پرسرار چاند ۔۔۔۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

ہماری کائنات کو پہیلی اسی خاطر کہا جاتا ہےکیونکہ یہ ہم سے باتیں کرتی ہے اور ہمیں اشارے کنائے میں بتاتی رہتی ہے کہ مجھ میں یہ یہ راز پوشیدہ ہیں اگر ہمت کروگے تو ان رازوں کو پاسکتے ہو، کائنات کی زبان کو سائنسدان انتھک محنت کے بعدسمجھتے ہیں اور زمین پر رہتے ہوئے کائنات کے دُور دراز محلوں سے نئے نئے حیرت انگیز راز کھوجتے رہتے ہیں۔ پلوٹو کو دریافت کرنے میں یہی “کائناتی زبان” کارفرما تھی،آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے جب سائنسدانوں نے Uranusاور Neptune کو دریافت کیا تو ان کے مدار کو دیکھ کر انہیں شک گزرا کہ ہمارے نظام شمسی میں ضرور کوئی ان دیکھا سیارہ موجودہے جو ان دونوں سیاروں کے مدار (orbit)پر اثر انداز ہورہا ہے۔ چونکہ زمین پر بیٹھے ہوئے آپ عام آنکھ سے پلوٹو کو کسی صورت نہیں دیکھ سکتے  جس وجہ سے سائنسدان حیران و پریشان تھے کہ یہ ان دیکھا سیارہ کہاں موجود ہے؟
اس پر مزید پریشانی یہ تھی کہ ریاضی کی مساواتیں آسمان کے جس حصے میں اس ان دیکھے سیارے کی پیشنگوئی کرتے دکھائی دیتی تھیں وہاں کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا تھا، لیکن پھر پوری دنیا نے 18 فروری 1930ء کا دن بھی دیکھا جب Clyde Tombaughنے اپنی ٹیلی سکوپ کی مدد سے پلوٹوکو کھوج نکالا ،یہ حیران کن دریافت تھی جس سے ہمیں معلوم ہوا کہ واقعی کائنات بولتی ہےاور ہم اس سے باتیں کرکے آنے والے وقتوں میں بہت سے راز سمجھ سکتے ہیں!
 بہرحال پلوٹو کی دریافت کسی shock سے کم نہیں تھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پلوٹو کے مدار میں بھی گڑبڑ موجود تھی، پلوٹو کےمدار میں گڑبڑ   کو دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ پلوٹو سے آگے بھی کوئی سیارہ موجود ہے جس کا اثر پلوٹو کے مدار میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سیارے کو Planet-X نام دیا گیا، پلوٹو کی دریافت کو 90 سال گزر گئے لیکن آج تک ہم اس سے آگے موجود پرسرار سیارے کو دریافت نہیں کرپائے۔
دراصل جو سیارے ہمارے سورج سے جتنا دور ہیں ان کو کھوجنا اتنا ہی مشکل اور ناممکن ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی سیارہ/چاند ہمیں اسی صورت میں دکھائی دیتا ہےجب سورج کی روشنی اس سے ٹکرا کر ہم تک پہنچتی ہے ، لہٰذا جو جسم سورج سے جتنا فاصلے پر ہوگا اس کا دریافت ہونا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے، اس کے علاوہ کسی چیز کا دکھائی دینا اس کے حجم پر بھی dependکرتا ہے۔ کتنا حیران کن احساس ہے کہ آج بھی ہم ریاضی کی مدد سے یہ بتا سکتے ہیں کہ Planet-Xآسمان کے اس حصے میں موجود ہے لیکن اسے دیکھ نہیں سکتے۔ پچھلے سال 2017ء میں کچھ امریکی فلکیات دانوں نے اپنی ٹیلی سکوپس آسمان کی جانب بلند کیں اور Planet-Xکو تلاش کرنا شروع کیا۔
اس تحقیق کے دوران انہوں نے مشتری کے آس پاس کچھ پتھر دیکھے، یہ مشتری سے کچھ فاصلے پر موجود تھے۔ امریکی فلکیات دانوں کی ٹیم نے ان پرسرار پتھروں کو دیکھ کر Planet-Xکی جگہ ان پتھروں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ تقریباً ایک سال کی تحقیق اور دنیا کی متعدد عظیم ٹیلی سکوپس کے ساتھ ڈیٹا شئیر کرنے کے بعد کچھ دن پہلے انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی ٹیم نے مشتری کے 12 نئے چاند کھوج نکالے ہیں۔ اس کھوج کے بعد مشتری کے تقریباً 79 چاند ہوگئے ہیں۔ہمارے چاند کا حجم 3474کلومیٹر ہےجبکہ مشتری کے ان نئے ننھے مہمانوں کا حجم 1 سے 3 کلومیٹر تک ہے ، ہمارا چاند تقریباً 27 دنوں میں زمین کے گرد چکر مکمل کرلیتا ہے جبکہ مشتری کے یہ چاند ا سکے گرد 2 سالوں میں ایک چکر مکمل کرتے ہیں۔79 چاند وں کے ساتھ مشتری اس وقت نظام شمسی کا سب سے زیادہ چاند رکھنے والا سیارہ بن چکا ہے۔
سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ مشتری کے یہ ننھے چانداس کے وجود میں آنے کےفوراً بعد ہی بن گئے تھے ۔آج سے 400 سال پہلے جنوری 1610ء میں جب گیلیلو نے عدسے کی مددسے آسمان کو observeکیا تھا تومشتری کے گرد اسے چارچاند دِکھائی دئیے تھے جنہیں Galilean Moons کے نام سے جانا جاتا ہےلیکن اب انسانیت  400 سال کے سفر کے بعد مشتری کے 79 چاند دریافت کرچکی ہے۔
مشتری کے چاند کے متعلق ایک عجیب حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کے 79 میں سے تقریباً 41چاند الٹ سمت میں سفر کرتے ہیں، یعنی جو چاند مشتری کے قریب ہیں ان کے اپنے مدار میں سفر کرنے کی سمت anti-clockwise ہے جبکہ مشتری سے دُور موجود چاند clockwise سمت میں سفر کرتے ہیں، ہمارا اپنا چاند بھی زمین کے گرد anticlockwise سمت میں سفر کرتا ہے، اس کی مثال ایسے سمجھیے کہ اگر آپ زمین کی جگہ مشتری پر موجود ہوتے تو آپ کو رات کے وقت آسمان پر38چاند مشرق سے مغرب کی جانب سفر کردکھائی دیتے جبکہ 41چاند مغرب سے مشرق کی جانب سفر کرتے دکھائی دیتے۔
جیسا کہ آپ تصویر میں بھی دیکھ سکتےہیں کہ اِن چاندوں کو ان کے سفر کرنے کی سمت کے حساب سے مختلف گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے، لیکن جدید تحقیق میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ Valetudo نامی ایک چانداُن 41 چاندوں کے گروپس میں رہتا ہے جو اُلٹ سمت میں سفر کررہے ہیں مگر Valetudo ان تمام چاندوں کے برعکس سیدھی سمت میں سفر کررہا ہے ، یہ ایسے ہی ہے کہ آپ ون وے سڑک پر ساری ٹریفک کے برعکس الٹ سمت میں گاڑی چلانا شروع کردیں،جس وجہ سے سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ مشتری کا یہ چاند آنے والے کئی سو سالوں میں اپنے ہی کسی پڑوسی چاند سے ٹکرا جائے گا اور پاش پاش ہوجائے گا۔ جو چاند سیدھی سمت میں سفر کررہے ہیں ان کے مدار کو Prograde orbitکہاجاتاہے جبکہ جو چاند اُلٹ سمت میں سفر کررہے ہیں ان کے مداروں کو Retrograde orbit کہا جاتاہے۔
ہمارے نظام شمسی میں مشتری، زحل اور یورینس کے کچھ چاند retrograde orbit کے حامل ہیں۔یاد رہے کہ کسی بھی سیارے کے گرد موجود پتھروں کو چاند اسی صورت میں قرار دیا جاتا ہے اگر وہ سیارے کے گرد گھوم رہے ہوں اور ان کا راستہ (orbit)بالکل صاف ہویعنی ان کے راستے میں مزید کوئی بڑا پتھریا چاند موجود نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہماری زمین کا ایک چاند ہے ،حالانکہ اگر تحقیق کی جائے تو پتہ چلتا ہے آج سے 40 سال پہلے سائنسدانوں نے زمین کا ایک اور چاند بھی دریافت کیا تھا، جس کا نام Cruithneہے، اس کا سائز تقریباً 5 کلومیٹر ہے، لیکن مسئلہ یہاں آکر بنتا ہے کہ یہ 5 کلومیٹر حجم کا حامل پتھر زمین کے ساتھ ساتھ سورج کے گرد بھی چکر لگا رہا ہےیوں یہ زمین کے گرد ایک چکر تقریباً 700 سالوں میں مکمل کرتا ہے ۔
سائنسدانوں  کا اندازہ ہے کہ آج سے تقریباً کچھ ہزار سال بعد یہ پتھر آہستہ آہستہ زمین کے قریب ہوتا جائے گا اور زمین کے گرد چکر لگانا شروع ہوجائے گا جس کا مطلب ہے کہ آج سے کچھ ہزار سال بعد ہماری زمین کے بھی 2 چاند ہوجائیں گے۔ بہت چھوٹا ہونے کے باعث یہ دوسرا چاند ہمیں بڑے چاند کی طرح واضح دکھائی تونہیں دے گا مگر آسمان پر نقطے کی صورت میں نظر آتا رہے گا، یاد رہے کہ ہمارے چاند کا سائز 3474 کلومیٹر ہے جبکہ اس کا سائز محض 5 کلومیٹر ہے،سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ  اس جیسے 4 مزید چاند نما پتھر ہماری زمین اور سورج کے گرد چکر لگارہے ہیں۔ کائنات کے دُور دراز حصوں کو کھوجنے کی جستجو لیے جب انسان اپنے نظام شمسی کو سمجھنا شروع کرتا ہے تو حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
جوں جوں جدید تحقیقات سامنے آرہی ہیں یوں لگتا ہے کہ کائنات کوتو چھوڑیں ہمیں اپنے نظام شمسی کے متعلق بھی فی الحال مکمل معلومات نہیں ہیں، ہمیں یہ بھی کنفرم معلوم نہیں ہے کہ واقعی ہماری زمین کا ایک ہی چاند ہے یا مزید بھی کوئی چاند موجود ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔جولائی 2018ء تک ہماری معلومات کے مطابق نظام شمسی میں چاندوں کی تعداد یہ ہیں کہ مشتری کے 79 ، زحل کے 61، یورینس کے گرد 27، نیپچون کے گرد 14، مریخ کے گرد 2 جبکہ زمین کے گرد ایک چاند ہے،لیکن آنے والے وقت میں ان میں اضافہ ہوجائے گا اسی خاطر سائنس کسی بھی معلومات کو حتمی نہیں کہتی اور نہ ہی کبھی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم سب کچھ معلوم کرچکے ہیں۔آنے والا دور ہمار ے لئے کتنے حیرتوں کے سمندر لے کر آتا ہے اس متعلق قبل از وقت کچھ بھی کہنا ناممکن ہے!
زیب نامہ
نظام شمسی کے کنارے پر موجود مبینہ سیارہ Planet-X کے متعلق اردو ڈاکومینٹری دیکھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے:
https://www.youtube.com/watch?v=93e4bEkNCYo

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply