دو طبقات کی خصوصی مدد کیجیے۔۔ انعام رانا

کرونا لاک ڈاؤن نے معاشی سرگرمیوں کی ایسی کی تیسی پھیر دی ہے۔ برطانیہ جیسے ملک نے آج رپورٹ کیا کہ ہمارے جی ڈی پی میں 34فیصد کمی آئے گی (خوفناک خبر ہے)۔ ورلڈ بنک رپورٹ کے مطابق پاکستان  کی اکانومی جمود کا شکار ہونے جا رہی ہے، جو بہت الارمنگ خبر ہے۔ پاکستانیوں کو اللہ نے بڑا دل دیا ہے، دردمند دل والے اپنی بساط کے مطابق زیادہ سے زیادہ امداد  کر رہے ہیں۔ بلکہ اتنی  زیادہ کہ راشن اکٹھا کرنا اور پھر اس کو کہیں بیچ دینا ایک نیا پیشہ بن گیا ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں اتنی زیادہ چیریٹی ہونے کے باوجود کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں کہ مستحق کی امداد ضرورت کے مطابق ہو سکے اور کوئی ناجائز فائدہ بھی نہ  اٹھائے۔ سیدی رسول کریم ﷺ نے اپنے اردگرد کے ہمسایہ کا خیال رکھنے کا اصول دیا ،بلکہ صحابہ کہتے ہیں کہ ہمسائے کے حقوق پہ اتنا زور تھا کہ ہمیں لگا کہ شاید وراثت میں بھی ہمسائے  کو حصہ دینے کا حکم آ جائے گا۔ یہ اصول دنیا کی سب سے بڑی چیرٹی چین ہے۔ ہمارے دادا، پردادا کے دور تک مائیں گھر پکائی ہانڈی کم از کم ایک دو گھرانوں کو کسی نہ  کسی بہانے  ضرور بھیجتی تھیں، شاید یہ ختم دِلا کر بانٹنے کی روایت بھی یونہی پڑی ہو۔ خیر اس دوران دو طبقات شاید ابھی تک  آپ کی نظر وں سے اوجھل ہیں۔

سیکس ورکرز یا طوائفیں ،چاہے جتنی مرضی اخلاقی نفرت کر لیجیے ،ہمارے سماج کا حصہ ہیں۔ ان کا رزق لوگوں کی “عیاشی” سے وابستہ ہے۔ اس وبا کے دوران ظاہر ہے کوئی گاہک ان کے دروازے پہ نہیں۔ ایسے میں وہ اور ان سے منسلک لوگ فاقوں پہ اتر آئے ہوں گے۔ سو امداد کرتے ہوئے ان کا خیال کیجیے اور ان تک امداد پہنچائیے۔ اسی میں آپ خواجہ سرا اور  گانے بجانےکے پیشے   سے وابستہ دیگر لوگوں کو بھی شامل رکھیے کہ ان کا رزق بھی “تماش بینوں” سے وابستہ ہے۔ میرا رب ان کی مدد پہ بھی آپ کو انشااللہ اتنا ہی اجر دے گا جتنا کسی بیوہ یا یتیم کی۔

دوسرا طبقہ ہمارے مولوی و مدرس حضرات ہیں۔ ہمیں اس طبقے سے شکایات تو بہت رہتی ہیں مگر ان کے معاشی مسائل سے آگاہی اور اس پہ بات کم ہی ہوتی ہے۔ وہ انتہائی قلیل تنخواہ پہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر اپنا اضافی خرچہ ادھر اُدھر قرآن پاک پڑھا کر یا کوئی اور کام کر کے پورا کر رہے ہوتے ہیں یا مساجد کے چندے کے محتاج ہوتے ہیں۔ آج کل کے حالات میں جب مساجد میں چندہ جمع نہیں ہو رہا، ہوم ٹیوشنز ممکن نہیں اور دیگر کام بند ہیں، تین ہزار تنخواہ پہ آپکی مسجد کے مولوی صاحب ، مؤذن و مدرس کی حالت کیا ہو گی ،اس کا اندازہ کر لیجیے۔ وہ ایسا سفید پوش طبقہ ہیں جو شرم کے مارے اوّل تو مانگے گا نہیں اور کہیں مانگ بھی بیٹھا تو الٹا طعنے سہے گا۔ سو خاموشی سے اپنی قریبی مسجد کے امام و مؤذن کی خدمت کر دیجیے۔

بہت سے دوست اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ جی بس مولوی اور طوائف کے پاس تو بہت پیسہ ہے۔ دوستو! فقط پراڈو والے مولوی اور فلم سٹار کو ہی نہ  دیکھیے۔ ایک عام سیکس ورکر یا میوزیشن یا مولوی مزدور ہے جسے روز کنواں کھود کر روز پانی نکالنا پڑتا ہے۔ اور وہ اسی “غلط فہمی” کی وجہ سے مدد دینے والوں کی توجہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ پاک آپ کو اجر دے، آپ کے رزق میں برکت و وسعت دے اور آسانیاں فراہم فرمائے۔ آمین۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply