عمران خان پی ایم آفس سائیکل پر جایا کرے۔۔۔محمد سلیم

میں خود پروٹوکول جیسی فرعونیت کا شدت سے مخالف ہوں  اور اس پروٹوکول کی ذلت اور خرابیوں کی بیسیوں مثالیں دے سکتا ہوں مگر سب سے گندی مثال سید یوسف رضا گیلانی صاحب کا اپنے دور حکومت میں فیصل مسجد میں میں رمضان شریف کا جمعہ پڑھنے جانا تھا۔ آپ کی ایک جمعہ نماز کے لیے  اسلام آباد کی سڑکوں چوراہوں پر ہزاروں لوگ چلچلاتی دھوپ میں ، پروٹوکول کی وجہ سے بند ہو جانے والی سڑکوں پر، روزے کے ساتھ ذلیل و خوار ہونے کے ساتھ ساتھ جمعہ سے بھی محروم رہے۔ کاش گیلانی صاحب ہزاروں لوگوں کی بد دعا لینے کی بجائے اپنے گھر میں ہی نماز پڑھ لیتے۔

ہماری تو تاریخ میں ہی کبھی ثابت نہیں کہ ہمارا کوئی حکمران بغیر پروٹوکول کے سڑکوں بازاروں میں نکلا ہویا اپنے دفتر گیا ہو۔ بھٹو عوامی حکمران تھا مگر جس شہر کا دورہ کرتا تھا وہاں کے سکولوں کے بچے  بچیوں کی شامت آ جاتی تھی۔ جس سڑک سے گزرنا ہوتا تھا وہاں تپتی دھوپ میں بھوکے پیاسے ہزاروں بچے قطار بنا کر کھڑے کر دیئے جاتے تھے تاکہ صاحب کو سلیوٹ اور سلامی دیں۔

ہاں ایک بار سنا کہ پرویز مشرف نے ایک سڑک پر ٹریفک سگنل کے احترام میں گاڑی رکوائی ہے۔ بس وہی پہلی اور آخری مرتبہ تھا۔ سنا ہے کہ پروٹوکول والوں نے کہا تھا کہ صاحب بہادر، اگر اس عہدے پر اور زندہ رہنا ہے تو ہمارے مطابق چلنا ہوگا۔جیسا ہم کہیں گے ویسے کرنا ہوگا۔

میاں اظہر تو بندے ہی سادے اور بیبے  ہیں ، گورنر ہاؤں میں بیٹھ کر بھی سادہ باتیں کرتے تھے کہ کس طرح وہ اور ان کا والد دونوں مل کر اپنی بھینس نئی کرانے لے جایا کرتے تھے۔ ایک صحافی کو آپ نے بتایا کہ مجھے اپنی بیوی کے ساتھ واک کرنا اچھا لگتا ہے مگر پروٹوکول والے کہتے ہیں پہلے ہمیں اپنی موومنٹ کے بارے میں آگاہ کرو۔

پاکستان میں ایک سربراہ یا حکمران کی موومنٹ کے تین سے زیادہ پلان ہوتے ہیں، آخری لمحات میں ایک فائنل کیا جاتا ہے۔ اور اس بات کو بچہ بچہ جانتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب پرویز مشرف پر پہلا حملہ ہوا تو کوئی بھی اس حملے کو اصلی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا، سفید جھوٹ جیسا لگتا تھا کہ ریموٹ کنٹرول جیمر لگا ہوا تھا جس کی وجہ سے بم ان کے کانوائے کے گزر چکنے کے بعد پھٹا۔ عوام کئی دن تک اس پر ہنستی رہی تھی مگر جب دوسرا حملہ ہوا تو لوگ حملے کی منصوبہ بندی دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے کہ ایسا فلمی کام اصلی زندگی میں بھی ہو سکتا ہے!

ازراہ کرم اپنے ملکی حالات کو دیکھیے ، سابقہ پیش روؤں کو دیکھیے  اور اسی انداز میں اگلے حکمرانوں سے توقعات باندھیے ۔

ہمارے ہاں کل تک اسی پروٹوکول میں اموات اور پیدائشیں ہوتی رہی ہیں، نواز شریف کے جی ٹی روڈ احتجاج میں بچے جوان کچلے گئے، کسی نے رکنا تک گوارا نہیں کیا۔ بینظیر اسی عوامی دباؤ کے چکر میں سکیوریٹی پیمانوں کو تجاوز کرنے کے چکروں میں ماری گئی۔

ہمارا بلاول کوئی حکومتی عہدہ رکھے بغیر ، سو سے کم گاڑیوں کے پروٹوکول کے بغیر نہیں چلتا۔ کرپٹ شرجیل میمن کا ٹین ایج بیٹا پچاس سے کم پولیس والوں کے بغیر نہیں چلتا۔ حمزہ شہباز شریف سستا بازار دیکھنے کیلئے ہیلی کاپٹر کے بغیر نہیں جاتا۔ مریم نواز پیشیوں پر جانے کیلئے کروڑوں روپے سکیوریٹی اور پروٹوکول پر لگواتی رہی ہے۔ زرداری اپنی رہائش کے آس پاس کے پچاس بنگلوں کو خالی کرا کر رہنا پسند کرتا ہے، ریڈ کارپٹ کے بغیر اپنے پاؤں ہیلی کاپٹر سے نیچے نئیں اتارتا۔ نواز شریف مناسب سکیوریٹی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے اپنے پورے دور حکومت میں دو یا تین بار سے زیادہ پارلیمنٹ ہاؤس نہیں جا سکے۔

مجھے ریڈیو پر چلنے والی ایک مشہوری ابھی تک یاد ہے جس میں ایک مزارع بے وزن شعر گنگناتا تھا کہ باغاں وچ پھل ماہیا، ساڈی فصلاں نوں رنگ لگ گئے۔ چوہدری پوچھتا تھا کہ ماجھے، ایہہ کیہہ شعر بنڑیا؟ ماجھا کہتا تھا چوہدری صاحب شعر بنڑے یا نہ بنڑے فصلاں بنڑ گئیاں نیں۔ (ویسے مجھے اوہ صلی والا گندہ شعر بھی آتا ہے)

کہنے والی  بات یہ ہے کہ ، سیدھا سیدھا بتا دیں کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ ہمارے شہر میں فیس ڈی ٹیکشن کیمرے لگے ہوئے ہیں اور اور موشن ڈی ٹیکشن کی وجہ سے کسی بھی ادنی یا اعلی شخص کی ایک روز کی روئیداد فلم کی صورت میں حکومت کے پاس ریکارڈ ہوتی ہے۔ اتنی احتیاط کے باوجود بھی اگلے ماہ ہونے والے صدارتی دورے کےلیے  شہر بھر کی سڑکوں کو ری نیو کیا جا رہا ہے، تجاوزات ہٹائی جا رہی ہیں، لوگوں سے رابطہ رکھا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے ہاں تو دارالحکومت کی بھی اکثر سڑکیں کچھ دور ہٹ جاؤ تو جنگل میں جا نکلتی ہیں۔ ایسے میں آنے والے بیچارے حکمران سے سائیکل پر آنے جانے کی فرمائش کرنا کیا معنی بناتی ہیں؟ شعر بنے یا نہ بنے، بات سیدھی بتا دیجیئے کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply