اندھی نفرتوں میں تقسیم در تقسیم ہوتے برصغیر کے مسلمان

اندھی نفرتوں میں تقسیم در تقسیم ہوتے برصغیر کے مسلمان
بلال حسن بھٹی
برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں نے ابتدا میں بحثیت مجموعی ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا۔ لیکن جیسے ہی انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کیلیے نئے فرقے بنانے شروع کر دیے اور یہاں سے آغاز ہوا اس تعصب اور اندھی نفرت کا جو آج ہمیں بحثیت قوم مزید تفریق کرتی جا رہی ہے۔ ہمارے بزرگ، جنکی میں پیروی کرتا ہوں یا جنکی پیروی میرے دوست کرتے اور انکی رواداری کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے تھے۔ اگر تاریخ میں جھانکا جاۓ تو آپس میں لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسروں کو گالم گلوچ، نام بگاڑنے اور اگلے ہی لمحے کافر قرار دینے پر تلے نظر آتے تھے۔ بلکہ ہر فرقے نے اپنی ابتدا ہی مخالفین کو کافر زندیق ہونے سے کی کہ اپنے آپ کو اس سادہ عوام کے سامنے سچا ثابت کرنے کا واحد راستہ ہی یہی تھا کہ مخالفین کا ایمان ماپا جاۓ۔ پاکستان بننے پر اگر ہم دیکھیں تو وہ سادہ لوح مسلمان جو کہ اس اندھی نفرت کا ایندھن تھے۔ انکی اکثریت ایک جگہ کھڑی نظر آئی گو کہ تب بھی بہت سے لوگ اس فیصلے کے مخالفین میں سے تھے۔
پاکستان اسی بنیاد پر بنا کہ ہم سب ایک ”قوم“ ہیں۔حالانہ اس بات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو وہ جو متحدہ ہندوستان میں نفرتیں پھیلا رہے تھے۔ ان میں آدھے اُدھر رہ گئے اور آدھے پاکستان آ گئے۔ ان لوگوں نے یہاں بھی ابتدا اپنے انہی فتووں اور نفرتوں کے بیج بونے سے کی لیکن نفرتوں کے بیچوں نے پودے بننے میں وقت لیا۔ بنگایوں کا علیحدہ ہو جانا بھی میرے نزدیک اُسی اندھی نفرت، خود کو بڑا سمجھنے اور دیگر تفاخر کی وجہ سے تھا۔ گو کہ اس میں بنگالیوں کے اپنے چند ایک لیڈروں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔
پاکستان کو اس اندھی نفرت میں جھونکنے کا آغاز ایک طرف تو بنگالیوں پر گولیاں چلانے سے ہوتا ہے تو دوسری طرف محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن لڑنے کے لیےمنانے والے مولانا بھاشانی ہی تھے جنہوں نے عین موقع پر پیسے لے کر بنگال کے ووٹ ایوب خان کو دلوا دیے۔ بنگال علیحدہ ہوا تو بتایا گیا اب کوئی خطرہ نہیں ہم سب ایک ایک قوم ہیں۔ پھر اس قوم کو بانٹنے اور نفرتیں پھیلانے کے نئے طریقے مل گئے۔ کبھی ایم آر ڈی بنائیاور زبردستی شریعت نافذ کی جاتی ہے۔ تو کبھی مخالفین کی عورتوں کو گالی گلوچ اور ذومعانی جملوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔یہ رویہ محترمہ فاطمہ جناح کے دور کے لیگیوں سے لے کر اسی اور نوے کے لیگیوں کی روایات کا حصہ رہا ہے۔ لیکن سیاسی طور پر پھر بھی لوگ اتنے تقسیم نہیں ہوۓ تھے۔ سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفتوں کی بھینٹ چڑھانے کا رواج اس قدر شدید نہیں ہوا تھا۔ جتنا آج کے دور میں ہے۔
لیکن اسی دوران ہونے والے افغان جہاد نے غریب، متوسط اور نکمے مسلمانوں کے لیےایک طرف تو روزی روٹی کا بندوبست کیا۔ تو دوسری طرف مخالفین کو زبانی کلامی کافر سمجھنے کی روایت جو کہ انیسویں صدی میں برصغیر میں ڈالی گئ تھی۔ اب بندوق کی نوک اور بم کے بارود سے اس قدر گہرا کرنا شروع کیا کہ ہمارے ہاں خود کو اعتدال پسند یا صرف مسلمان ماننے والے بھی کافر، زندیق اور مومنین کے خود ساختہ بناۓ ہوۓ جہنم میں جانے کے حقدار ٹھہرے۔
سیاسی طور پر میثاق جمہوریت وہ معاہدہ تھا۔ جس پر پاکستانیوں کی اکثریت کو یہ امید ہوئی کہ اب اندھی نفرتوں، ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک کہنے، گالی گلوچ کرنے اور الزام تراشی سے آگے بڑھ کر ہم مزید متحد ہو سکیں گے۔ لیکن طالب علم کے نزدیک بی بی شہید اس کام میں زیادہ مخلص تھی کہ پوری قوم ایک ہو جاۓ۔ لیکن ملک دشمن عناصر کو یہ چیز کسی صورت بھی قابل قبول نہیں تھی۔ بی بی شہید اور اکبر بگٹی کے قتل نے اس قوم کو نفرتوں کے جہنم میں مزید دھکیل دیا۔ وکلا کی تحریک وہ آخری لمحہ تھا جب قوم کی اکثریت متحد نظر آئی۔
دو ہزار گیارہ سے اب تک ہم نفرتوں کے ایک نئے عہد میں داخل ہو گئےہیں۔ مذہبی طور پر ہماری تقسیم بیسویں صدی کے آخر اور اکیسیوں صدی کےآغاز میں اس قدر شدید ہو چکی تھی کہ خود کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے مخالفین کے فرقے کو قبول کرنا پڑتا تھا۔ اب تو یہ اپنی شدت کی انتہا پر پے ہے۔ اب تو سیاسیت بھی مذہب بنتا جا رہا ہے۔ بلکہ بن چکا ہے۔
اب سیاسی تقسیم میں بھی نعوذ باللہ لیڈران کو خدا کا درجہ حاصل ہوتا جا رہا ہے۔ مخالفین کو گالیاں دیے اور انکے ایمان کو سیاسی طور پر ناپے بغیر بات کرنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آپ ن لیگ پر تنقید کریں تو آپ عمران کے نمائندے ہیں۔ عمران خان پر تنقید کریں تو پھر آپ عقلی طور پر شریف خاندان کے غلام اور آپکو گالیاں دینا دائمی حق ہے۔ ایک نیا طریقہ یہ متعارف ہوا ہے کہ اگر تمہارا لیڈر سچا ہے تو اللہ کرے تم اُسکے ساتھ اُٹھاۓ جاو اور ہمیں اپنے لیڈر کے ساتھ اُٹھنا نصیب ہے۔نعوذ باللہ سیاسی لیڈر نا ہوا کوئی نبی پیغمبر ہو گیا اور سیاسی وابستگی نہ ہوئی بلکہ ایمان کی کسوٹی ہو گئی۔ اب تو اپنی ان نفرتوں کو ہم لوگوں نے حرم سے لے کر افریقہ کے جنگلوں تک پھیلا دیا ہے۔
ہر جگہ ذاتی اور گروہی مفادات اور عزت احترام سے ملکی عزت و احترام کو زیادہ اہمیت رہی ہے۔ لیکن اب تو لگتا ہے جیسے ساری نفرتیں اور محبتیں سیاسی وابستگیوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ اس پر ملک و قوم کو بھی پس پست ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوتا۔
یہ ہماری نسل کا عہد ہے۔ اس کیلیے ہمیں مل کر سوچنا ہے۔ ہمیں کسی لیڈر کے ذاتی ، گروہی اور ملکی مفاد میں تفریق کرنا ہو گی۔ ہمیں سیاستدانوں کی سیاست کو سمجھنا ہو گا۔ آخر کب تک، کب تک ہم یوں ہی راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان بٹ کر چند سو اشرافیہ کے مفادات کا ایندھن بنتے رہیں گے؟ کب تک ہم ایک دوسرے کو مذہب اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر کافر قرار دے کر فتووں سے نوازتے رہیں گے؟ اب تو شعور اور آگہی کی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔لیکن ہم کب تک شعور کی طرف قدم بڑھائیں گے؟۔ نفرت کی کیفیت میں ہم کبھی بھی شعور اور آگہی کی طرف قدم نہیں بڑھا سکیں گے۔ بلکہ اس وقت جس جگہ ہم موجودہ ہیں۔ اس سے بھی قدم بقدم پیچھے جاتے رہیں گے۔
اب ہمیں اس کے بارے میں انفرادی طور پر سوچنا اور سمجھنا ہو گا۔ ہمیں محبتوں کو بڑھانا ہو گا۔ نفرتوں کی اس خلیج کو کم کرنے اور ایک قوم بننے کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ورنہ ہم تفریق ہوتے آۓ ہیں اور اسی طرح تفریق ہوتے رہیں گے۔یہی ہماری اشرافیہ کے مفاد میں ہے کہ ہم کبھی متحد نہ ہو پائیں۔ ایک گاوں کے چودھری سے لے کر ملک کے وزیراعظم تک سب یہی چاہتے ہیں کہ ہم میں شعورنہ آۓ بلکہ ہم ہر طرح سے انکی غلامی میں رہیں۔ لیکن ہمیں اس فکری اور جسمانی غلامیوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ کہ آخر کار اسی میں بحثیت قوم ہمارا اجتماعی مفاد چُھپا ہے۔

Facebook Comments

بلال حسن بھٹی
ایک طالب علم جو ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو میں رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply