مریض کے بقول اس کو سانپ نے ڈسا تھا لیکن اس کا معاملہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
چہرہ مکمل سرخ ہو گیا تھا، دل بری طرح زخمی تھا، کلیجہ پھٹنے کو آیا ہوا تھا اور دماغ اضطراب سے بھرا ہوا تھا۔
میں نے پوچھا: “سانپ بڑا تھا یا چھوٹا تھا؟”
اس نے کہا:
“پتہ نہیں”
“کس رنگ کا تھا؟”
“پتہ نہیں”
“کس جگہ ڈسا؟”
“پتہ نہیں”
“کچھ نہ کچھ تو یاد ہوگا۔ کوئی علامت یا کوئی نشانی ہی بتا دو۔”
کہنے لگا: “اور تو کچھ پتہ نہیں۔
بس اتنا یاد ہے کہ وہ سانپ آستین سے نکلا تھا۔”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں