سابق صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی نے اگر آرایس ایس کی تقریب میں حصہ لیا اور ہیڈٖگیوار کو ’مادروطن کا عظیم سپوت ‘ قرار دیا تو یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں، اگر انہوں نے رواداری کی تلقین کی تو یہ بھی کوئی دل کوچھو لینے والی بات نہیں تھی کہ انہوں نے آر ایس ایس کے نظریے کی تردید نہیں کی، انہوں نے موہن بھاگوت سے کوئی سوال نہیں پوچھا، انہوں نے آرایس ایس سے یہ نہیں کہا کہ حب الوطنی صرف ترشول اور ترنگا میں ہی پوشیدہ نہیں ہے۔انہوں نےیہ نہیں کہا کہ وندے ماترم کے نام پر کسی مخصوص کمیونٹی کو دیوار سے لگادینا قوم پرستی نہیں، کسی مویشی تاجر کو ’مادرمقدس‘ کے نام پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردینا بھی حب الوطنی نہیں ہے، ہمیشہ مسلمانوں کو پاکستان بھیجنا بھی دیش بھکتی نہیں ہے،اتفاق سے انہوں نے ایسی کوئی بھی بات نہیں کی جس سے مہاتما گاندھی کی روح کو کچھ تسکین پہنچتی ، ہاں انہوں نے یہ کہہ کر کہ ’میں مادروطن کے عظیم سپوت کو خراج عقیدت پیش کرنے آیا ہوں‘ گاندھی ، نہرو ، آزاد ، پٹیل، سروجنی نائڈو اور ان تمام معززقومی رہنماؤں کی توہین کی ہےجو آرایس ایس کو گاندھی کا قاتل سمجھتے تھےجو آر ایس ایس کو ہندوستانی نازی ازم مانتے تھے۔سابق صدر جمہوریہ نے ایسی کوئی بات نہیں کی جو آرایس ایس کو سوچنے پر مجبور کرتی کہ لوگ مختلف ہوسکتے ہیں، ان کے خیالات و عقائد مختلف ہوسکتےہیں اور اس کے باوجود وہ انسان ہوسکتے ہیں، نہ ہی انہوں نے دلتوں کے ساتھ اونچی ذات والوں کے جبروتشدد کا ذکر کیا اور نہ ہی مذہبی تشددسے باز رہنے کی کوئی تلقین کی۔ مزہ تو جب تھا کہ انہیں کےاسٹیج پر ان سے کہتے کہ آپ لوگ نفرت کے پجاری ہیں،موت کے سوداگر ہیں، قاندھی کے قاتل ہیں، ملک میں مذہبی تفریق و عصبیت کو فروغ دینے کے مجرم ہیں۔ لیکن اتفاق سے ایسا کچھ نہیں کہا، جو کچھ کہا کہ وہ اشارے کنائے میں کہا اور سب کے لئے کہا۔
سوال یہ ہے کہ پرنب مکھرجی نے آر ایس ایس کی تقریب میں شریک ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ ۲۰۱۹ کا پارلیمانی انتخاب نزدیک آرہا ہے اور کانگریس کے لئے یہ اقدام بہت مضرثابت ہوسکتا تھا یا ہوگا؟یہ جاننے کے لئے پرنب مکھرجی کی سیاسی زندگی کا سفر جاننا اور ایک بڑی محرومی سے واقف ہونا لازمی ہے۔
برہمن برہمن ہوتا ہے ٹھیک ایسے ہی جیسے پرنب مکھرجی کی تقریر کے بعد موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ’سنگھ سنگھ ہے اور مکھرجی مکھرجی ہیں۔، سابق صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی بھی برہمن ہی ہیںکوئی دلت یا مسلم غم گسار نہیں۔سوانہوںنے بالآخر وہی کیا جو ان سے متوقع تھا، برسوں سےدبی ہوئی وزیراعظم بننے کی سیاسی محرومی کا برہمنی انتقام باپ سے تو نہیں لیکن بیٹے سے ضرور لے لیااور ایک ایسے وقت میں لیا جب بی جے پی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے ضمنی انتخابات میں متواترشکست کے بعد تنزلی کی طرف گامزن ہوگئی تھی۔پرنب مکھرجی کے اس فیصلے سے کانگریس کو کتنا نقصان پہنچے گا اس کا فی الحال اندازہ لگانا اتنا آسان نہیں جتنا اس نتیجے پر پہنچنا ہے کہ آرایس ایس خود کو مین اسٹریم میں لانے میں کامیاب ہوتی جارہی ہے۔جہاں ایک طرف کانگریس صدر راہل گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی کا یہ کہتے ہوئے ناطقہ بند کررکھا ہے کہ وہ آرایس ایس کے آدمی ہیں ، کرپٹ ہیں، اس نظریئے نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا اور یہ ہندوستان کا نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان کے بنیادی تصور کے ہی خلاف ہےتو وہیں دوسری طرف کانگریس کے زیرعاطفت کامیابی کی ساری منزلیں طے کرنے والے غیرعوامی برہمنی رہنما مکھرجی نے آر ایس ایس کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے نازی پجاری تنظیم کے بانی ہیڈگیوار کو ’مادروطن کا عظیم سپوت‘ قرار دے کرراہل گاندھی کونہ صرف جھوٹا ثابت کردیابلکہ اب آر ایس ایس کے حوالے سے ان کے آئندہ کے بیانات کو بھی شکوک و شبہات کے زمرے میں ڈال دیا ہے ۔ فی الحال تو بات راہل گاندھی کی ہی کرتے ہیں کہ انہوں نے ہرمحاذ پر آرایس ایس کو ہدف تنقید بنایا ہے اور اس کے لئے بھیونڈی کی ایک عدالت میں مقدمہ بھی جھیل رہے ہیں ۔بابائے قوم مہاتما گاندھی کی روح پر کیا گزری ہوگی اس پر بعد میںبات ہوگی۔ راہل گاندھی کو اس وقت کانگریس قیادت کی بھرپور تعاؤن کی ضرورت تھی کہ وہ متواترسنجیدہ بیانات کے ذریعہ’ پپو‘ کا ٹیگ ہٹوانے میں کامیاب ہوئے ۔انہوں نے مودی کو ہرمحاذ پر چیلنج کیا ہے لیکن شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ کانگریس صدر بننے کے بعد اب جب کہ ان کی امیج عوام میں اور زیادہ بہتر ہورہی تھی پرنب کا آرایس ایس کے خیمے میں جانا راہل گاندھی کونہ صرف کمزور کرنا ہے بلکہ کسی زمانے میں کسی وجہ سے پیدا ہونے والی ایک بڑی محرومی کا انتقام بھی لینا ہے اور وہ محرومی سوائے اس کے کچھ اور نہیں تھی کہ وہ وزیراعظم بننا چاہتے تھے لیکن بن نہیں سکے۔اسکا اظہار پرنب مکھرجی نے خود اپنی زبان سے اس وقت کیا تھا جب کانگریس نے انہیں صدر جمہوریہ کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ اس وقت پرنب مکھرجی کی محرومیاں اس شکل میں زبان پر آگئی تھیں کہ ’اب میری وزیراعظم بننے کی عمر نہیں رہ گئی اور شاید اب اس کی باری بھی نہ آئے۔‘ وزیراعظم بننا پرنب مکھرجی کا شروع سے ہی خواب تھا حالانکہ وہ کوئی عوامی رہنما نہیں تھے،سیاست میں ۱۹۶۹ میں اندراگاندھی ان کو راجیہ سبھا کے کوٹے سے لےکر آئی تھیں اور اس کے بعد وہ اندراگاندھی کے معتمد خاص لوگوں میںشامل ہوگئے تھے، انہیں وزارت خزانہ کا عہدہ بھی دیا گیا اور وہ خود کو اندراگاندھی کا جانشین سمجھنے لگے تھے، آپریشن بلیو اسٹار کے بعد جب آنجہانی اندراگاندھی کا قتل ہوا تو پرنب نے اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا لیکن سینئر کانگریسی رہنماؤں نے انہیں نظرانداز کردیا اور راجیوگاندھی کو جانشین کے طور پر منتخب کیا۔ پرنب مکھرجی کانگریس سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے راشٹریہ سماجوادی کانگریس کے نام سے ایک الگ پارٹی بنا لی لیکن الیکشن میں انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی کیوں کہ پرنب مکھرجی کبھی بھی عوامی رہنما تھے ہی نہیں۔ وہ مغربی بنگال میں کانگریس کے تقریبا ۲۴سال تک ریاستی سربراہ رہےتھے اور اس دوران بھی وہ کانگریس کو خلیج بنگال میں غرق ہونے سے بچا نہیں سکے تھے۔تقریباً ۲۴ سال تک وہ ریاستی کانگریس کے سربراہ اور انچارج تھے اور ان برسوں میںنچلی اور درمیانی سطح پر کانگریس کیڈر کا بہت آسانی سےکمیونسٹ پارٹی کے کارکنان صفایا کرتے رہے، اس دوران جب سیاسی اہداف پر مبنی قتل کے واقعات عام سی بات تھے تو صرف اور صرف ایک ہی ایسا رہنما تھا جو مغربی بنگال میں کمیونسٹ اقتدار کی میزبانی کا شرف اٹھا رہا تھا اور وہ تھے پرنب مکھرجی، چونکہ وہ عوام سے جڑے ہوئے نہیں تھے اس لئے جب ۱۹۸۹ میں انتخاب ہوا تو ان کی پارٹی صفرپر بولڈہوگئی ، ان کی پارٹی مجبوراً کانگریس میں ضم ہوگئی لیکن ان کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز صحیح معنوں میں راجیوگاندھی کے قتل کے بعد شروع ہوا۔ ۱۹۹۱میں راجیوگاندھی کے قتل کے بعد پرنب مکھرجی کا پارٹی میں کردارکلیدی حیثیت اختیار کرگیا لیکن بدقسمتی سے اس بار بھی وہ وزیراعظم نہیں بن سکے کیوں کہ اس بار دوبڑے لوگ پہلے سے موجود تھے ایک تو نرسمہاراؤ تھے جنہیںگاندھی فیملی کی حمایت حاصل تھی اور دوسرے مہاراشٹر کے چار بار وزیراعلیٰ رہ چکے شردپوار تھے جنہیں زبردست عوامی حمایت حاصل تھی، ظاہر سی بات ہے کہ یوپی کی ایک بڑی لابی تھی جو شردپوار کو وزیراعظم کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتی تھی اس لئےبدقسمتی کہہ لیں کہ وہ وزیراعظم بنتے بنتے رہ گئےاور جہاں تک پرنب مکھرجی کی بات تھی تو ظاہر سی بات ہے کہ ایک بارپارٹی چھوڑ کر واپس پارٹی میں آنے والالیڈر بہت زیادہ سودے بازی کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔پرنب مکھرجی کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا کہ گاندھی فیملی کی نگاہ الفت کے بغیر وہ سیاست کےاگلے زینے پر قدم نہیں رکھ سکتے تو انہوں نے سونیا گاندھی کا دامن پکڑا اورانہیں ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے اور کانگریس کو جو کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد حاشئے پر چلی گئی تھی زندگی بخشنے کے لئے میدان میںآنے کی درخواست کی اور یوں کانگریسی رہنماؤں کے پرزورمطالبے پر سونیا گاندھی نے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ ۲۰۰۴ میں جب کانگریس اتحادی جماعتوں کی مدد سے حکومت سازی کی پوزیشن میں آئی تو اس وقت مسٹر ’نمبر۲‘ کو یقین تھا کہ وزیراعظم بننے کی انکی محرومی پوری ہوجائے گی لیکن اس بار میدان میں منموہن سنگھ ، نٹورسنگھ اور ارجن سنگھ جیسے لوگ تھے ،مستزادیہ کہ کانگریس کے دیگر رہنما پرنب مکھرجی کے حق میں نہیں تھے اور اس کی وجہ ان کادو ٹوک اڑیل اور اریسٹوکریٹک رویہ تھا۔ پرنب مکھرجی کانگریسی حلقوں میں اپنے اڑیل اور دوٹوک رویے کے لئے زیادہ جانے جاتے ہیں، ہرچند کہ وہ ٹربل شوٹر ہیں، ڈیل کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ،جوڑ توڑ میں ماہر ہیں ۔ امبانی فیملی کے بہت قریب ہیں لیکن عوامی حمایت حاصل کرنے کے معاملے میںبہت پیچھے رہے ہیں۔ بلاشبہ اس وقت کانگریس پارٹی کئی دگجوں کی لڑائی میں بحران میں مبتلا ہوگئی تھی لیکن سونیا گاندھی نے زبردست سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹرمن موہن سنگھ کو آگے کردیا ، یہاں بھی پرنب دا مات کھاگئے ،بازی کسی اور کے حصے میں چلی گئی اور مسٹرنمبر ۲ نمبر ۲ پر ہی معلق رہ گئے ۔
اجمالی طور پر یہ پرنب مکھرجی کی سیاسی زندگی رہی ہے، وزیراعظم بننے کا عزم اور خواب رکھتے تھے اور اتفاق سے یہ خواب پورا نہیں ہوسکا اور اس کے لئے گاندھی فیملی کے علاوہ وہ کسی اور کو ذمہ دار نہیں مانتے گرچہ اپنی زبان سےکبھی اس کا اظہار کریں یا نہ کریں۔پرنب آنجہانی راجیو گاندھی کو پسند نہیں کرتے تھےکیوں کہ راجیو کی وجہ سے ہی وہ وزیراعظم نہیں بن سکے تھےاور اب اپنی اس محرومی کا انتقام انہوں نے آر ایس ایس تقریب میں شریک ہوکرراہل گاندھی کو مایوس کرکے لیا ہے۔ ہرچند کہ یہاں بھی راہل گاندھی نے سیاسی شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کےاس فیصلے پر کوئی بیان ظاہر نہیں کیا ہے لیکن سچ تو یہی ہے کہ ہیڈگیوارکو مادروطن کا عظیم سپوت قرار دینا کانگریس کی تاریخ و تہذیب پر حملہ ہے۔پرنب مکھرجی کی بیٹی نے اپنے والدکوتقریب سے باز رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوگ آپ کا بیان بھول جائیں گے لیکن آپ کی تصویریں یاد رکھیں گے۔پرنب مکھرجی کا یہ بیان بھی یاد رکھا جائے گا کہ ’ہیڈگیوارمادروطن کےعظیم سپوت تھے اوروہ تصویریں بھی جس میں وہ ہیڈگیوار کوخراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔ تاریخ پرنب مکھرجی کے اس اقدام کو روشن جمہوریت نہیں بلکہ آئیڈیاز سے انحراف کے طور پر یاد کرے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں