشمیر والوں کو سزا دینے کے بجائے ہمارے کشمیر پر حملہ کردیا۔ اور اگر وہ سچ بول رہا ہے تو ہندوستانی حکومت اور فوج جو کہہ رہی ہے اور جس پر پورے ملک نے جشن منایا ہے اس کا کیا ہوگا؟

لہو سے سینچ کے تر آپ نے کیا ہے جسے

Advertisements
julia rana solicitors

اب اس زمین سے لاوا اُبلنے والا ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply