• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • این اے 254، ایم کیو ایم، پی ایس پی اور ایم ایم اے مدمقابل، فاتح کون ہوگا۔۔۔ایس ا یم عابدی

این اے 254، ایم کیو ایم، پی ایس پی اور ایم ایم اے مدمقابل، فاتح کون ہوگا۔۔۔ایس ا یم عابدی

کراچی کے ضلع وسطی سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 254 پر ایم کیو ایم، پی ایس پی اور ایم ایم اے کے امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ این اے 254 میں کل ووٹرز 5 لاکھ 6 ہزار 309 ہیں، جن میں مردوں کی تعداد 2 لاکھ 73 ہزار 76 جبکہ خواتین 2 لاکھ 33 ہزار 233 ہے۔ نئی حلقہ بندی کے بعد این اے 254 اب الاعظم اسکوائر، سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد، غریب آباد بلاک 7، 8، 9، 10 کریم آباد، علی آباد، حسین آباد، عزیزآباد، دستگیر، واٹر پمپ، گلبرگ، سمن آباد، انچولی، فیڈرل بی ایریا کے بلاک 11سے 20 اور انڈسٹرل ایریا بلاک 21، 22، ٹمبر مارکیٹ، گبول ٹاون، گودرا کیمپ، نارتھ کراچی سیکٹر 11 جی اور 11 جے و دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ حلقہ پہلے این اے 244 اور این اے 246 کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ گزشتہ انتخابات کی بات کریں تو 2013ء کے الیکشن میں این اے 244 سے ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے 1 لاکھ 33 ہزار 525 وقت لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے خالد مسعود خان نے 26 ہزار 252 ووٹ لیکر دوسری اور جماعت اسلامی کے سید محمد بلال نے 9 ہزار 368 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہے۔ 2008ء کے انتخابات کی بات کریں تو اس میں ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے 1 لاکھ 74 ہزار 44 ووٹ لیکر کامیابی سمیٹی جبکہ پیپلز پارٹی کے غلام قادر 9 ہزار 271 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے، 2002ء کے الیکشن میں ایم کیو ایم کے حیدر عباس رضوی نے 54 ہزار 101 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی اور ایم ایم اے کے معراج الہدیٰ صدیقی نے 28 ہزار 559 ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی۔

سابقہ این اے 246 میں 2013ء کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے نبیل گبول نے 1 لاکھ 39 ہزار 386 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ پی ٹی آئی کے عامر شرجیل نے 32 ہزار 48 ووٹ لیکر دوسری اور جماعت اسلامی کے راشد نسیم نے 10 ہزار 258 ووٹ لیکر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ اسی حلقے سے نبیل گبول کے استعفے کے بعد ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم کے کنور نوید جمیل نے 95 ہزار 644 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ پی ٹی آئی کے عمران اسماعیل نے 24 ہزار 821 اور جماعت اسلامی کے راشد نسیم نے 9 ہزار 56 ووٹ لیکر تیسری پوزیشن حاصل کی۔ 2008ء کے الیکشن میں این اے 246 سے ایم کیو ایم کے سفیان یوسف نے 1 لاکھ 86 ہزار 933 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ پیپلز پارٹی کے سہیل انصاری نے 6 ہزار 741 ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی۔ 2002ء کے الیکشن میں ایم کیو ایم کے حاجی عزیز اللہ نے 53 ہزار 134 ووٹ لیکر کامیابی سمیٹی جبکہ ایم ایم اے کے راشد نسیم نے 32 ہزار 889 ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی۔

موجودہ الیکشن میں این اے 254 سے متحدہ قومی مومنٹ پاکستان کے شیخ صلاح الدین، مہاجر قومی مومنٹ کے آفاق شفقت، پاک سرزمین پارٹی کے ارشد وہرہ، متحدہ مجلس عمل کے راشد نسیم، مجلس وحدت مسلمین کے علامہ محمد علی عابدی، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی لیزا مہدی اور تحریک انصاف کے محمد اسلم خان مدمقابل ہیں۔ ماضی کے نتائج کے حساب سے ایم کیو ایم مضبوط نظر آتی ہے، تاہم اسے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایم کیو ایم کی دھڑے بندی سے ووٹرز مایوس نظر آتے ہیں جبکہ بانی متحدہ کے الیکشن بائیکاٹ کے اعلان اور متحدہ لندن کی الیکشن بائیکاٹ مہم بھی مہاجر ووٹروں کو الیکشن کے سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین کی جیت کا زیادہ انخصار ووٹرز کے زیادہ ٹرن آوٹ پر ہے، اگر ووٹر ززیادہ نکلتے ہیں تو ایم کیو ایم کو فائدہ ہوگا۔ دوسری جانب پی ایس پی کے ارشد وہرہ بھی اس حلقے میں ایک مضبوط پوزیشن کے حامل ہیں۔ وہ پہلے ایم کیو ایم میں اہم عہدوں پر رہے ہیں اور ڈپٹی میئر کراچی بھی ہیں، ان کی وجہ سے مہاجر ووٹ بھی تقسیم ہوگا، جس کا نقصان دونوں جماعتوں کو ہوگا، ارشد وہرہ بھی جیتنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔

ایم ایم اے کے راشد نسیم بھی مضبوط امیدوار ہیں، تاہم ان کی جیت کا دارومدار مہاجر ووٹ بینک کی تقسیم پر ہوگا۔ گوکہ راشد نسیم خود بھی اردو اسپیکنگ مہاجر ہیں اس لئے انہیں مہاجر ووٹ بھی پڑے گا تاہم چونکہ مہاجروں کی اکثریت ایم کیو ایم کو ووٹ دیتی آئی ہے تو اس لئے انہیں ماضی میں مہاجروں سے اتنا ووٹ نہیں مل سکا کہ وہ کامیابی حاصل کر پاتے اس لئے ان کا انخصار اسی بات پر ہوگا کہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے درمیان ووٹ تقسیم ہو اور زیادہ تر اردو اسپیکنگ ووٹر ووٹ کاسٹ نہ کریں ووٹر ٹرن آوٹ کم ہونے کا فائدہ راشد نسیم کو ہوگا۔ تحریک انصاف کے اسلم خان ایک مضبوط امیدوار ہیں، تاہم اس بار وہ ان علاقوں سے کتنا ووٹ لیتے ہیں یہ پی ٹی آئی کیلئے اہم ہوگا۔ عمران خان کے متنازعہ بیانات اور کراچی پر عدم توجہی کے باعث کراچی کے خاموش ووٹرز وہ جوش و خروش نظر نہیں آرہا جیسا کہ 2013ء کے الیکشن میں نظر آیا تھا لیکن باوجود اس کے کہ کراچی میں پی ٹی آئی کا اسٹرکچر نچلی سطح پر موجود نہیں ہے، تحریک انصاف کی خاموش حمایت کرنے والا ووٹر اب بھی بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے، جو تمام جموعتوں کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حلقے میں مجموعی طور پر مقابلہ ایم کیو ایم، پی ایس پی اور ایم ایم اے کے درمیان ہی ہوگا۔

2013ء کے انتخابات میں پہلی مرتبہ انتخابی سیاست میں وارد ہونیوالی مجلس وحدت مسلمین نے 2018ء کے انتخابات کیلئے اپنا امیدوار علامہ محمد علی عابدی کو نامزد کیا ہے جو کہ مرحوم علامہ عرفان حیدر عابدی کے فرزند ہیں۔ اس حلقے میں شیعہ ووٹرز کی تعداد کا کم از کم اندازہ لگایا جائے تو 20 ہزار سے زائد پایا جاتا ہے لیکن ماضی میں زیادہ تر ووٹ ایم کیو ایم کے کھاتے میں جاتا رہا ہے کیونکہ اس حلقے کے تمام علاقوں میں بقیہ کسی بھی سیاسی جماعت کا اسٹرکچر موجود ہی نہیں تھا۔ یاد رہے کہ 2013ء کے انتخابات میں میں مجلس وحدت نے این اے کی نشست پر تو نہیں لیکن اس ہی حلقے کی پی ایس سے اپنا امیدوار مولانا علی انور جعفری کو نامزد کیا تھا، جنہوں نے فارم 14 کے مطابق 8 ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے۔ اس مرتبہ یعنی 2018ء کے انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم امیدوار برائے این اے 254 علامہ محمد علی عابدی حلقہ میں اپنا ایک گہرا اثر رکھتے ہیں اور اپنے مرحوم والد کی وجہ سے بھی لوگوں میں جانا پہچانا نام ہے۔ حلقے کی بیشتر ماتمی انجمنیں، مساجد و امام بارگاہوں کی ٹرسٹ، ملی تنظیموں، شخصیات علامہ محمد علی عابدی کی حمایت کا اعلان کرچکی ہیں۔ وہ یہ نشست جیت پاتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں تو عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ وہ اگر نشست جیت نہ بھی پائیں تو کسی کی ہار کا سبب بن سکتے ہیں، تاہم ان کے کھڑا رہنے کا سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم کو ہوگا۔ انتخابی گیماگہمی کے ماحول میں ہر امیدوار اپنی جیت کے پرعزم ہے لیکن اس حلقے سے میدان کا فاتح کون ہوگا یہ 25 جولائی کی شام تک واضح ہوجائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply