یہ لوگ فرشتے ہیں؟ خدا ہیں؟ کیا ہیں؟۔۔۔ماریہ علی

اگر دنیا کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تنگ نظر اور زمانے کے تقاضوں کو مدنظر نہ رکھ کر چلنے والی قومیں پسماندہ ہی رہتی ہیں۔آج سے کچھ دہائیاں قبل یہ عالم تھا کہ مخلوط تعلیم کو ناجائز اور غیر شرعی کہا جاتا تھا مگر آج علماء کی اکثریت مخلوط تعلیم کو وقت کے تقاضوں کے مطابق جائز قرار دیتی ہے۔ اسی طرح کئی دیگر معاملات ہیں جن میں آج شدت پسندی سے کام لیا جاتا ہے مگر مستقبل قریب میں شاید انہیں بھی ٹھیک مان لیا جائے۔دراصل ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ فتوے لگانے اور تبرہ کرنے میں ہم بہت جلد باز واقع ہوئے ہیں۔مذہبی اختلافات ہوں یا معاشرتی, ہم فوراً مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں اور مخالف کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردیتے ہیں۔ آج کل روشن خیالی اور لباس پر شدید تنقید پوری شد و مد سے جاری و ساری ہے، میں اس سلسلے میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتی ہوں۔

پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ جدت پسندی اور روشن خیالی کا تعلق انسان کی سوچ سے ہے ناکہ لباس سے۔اگر آپ کی سوچ دقیانوسی اور لباس جدید ہے تو ایسی روشن خیالی کس کام کی، یاد رکھیے آپ کی شخصیت اور سوچ دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہے, لباس اور شکل و صورت نہیں۔لہذا اپنی سوچ میں روشن خیال بنیے تاکہ آپ اور آپ سے جُڑے لوگ سکون میں رہیں۔ لباس ہمیشہ ماحول اور وقت کے تقاضوں کے مطابق بدلتا رہتا ہے، ہر دور کے مخصوص رسوم و رواج ہوتے ہیں جو عمومی مزاج کا حصہ بن جاتے ہیں،ان کو لے کر کسی پر تنقید کرنا سراسر کم عقلی ہے۔

یادرہے یہاں میں لباس میں جدت کی بات کرکے بے حیائی کی حمایت ہرگز نہیں کر رہی محض یہ کہہ رہی ہوں کہ لباس شخصیت یا مقام جانچنے کا پیمانہ نہیں ہے۔

اور ہاں اگر اعلی تعلیی اداروں سے تحصیلِ علم کے بعد بھی آپ کی سوچ دقیانوسی ہے اور آپ لوگوں کی سوچ کی بجائے لباس دیکھتے ہیں اور اخلاقیات کے لیکچر دیتے پھرتے ہیں تو یقین مانیے اس تعلیم کا رتی برابر بھی فائدہ نہیں ہے،مگر قصور شاید ہمارا بھی نہیں ہے, ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہر شخص مبلغ اور محقق بنا ہوا ہے اور ساری دنیا کو اخلاقی اقدار سکھانے کا ٹھیکے دار بنا پھرتا ہے۔اپنے گھروں میں اخلاقیات کا درس دینے کی بجائے راہ چلتے لوگوں پہ اپنی علمیت اور مذہب سے لگاؤ کی دھاک بٹھانا ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ اپنے احمقانہ دلائل کو سچ ثابت کرنے کےلیے مذہب کے حوالے دینا اور احادیث و آیات سے اپنی مرضی کے مفاہیم نکالنا ہمارا وطیرہ ہے۔ یہاں ہر شخص دنیا کو بدلنے کا دعویدار ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ خود کو بدلنے سے منکر ہے۔آپ گلی میں نکلیں تو ہر دوسرا شخص آپ کو اخلاقیات اور شریعت پر لیکچر دیتا دکھائی دے گا مگر خود ان کا کردار ایسا نہیں ہوگا کہ اسے رول ماڈل بنایا جاسکے۔اپنے آپ کو سدھارنے کی بجائے ہر شخص کو نصیحتیں کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔

تب تک آپ کسی کو نصیحت نہیں کرسکتے جب تک آپ خود اس معیار پر نہ فائز ہوں جس کی آپ تبلیغ کرنا چاہ رہے ہیں اور اگر آپ خود کو اس قابل سمجھتے بھی ہیں تو بھی آپ کسی پر زبردستی کچھ لاگو نہیں کرسکتے, کسی کو قائل کرنے کےلیے سب سے بڑا ہتھیار اخلاق اور عجز و انکسار ہے۔ زبردستی تو آپ اپنی اولاد پر بھی کچھ تھوپ نہیں سکتے۔
افسوس کا مقام ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ لوگ بھی جاہلین کی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ عالم ہے کہ کئی پڑھے لکھے حضرات کسی لڑکی کو کسی لڑکے کے ساتھ کھڑا دیکھتے ہیں تو فتوے لگانا شروع ہوجاتے ہیں۔ لباس پر تنقید تو گویا ہم پر فرض بن چکا ہے۔ ہم میں سے ہر دوسرا شخص مذہب اور شریعت کا ٹھیکے دار بنا پھرتا ہے اور خود کو سدھارنے کی بجائے دوسروں کو نصیحتیں کرتا پھرتا ہے۔یہ سارے افسوسناک حقائق ہماری ذہنی پسماندگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر شخص اپنا ذمہ دار خود ہے اور اسے اپنے اعمال کا خود جواب دینا ہے اس لیے دوسروں کو چھوڑ کر اپنی عاقبت کی فکر کیجیے۔اس سے پہلے کہ کوئی آپ کی بے عزتی کرنے پر مجبور ہوجائے, خدارا اپنے بھاشن اپنے پاس رکھیے اور ان کی تبلیغ اپنے گھروں میں کیجیے۔صرف اسی کو اپنی تبلیغ کا نشانہ بنائیے جس پہ آپ کو حق حاصل ہے, بلاوجہ لوگوں کی ذاتیات میں دخل اندازی بند کیجیے۔ لوگوں کو اپنی زندگیاں اپنی مرضی سے جینے دیجیے اور اگر اصلاح کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے اپنی اور اپنے خاندان کی اصلاح کیجیے۔ دنیا کو بدلنے کا دعویٰ کرنے والے اپنے گریبان میں جھانک لیں تو شاید یہ معاشرہ بہتر ہوجائے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ لوگ فرشتے ہیں, خدا ہیں, کیا ہیں؟
ان کے معیار پہ کیوں خود کو اتارا جائے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply