بُھٹو جونئیر نے ایسا کیا کیا ؟

بھٹو جونیئر نے ایسا کیا کیا؟
ذوالفقار علی لُنڈ!

بھٹو خاندان جرات و بہادری اور سیاسی سوجھ بوجھ کی میراث کا امین ہے۔ یہ میراث مُختلف شکلوں میں تاریخ کے اوراق اور ان کے چاہنے والوں کے دلوں پر کُندہ ہے۔ اس خاندان کی تاریخ بہت سے غیر معمولی واقعات سے بھری پڑی ہے جس کے اثر ات ملکی سطح پر اثر ڈالتے ہیں۔کُچھ دنوں سے ذوالفقار علی بُھٹو جونئیر کی ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں وہ مُخنث کا کردار کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس ویڈیو کو لے کر مُختلف طبقہ فکر کے لوگ اپنے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔میں لوگوں کے جذبات اور تبصروں کو بہت توجہ سے پڑھتا رہا ہوں۔ خاص کر پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کے تبصرے، کیونکہ ان کے خیالات سے میں اس سوسائٹی سے مُنسلک افراد کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کا اندازہ لگانا چاہتا تھا۔اس ویڈیو کے ذریعے چار مُختلف قسم کے طبقات کے رُجحانات اور سوچ کا عکس عیاں ہوا جس کی بُنیاد پر ہم اپنی سوسائٹی کے میلانات، تصورات اور حقائق کا ادراک کر سکتے ہیں۔ اس کی تفصیل کُچھ یوں ہے۔

1۔ سٹیریو ٹائپ مردانگی!
ہم پدرانہ سماج میں جیتے ہیں جس کی وجہ سے اس قسم کی سوچ کے حامل افراد کے تبصرے زیادہ تعداد میں سوشل میڈیا پر نظر آئے۔ یہ لوگ ’مرد‘ کی بے لگام طاقت کو بطور ہتھیار سمجھتے ہیں اور اسے فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں کثیر تعداد ایسے ہی افراد پر مشتمل ہے ہیں جو جنس کی بُنیاد پر انسانوں کے کردار کو طے کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ان کے رویوں میں تشدد، انا پرستی اور تفاخر کے عناصر کافی نُمایاں ہیں۔ اس رُجحان کی وجہ سے یہ اپنے سے کمزور طبقات کو تشدد کے ذریعے دبا کر رکھنے کے عادی ہیں جس کی وجہ انسانی آزادیوں پر ان کا یقین بہت کمزور، تعصب پر مبنی اور محدود قسم کا ہے۔ انہی کے خوف سے ہمارا معاشرہ انسانی بُنیادی حقوق اور آزادیوں کی بحث سے بھی کوسوں دور ہے۔

2۔ جیالے!
یہ طبقہ تین مُختلف انداز سے اس ویڈیو پر اپنا رد عمل دکھا رہا ہے جو کافی دلچسپ ہے۔
ایک وہ جو سندھ سے تعلق رکھتے ہیں اُن میں سے زیادہ تر اسے تصوف اور صوفی ازم سے جوڑ کر جئے بھٹو کا نعرہ لگا رہے ہیں، پنجاب اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد اس ویڈیو پر شرمندگی اور افسوس پر مبنی ملے جُلے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ تیسرے وہ لوگ جو میر مرتضی بُھٹو کی سیاست سے لگاؤ رکھتے ہیں اور میر کا کردار ذوالفقار میں ڈھونڈ رہے تھے وہ اس ویڈیو پر نا اُمیدی اور بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں۔

3۔ مخالفین!
اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اس ویڈیو کو بھٹو خاندان کے خلاف بطور کتھارسز استعمال کر رہے ہیں۔ بیشتر افراد اس کو بلاول بُھٹو زرداری سے مُنسلک کر کے انتہائی متعصبانہ تبصرے کر رہے ہیں۔ ان کے ’ فرمودات‘ اُس مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتے ہیں جو عزت کے معیار کو جنس کی بُنیاد پر پرکھتے اور جانچتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’بُھٹو خاندان کے اکثر مرد ’گے‘ ہیں تبھی، تو ان کی عورتیں سیاست میں آگے آ رہی ہیں‘۔ایک اور شخص نے تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا کہ بُھٹو خاندان کی اصل پہچان یہی ہے۔

4۔ سیکولر اور لبرل طبقہ!
یہ لوگ بہت قلیل تعداد میں ہیں تاہم ان کی موجودگی کا احساس ضرور ہوا ہے۔ یہ طبقہ تبصروں کی حد تک کافی مُثبت رد عمل کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ اسے انسان کی آزادی اور دُنیا میں ایک نئے کلچر کی نُمائندگی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کے کمنٹس میں اپنے جسم پر اختیار کے حقوق، جنس کی بُنیاد پر سماجی رُتبے کے تعین کی نفی اور ذاتی آزادیوں کی حوصلہ افزائی جیسے رُجحانات نُمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔اس ویڈیو پر خواتین نے ابھی تک کوئی خاص رد عمل نہیں دکھایا بلکہ وہ باقی معاملات کی طرح یہاں پر بھی خاموش رہنے پر ہی اکتفا کرتی نظر آئی ہیں۔اس ویڈیو پر کیے گئے تبصروں کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ سماج کی اکثریت دوسروں کی زندگیوں کو اپنے تصورات اور تعصبات میں ڈھونڈنے کی عادی ہے۔ لوگ زندگی کو حسین رنگوں کا امتزاج ماننے کی بجائے گِھسے پٹے انداز سے اُس کو نہ صرف خود گُزارنے کے عادی ہیں بلکہ اپنا فلسفہ حیات دوسروں پر بھی تھوپنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سی بُنیادی آزادیاں ہماری سوسائٹی میں نا پید ہیں۔

ذوالفقار علی بھُٹو جونئیر کی اپنی ذاتی زندگی ہے وہ جیسے جینا چاہے یہ اُس کا بُنیادی حق ہے، وہ اندھی بُلھن کو بطور سماجی استعارہ استعمال کرتا ہے، وہ اُسے بچانا چاہتا ہے، وہ اپنی ذات کو سماجی رشتوں کی غُلامیوں سے مُکت کرنا چاہتا ہے، وہ تشدد اور طاقت کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہتا، وہ کٹھ پُتلیوں کی طرح جینا نہیں چاہتا، وہ سماج کے کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے ساتھ رہ کر سکون محسوس کرتا ہے، وہ نرم اور کومل زندگی کی بات کرتا ہے، وہ اپنے عمل سے کسی کو نُقصان نہیں پہنچانا چاہتا تو اس میں ہمیں کیا تکلیف ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

مگر جب سے ہمارے سماج کی ساخت کو بگاڑنے والوں نے ہمیں تشدد پسند ہیروز سے آشنا کیا ہے جن کا تعلق استعمار کے ایجنڈے سے تھا جو دولت اور عزت لوٹنے کے لیے مقامی لوگوں پر حملہ کرتے رہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، وہاں ایسی ویڈیو پر اس قسم کا رد عمل آنا فطری ہے۔بعض اوقات عقل، ’کُل‘ ہو کر بھی عاجز رہتی ہے۔ تب وجدان کی ضرورت پڑتی ہے جو دراصل صوفیانہ تجربہ ہے۔فرانسیسی فلسفی ہنری برگساں کا خیال ہے کہ ہر آدمی اساس حیات کو نہیں سمجھ سکتا۔ دنیا میں چیدہ چیدہ افراد ہی ایسے ہیں جنہیں حیاتی لہر کا من حیث الکُل عرفان بخشا گیا ہے۔’البتہ حقیقت کا جزوی وجدان ایسے متعدد افراد کو حاصل ہو جاتا ہے جنہیں عام اصطلاح میں صوفیا کہا جاتا ہے‘۔برگساں صوفیانہ واردات کو وحدت الوجودی فعل قرار نہیں دیتا بلکہ کہتا ہے کہ ایک صوفی ایسی فعلیت کو کسی حد تک آگے بڑھانے کا اہل بن جاتا ہے۔برصغیر کی مٹی تصوف اور ذات کی قید سے آزادی کی خوشبو سے معمور ہے۔ ذوالفقار علی جو نیئر نے اس خوشبو کو مزید پھیلایا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply