ریحام خان کی کالی دال۔۔۔۔عارف خٹک

ریحام نے کتاب کیا لکھی کہ  ماسوائے خان صاحب کے باقی سب کے پسینے چُھوٹ گئے۔ اکیس کروڑ عوام میں دو کروڑ جن کو انگریزی پڑھنی آتی ہے۔ وہ کتاب پڑھ کر گیلے ہوگئے۔ جن کو انگریزی پڑھنی نہیں آتی۔وہ بھی گیلے ہوگئے۔اس تصور میں رہ رہ کے،کہ ریحام نے خان صاحب کے بارے میں ایسا کیا لکھا ہوگا آخر۔
اگر اس کتاب نے واقعی میں کسی کو ٹف ٹائم دیا ہے۔تو وہ ہمارے مولوی بھائی ہیں۔جنھوں نے انباکس  آکر بندۂ ناچیز کی منتیں ترلےکرتے رہے  کہ لالہ پلیز کم از کم ایک صفحے کا ترجمہ تو کرواکے دے دو۔

میں ان کو صبر کی تلقین کرتا کہ ابھی کتاب نہیں پڑھی۔لہذا تب کیلئے میرے پُرانے مضامین پر گزارہ کرتے رہیں۔مگر مولوی اور صبر دو مخالف چیزیں ہیں۔
کُچھ دن پہلے حالت سفر میں تھا۔سو وقت گُزاری کے لئے ریحام کی کتاب کھولی۔ کتاب کا پہلا صفحہ پڑھا تو ریحام سے ہمدردی سی  محسوس ہوئی۔ آخری پڑھا تو اپنے آپ سے ہمدردی محسوس ہوئی۔ جس کو نفسیات میں “Self-Pity” کی بیماری بھی کہتے ہیں۔ صفحہ نمبر 65 پر  پہنچتے پہنچتے  میں نے ٹانگیں دبا لیں۔اور کتاب بند کرکے گود میں رکھ لی۔ واقعی کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ لالہ دس ہزار روپے انعام دوں گا اگر ریحام کی کتاب دونوں ہاتھوں سے تھام کر پڑھ لی۔

ہر بندے کی اپنی فینٹسیز ہوتی ہیں۔ جو ہمارے نزدیک تو ناجائز ہوتی ہے۔مگر ان کے نزدیک بالکل جائز ہوتی ہیں۔
میرا ایک جاننے والا ہے۔وہ جب اپنی بیوی سے ہم بستری کرتا ہے۔تو اُسے مارتا ہے،اذیت دیتا ہے، گالیاں دیتا ہے۔ اب جس دن وہ اپنی بیوی کو نہ مارے۔پورا دن وہ رُوٹھی رُوٹھی سی رہتی ہے۔دونوں اپنی زندگی میں بہت مُطمئن ہیں۔ ایک اور جاننے والا ہے۔اس کی پارٹنر جب تک اس کے ساتھ انگلی نہ کرے اُس کا موڈ ہی نہیں بنتا۔ مگر خوش و خُرم دونوں ہی ہیں۔

کل کلاں کو اگر اُن کی بیویاں اُن سے ناراض ہوجائیں تو کیا وہ کتاب لکھنے بیٹھ جائیں گی؟ ویسے اُصولاً  تو لکھنا بھی چاہیے ،تاکہ ہماری طرح آباؤاجداد کے  طور طریقوں کا پالن کرنےوالےجو اپنی بیوی سے اکیلے کمرے میں ہلکا سا مسکرائیں بھی تو وہ بھاگ کر فوراً  بتی بند کردیتی ہے۔ ہم بھی کچھ نیا سیکھ سکیں۔

ریحام خان کی کتاب نے مُجھے کافی مایوس بھی کیا۔ کیونکہ ابتدائی صفحات میں ریحام خان بہت گرم مزاجی سے ہر چیز سے پردہ اُٹھانے پر تُلی ہوئی تھی۔ مگر سارا مزہ اس وقت کرکرا کردیا کہ خان صاحب سرجری سے اپنے عضو خاص کو مزید دو انچ بڑھانے کے چکر میں ہیں۔ ریحام کو اپنا نہیں کم از کم میاں صاحب کا خیال رکھنا چاہیے تھا  کہ پچھلے پانچ سالوں سے بیچارے کو رگڑا دیئے جارہا ہے۔ اب مزید دو انچ بڑھا کر اب وہ کس کا اسٹیمنا چیک کریں گے۔ ڈاکٹر اعجاز کا کہنا ہے کہ دو انچ فوج کیلئے ریحام کی کھلم کھلا خبرداری ہے۔ تب ہی  تو آجکل خان صاحب خالی کرسیوں سے خطاب کئے جارہے ہیں ۔

ڈاکٹر اعجاز یوسفزئی مزید کہتے ہیں کہ لالہ کتاب بکواس ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگا کہ ریحام کو لکھنا چاہیئے تھا کہ ایک دن میں بسترپر مایُوس لیٹی ہوئی تھی  کہ اچانک بیڈروم کا دروازہ کھلا۔ کپڑوں سے بے نیاز خان صاحب  مُراد سعید کو گود میں اُٹھائے ہوئےاندر آئے۔اُن دونوں کے پیچھے پیچھے حمزہ علی عباسی بھی اسی حالت میں آگئے۔کیا دیکھتی ہوں کہ اُن تینوں کے عُقب میں پرویز خٹک بھی نمُودار ہوا۔جس نے شلوار کےساتھ بغیر بازو والی بنیان پہنی ہوئی تھی۔ آکر وہ صوفے پر لیٹ گئے۔اور سگریٹ  پینے لگ گئے۔ بالآخر نعیم الحق  نے جو  پورے لباس میں تھے، کیمرہ اُٹھائے اُٹھائے کمرے کے ایک کونے میں کھڑے ہوکر کیمرہ سیٹ کرلیا۔ خان صاحب، مراد اور حمزہ عباسی نے مشترکہ طور پر  ریحام زدگی  شروع کی۔ اچانک خان صاحب کی آواز گونجی۔

“نعیمے کتے کے بچے کیمرہ مت ہلانا  ورنہ  پےمنٹ اچھی نہیں ملے گی “۔ مُجھے دُکھ اس بات کا نہیں تھا کہ میری ویڈیوز سے یہ لوگ پیسے کیوں کما رہے ہیں۔ بلکہ افسوس اس بات کا تھا کہ یہ لوگ مجھے مُبلغ چارسو ڈالر ہی ادا کرتے تھے۔ جو کہ میرے ساتھ سراسر ظلم تھا۔ انہی باتوں کیوجہ سے نبیل گبول کو بھی چھوڑ آئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کتاب ٘پڑھنے کےفوراً بعد میں اپنی بیگم کے پاس گیا۔اسے والہانہ گلے لگایا، ماتھا چُوما اور اس کے ہاتھ پر ڈھائی لاکھ روپے رکھ دیئے۔
کہ جا سمرن۔۔۔۔
بنا لے اپنی پسند سےسونے کے پانچ تولے کنگن ۔جس کا وعدہ میں نے دس سال پہلے اپنے پہلے بیٹے کی پیدائش پر کیا تھا مگر مجبوریاں اتنی تھیں کہ اس وعدے کو آج تک ایفا نہیں کرسکا۔ وہ بے یقینی کی کیفیت میں ڈبڈبائی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگ گئی۔ اور میں نے شرمندہ ہوکر اپنا منہ دوسری طرف کر لیا  کہ پڑھی لکھی بیوی ہے۔اگر خدانخواستہ ناراض ہوگئی اور کتاب لکھ ڈالی کہ جس مرد کی گز بھر مونچھیں دیکھ کر اس کے قارئین خوش ہوتے رہتے ہیں۔وہ صرف دکھانے کیلئے ہیں۔اور جو چیز دکھانے والی ہے۔ اس سائز کےلئے تو پشتو میں ویسے بھی ایک بہت بُرا لفظ ہے!

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply