اسرائیل کی درندگی۔۔طاہر یاسین

اسرائیل کا وجود ختم ہو جائے گا یا باقی رہے گا؟ کیا اسرائیل کو ختم ہو جانا چاہیے؟ اسرائیل کو خطرات کیا ہیں کہ وہ ختم ہو جائے گا؟ یا اسرائیل اگر کمزور ریاست بنتا ہے یا وہ ختم ہوتا ہے تو اپنے خاتمے سے پہلے وہ دنیا کو کن مشکلات کا شکار کرے گا، یہ سب بے کار سوالات نہیں بلکہ جواب طلب ہیں۔ ان پہ ماہرین کو تحقیقات کرنا چاہیے۔ ہاں سرِ دست جو اہم موضوع ہے، وہ اسرائیل کا جارحانہ رویہ ہے، اس ریاست کا قیام اور اس کے اغراض و مقاصد ہیں۔ اسرائیلی ریاست کا جارحانہ رویہ ہی اصل میں اس کے لئے خوف کا باعث بنا ہوا ہے۔ فلسطینیوں نے کیوں اپنے گھر بار فروخت کئے؟ کیوں فلسطینیوں کو اس سب پہ آمادہ کیا گیا؟ اور اس کے نتیجے میں اب فلسطینیوں کو کن مسائل کو مشکلات کا سامنا ہے، ان موضوعات پہ بات ضرور ہونی چاہیے۔ سامنے کی بات البتہ یہ ہے کہ اسرائیل کو فلسطین بلکہ اس پورے خطہ میں من مانی کرنے کے حوالے سے عالمی طاقتوں کی پشت بانی حاصل ہے۔ اسرائیل ہی اس خطے میں امریکہ سمیت اس کے عالمی اتحادیوں کا محافظ ہے۔ تھوڑا سا معاملے کو اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو عراق، لیبیا، افغانستان، کشمیر، بوسنیا اور شام کے حالات کا اسرائیلی جارحیت سے بھی گہرا تعلق بنتا ہے۔ بالخصوص شام اور لبنان کی جانب سے اسرائیل ہمہ وقت چوکس رہا اور آخرکار شام میں خانہ جنگی کو یوں ہوا ملی کہ عالمی سیاسیات کے طالب علم انگشت بدنداں ہیں۔

فلسطینیوں کا مطالبہ بڑا جائز اور توجہ طلب ہے، ان بے چاروں کا دکھ مگر یہ ہے کہ یہ مسلمان ہیں اور پورے عربوں کی بھی انہیں حمایت حاصل نہیں، چہ جائیکہ ہم عالمی طاقتوں کی طرف سے یہ توقع کریں کہ وہ اسرائیلی مظالم پہ لب کشائی کریں گی۔ ترکی، سعودی عرب سمیت خطے کے اہم مسلم ممالک کے اسرائیل سے تعلقات قائم ہیں۔ ترکی البتہ گاہے گاہے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتا رہتا ہے۔ یہ مالی و معاشی مفادات عربوں اور ترکوں کو کسی بڑی مزاحمت سے روکے ہوئے ہیں۔ اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ آئے روز نہتے فلسطینیوں پہ اسرائیلی مظالم البتہ عالم انسانیت کے بیدار مغز افراد اور عدل پسندوں کے لئے تکلیف کا باعث ضرور ہیں۔ بڑی طاقتوں کی حکومتوں کے برعکس امریکی و برطانوی شہریوں کی ایک بڑی تعداد بہرحال گاہے بگاہے اسرائیلی درندگی کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی رہتی ہے۔ کیا عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف بیان جاری کرے گا؟ نہیں ایسا نہیں ہوگا، کیونکہ ٹرمپ اور سعودی ولی عہد کی قربت کا منطقی نتیجہ بھی تو اسرائیلی ریاست کے خطرات کو کم کرنا ہی ہے نا۔

عالمی میڈیا کی تازہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز فلسطین میں غزہ کی پٹی میں سرحدی باڑ پر احتجاج کے دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 15 فلسطینی جاں بحق اور 1400 زخمی ہوگئے، جو 2014ء کے بعد ایک روز میں پیش آنے والے بدترین واقعات ہیں۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حماس کے زیرانتظام غزہ پٹی پر اسرائیلی فوج کی براہ راست فائرنگ کی زد میں آکر 15 فلسطینی جاں بحق ہوگئے۔ زخمیوں کی تعداد 1400 سے تجاوز کرگئی ہے، جن میں 758 زخمی ایسے ہیں، جن کو براہ راست گولیاں لگی ہیں، جبکہ دیگر افراد ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کے استعمال سے زخمی ہوگئے۔ فلسطین کی وزارت صحت کے مطابق سرحد پر احتجاج کے دوران جمعے کو دن کے آغاز میں مزید دو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، فلسطینی حکام کے مطابق اس سے قبل اسرائیلی فوج سے تصادم کے دوران ایک فلسطینی جاں بحق ہوا اور دوسرے واقعے میں ٹینکوں کی فائرنگ سے ایک کسان بھی جاں بحق ہوا تھا۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان سرحد میں حماس کی جانب سے مختلف مقامات پر ہونے والے احتجاج کے دوران جب کشیدگی بڑھی تو مظاہرین نے پتھراؤ کیا جبکہ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جبکہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں نے ٹائرز کو نذر آتش کیا اور سرحد پر تعینات فوج پر پتھراؤ کیا، جس کے جواب میں فوج کی جانب سے فائر کھول دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کو اسرائیل کی خود مختاری کی خلاف ورزی یا سکیورٹی باڑ کو نقصان پہنچانے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے ہفتے کو یوم سوگ منانے کا اعلان کر دیا۔ خیال رہے کہ فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی قبضے اور مقامی افراد کو بے دخل کرنے کے 70 برس پورے ہونے کے سلسلے میں فلسطینی احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں اور 15 مئی کو وسیع پیمانے پر سرحدی باڑ کے ساتھ احتجاج کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ احتجاج کا یہ سلسلہ دب جائے گا یا رک جائے گا۔ فلسطینی 70 برس سے جانوں کے نذرانے پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہاں ضرورت ہے تو اس امر کی کہ عالم انسانیت کے عدل پسند افراد اپنی اپنی حکومتوں پر دبائو ڈالیں کہ وہ اسرائیل کی پشتی بانی سے باز رہیں۔ مسلم دنیا کو بھی چاہیے کہ وہ کھوکھلے نعروں کے بجائے عملی معاملات کا جائزہ لے اور دیکھے کہ فلسطین کے مسئلے کا کیا سیاسی اور عملی حل موجود ہے۔ دھمکیوں سے سراسر نقصان عالم اسلام اور بالخصوص فلسطینیوں کا ہو رہا ہے۔ اسرائیلی درندگی کے خلاف عالم اسلام عالم انسانیت کے عدل پسندوں سے مل کر لائحہ عمل ترتیب دے۔ فلسطینیوں کو ہماری عملی ضرورت ہے نہ کہ جذباتی۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply