• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کہا عمران کا ڈر ہے ، کہا عمران تو ہو گا ۔۔۔۔۔آصف محمود

کہا عمران کا ڈر ہے ، کہا عمران تو ہو گا ۔۔۔۔۔آصف محمود

کبھی آپ نے سوچا کہ عمران خان میں ایسی کیا خرابی ہے کہ فقیہان سیاست کسی اور چیز پر متفق ہوں نہ ہوں عمران خان کی مذمت میں یوں ہم آواز ہو جاتے ہیں ، بیابان میں جیسے کووں کے غول شور مچاتے اتر آئیں۔معاملہ کیا ہے؟

خوب یاد ہے جناب قاضی حسین احمد حیات تھے اور پوری قوت سے ’ بڑی برائی ‘ اور ’ چھوٹی برائی‘ کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔حسن نثار سے میں نے پوچھا : اگر قاضی صاحب کا نظریہ لوگوں میں مقبول ہو گیا تو کیا ہو گا؟ بغیر کسی تامل کے انہوں نے کہا : ایسا ہوا تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنی بقاء کے لیے ایک ہو جائیں گے۔حیرت اور غیر یقینی سے میں نے حسن نثار کی جانب دیکھا ، حفظ مراتب میں ، میں بولا کچھ نہیں مگر قائل نہ ہو سکا۔

آج قاضی صاحب تو اللہ کے حضور پہنچ چکے ۔لیکن یہ انہونی آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ صرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہی نہیں ، جملہ اکابرین سیاست اپنی بقاء کے لیے ایک ہو چکے ہیں۔پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ایک کہتا ہے : عمران کا ڈر ہے۔ دوسرارونی صورت بنا کر کہتا ہے: عمران تو ہو گا۔ اس کے بعد یہ سب با جماعت عمران خان کی ہجو میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

ن لیگ کا غصہ قابل فہم ہے، مگر پیپلز پارٹی؟کہنے کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا منصب اس کے پاس تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عالی جاہ خورشید شاہ کی ذمہ داریاں وفاقی وزیر برائے امور اپوزیشن کی تھیں۔معلوم پارلیمانی تاریخ میں یہ تماشا پہلی بار دیکھا گیا کہ حکومت اور اس کا وفاقی وزیر برائے امور اپوزیشن مل کر ایک تیسرے رہنما کی مذمت فرماتے پائے گئے۔کیا اس لیے کہ خوف سانجھا تھا اور کاروباری مفادات تاجروں کو اکٹھا کر ہی دیتے ہیں؟

ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہی نہیں۔قبلہ حضرت مولانا کے نشانے پر بھی عمران خان ہے۔ اول اسے یہودی ایجنٹ قرار دیا گیا اور اب ارشاد تازہ یہ ہے کہ یہ الیکشن نہیں ہے یہ حق اور باطل کے درمیان جنگ ہے۔حضرت صاحب کے ارشاد مبارکہ کے مطابق یہ باطل قوت عمران کے علاوہ کون ہو سکتی ہے؟ زرداری اور نواز شریف تو حق کے علم بردار تھے تبھی تو حضرت کی جماعت ان دونوں کی کابینہ میں موجود تھی۔نفرت دیکھیے ایک انتخابی معرکے کو حق اور باطل کی جنگ بنا دیا۔کیا الیکشن کمیشن کو کچھ خبر ہے اس کا ایک ضابطہ اخلاق ہوا کرتا تھا؟

یہ سوال البتہ ابھی تک حل طلب ہے کہ عمران اگر یہودی ایجنٹ ہے اور تحریک انصاف باطل کی قوت ہے تو قبلہ سراج الحق کیا ہیں جو پانچ سال اس یہودی ایجنٹ کی حکومت میں بیٹھ کر ثواب دارین حاصل کرتے رہے؟پانچ سال اقتدار کے جھولے لینے کے بعد درویش کو معلوم ہوا کہ عمران تو ٹھیک آدمی نہیں ہے ۔چنانچہ اب صالحین بھی پورے جذبے کے ساتھ سوشل میڈیا پر کسی کے خلاف صف آراء ہیں تو وہ یہی عمران خان ہے۔ فرزندان حق کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ ضلع دیر کو چھوڑ کر پورے ملک میں ایک نشست ایسی نہیں جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ یہ صالحین کی نشست ہے۔اب سیاست میں زندہ رہنے کے لیے اب حضرت مولانا فضل الرحمن کا دامن ہی واحد امید ہے۔صالحین اب پورے جذبہ ایمانی سے عمران کی مذمت کر کے مولانا فضل الرحمن کو اپنی نیک چلنی کا یقین دلا رہے ہیں۔ہم دعا گو ہیں کہ اس دفعہ انہیں مولانا سے سچا پیار مل جائے۔اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی سے پوچھ لیجیے وہ بھی اگر کسی کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں تو یہی عمران خان ہے۔

ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات سبھی نے عائد کیے ۔زرداری کے پیٹ پھاڑ کر دولت نکالنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے وعدے خود جناب شہباز شریف نے کیے لیکن جب عمران کرپشن کے خلاف بولتا ہے تو یہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔انتخابی دھاندلی کا رونا سب نے رویا اوور ااصف زرداری نے بھی انہیں آر اوز کا الیکشن کہا لیکن جب عمران دھاندلی کے لیے باہر نکلا تو یہ سب اکٹھے ہو گئے۔تو کیا یہ سب نورا کشتی کے پہلوان ہیں، اصل کشتی کے امکانات سے جن کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں؟

پاکستان کے فکری منظر نامے پر بھی سب سے معتوب عمران خان ہی ہے۔ایک طبقہ کہتا ہے یہ یہودی ایجنٹ ہے تو دوسرا طبقہ کہتا ہے یہ طالبان خان ہے۔ایک کے نزدیک یہ برطانیہ اور یہودیوں کا ایجنٹ ہے اور دوسرے طبقے کے نزدیک یہ طالبان کا حامی ہے۔ایک ہی سانس میں اسے پاکستان دشمن عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ بھی کہا جاتا ہے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا بھی کہا جاتا ہے۔تماشا یہیں ختم نہیں ہوتا ۔ ایک طبقے کے مطابق یہ طالبان کا حامی ہے تو دوسرے گروہ کا دعوی ہے یہ ایران کا ایجنٹ ہے۔

یہ معلوم انسانی تاریخ کا واحد آدمی ہے جو یہودی ایجنٹ بھی ہے اور طالبان خان بھی ہے۔یہ واحد آدمی ہے جو بیک وقت امریکہ کا ایجنٹ بھی ہے طالبان کا بھی ۔ یہ واحد آدمی ہے جو امریکہ کا گماشتہ بھی ہے اور ایران کا بھی ہے۔یہ واحد آدمی ہے جو بیک وقت اسلام دشمن بھی ہے اور بنیاد پرست مسلمان بھی۔اس کے مخالفین امریکہ اور بھارت کا دورہ فرما رہے ہوں تو اسے طالبان خان بنا دیتے ہیں اور کے پی کے میں تشریف فرما ہوں تو اسے یہودی ایجنٹ بنا دیتے ہیں۔

آپ اتفاقات زمانہ دیکھیے۔ لبرل بھی اس سے خفا ہیں اور صالحین بھی اس سے نفرت کرتے ہیں۔این جی اوز کی شکل میں موجود مغرب کے فکری رضاکار بھی اس سے نالاں ہیں اور اہل مدرسہ بھی اس سے بے زار ہیں۔ ن لیگ بھی اس کی مخالف ہے اور پی پی پی بھی۔ قوم پرست بھی اس سے ناراض ہیں اور روشن خیال بھی اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔یہ سبھی کو ایک بندے سے اتنی تکلیف کیوں ہے؟ اس سوال کے کئی جواب دیے جاتے ہیں مگر کسی ایک کا اعتبار نہیں۔

مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ عمران نے سیاست میں بد تمیزی کا کلچر پروان چڑھایا۔تو کیا عمران سے پہلے یہ کلچر نہیں تھا؟ کیا آپ بے نظیر بھٹو کے بارے میں خود نواز شریف کا لہجہ بھول گئے؟ کیا آپ کو یاد نہیں رہا کہ بھٹو کی اس بیٹی کے بارے میں سید مودودی کے تربیت یافتہ قافلہ حق کے لوگوں نے کیسے کیسے ترانے تخلیق کیے؟کیا یہ جماعت اسلامی ہی نہ تھی جس کے افضال صاحب اور سلیم ناز بریلوی صاحب کی آواز میں گائے گئے نغمے آئی جے آئی کے جلسوں میں گونجتے تھے:

’’ جہیڑا دینوں مذہبوں ٹھنڈا اے
جیہڑاا غندا اے ، مشٹنڈا اے
اوہدے ہتھ ترنگا جھندا اے‘‘

اور یہ نغمہ کیا شرافت کی زبان میں گایا گیا تھا کہ :
’’ کردار ترا بد معاشی اے
منشور ترا فحاشی اے
ہر عیب ترا متلاشی ہے
بی بی جی کھیڑا جان دیو‘‘

کیا قاضی حسین احمد مرحوم اور نواز شریف کی موجودگی میں ، مولوی ہلچل ،یہ نعرہ نہیں لگواتا تھا:’’ بد بخت بخت بد بخت بخت ، لم ڈھینگ نظیراں ٹھاہ‘‘۔( میں اس بے ہودہ نعرے کو یہاں لکھنے پر شہید بی بی کی روح سے معافی چاہتا ہوں۔ مقصد صرف ان حضرات کے کردار کو واضح کرنا تھا جو اس وقت اخلاقیات کا ٹوکرا سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معلوم یہ ہوتا ہے کہ انجمن مفادات باہمی کو عمران سے بہت خطرات ہیں۔ شاید ندا فاضلی نے کہا تھا: ’’ اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہو گا‘‘

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply