ماجرا۔۔۔۔بلال الرشید

قرض!

اس روز ہم پانچ دوست کوئلوں پہ گوشت بھون کر کھا رہے تھے ، جب اس نے اپنی کہانی سنائی ۔اس نے کہا ، معاشی بدحالی کے ان دنوں میں ، بچپن میں دور دراز کے اس قصبے میں رہنے والے میرے خاندان کو جس سے واسطہ پڑا ، تم سب واقف ہو ۔ان حالات میں دا رالحکومت جانا اور ایک نئی زندگی شروع کرنا آج ایک خواب لگتاہے ۔ ایسا کبھی نہ ہو سکتا ، مسٹر ایغور پاشا اس روز اگر مجھے قرض نہ دیتے ۔ پاشا صاحب کو کون نہیں جانتا۔ ہمارے قصبے ہی نہیں ،وہ تو اس ملک کے قابلِ فخر سپوت تھے۔ ملک کو فٹ بال کا عالمی چیمپئن انہوں نے بنایا ۔اپنی شاندار کامیابیوں اور جارحانہ کھیل کے باوجود ذاتی زندگی میں وہ دھیمے مزاج کے آدمی تھے ۔ اس نے کہا ، اپنی غرض دل میں لیے ، میں کئی دن ان کے گرد چکر لگاتا رہا ۔

آخر زیرک شخص نے مجھ سے پوچھ ہی لیا، لڑکے تم کیا چاہتے ہو ؟ اس وقت میری عمر بیس برس تھی اور وہ لگ بھگ ساٹھ برس کے ہوں گے ۔سبکدوشی کی زندگی گزارتا ہواکھلاڑی بھرپور تنومند اور چست تھا۔
کچھ دیر میں سوچتا رہا ۔ الفاظ گلے میں اٹک رہے تھے ۔ آنکھیں نم تھیں ۔ آخر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں ، میں نے کہا کہ میں کام کے سلسلے میں دارالحکومت جانا چاہتا ہوں ۔ اس کے لیے قرض کی ضرورت ہے ، واپس کر دوں گا ۔ وہ ہنس پڑے ’’واپس کر دوں گا ؟؟‘‘کچھ دیر سوچتے رہے ۔ غالباً میری نم آنکھوں او رٹوٹے ہوئے لہجے نے انہیں متاثر کیا تھا ۔ وہ اندر گئے ، ایک چیک لے کر واپس آئے اور کہا ’’ کسی کو بتانا مت! ‘‘ میں دوڑتا ہوا وہاں سے نکلا اور مڑ کر نہ دیکھا۔

پھر میں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔میں دا رالحکومت چلا گیا ۔ کئی سال کی پیہم جدوجہد کے بعد میرے قدم وہاں جم گئے ۔ وہیں میں نے شادی کی ۔بچے پید اکیے۔ 35 برس گزر گئے ۔ان دنوں میرا بڑا بیٹا یونیورسٹی سے فارغ ہونے والا تھا، جب مجھے پاشا صاحب کی یاد آئی ۔ اپنی بیوی کو میں نے ساری بات بتائی ۔ اس نے کہا، جلد واپس آکر بیٹے کی یونیورسٹی والی تقریب میں لازماً شریک ہوجانا ۔ وہ ایک حد درجہ جذباتی لڑکا ہے اور تم سے بہت محبت کرتاہے ۔
35 سال میں سب کچھ بدل چکا تھا۔95سالہ ایغور پاشا کئی برس سے منظرِ عام سے غائب تھا۔ ان 35 برسوں میں فٹ بال سمیت ہر کھیل کے ان گنت ہیرو منظرِ عام پر آکر دھندلا چکے تھے ۔ پاشا صاحب کی شہرت تحلیل ہو چکی تھی ۔ان کے سب دوست فوت ہو چکے تھے ۔ ان کی بیوی مر چکی تھی ۔وہ بے اولاد تھے۔

ایک کے بعد میں ان کی دوسری جائیداد کا چکر لگاتا رہا۔ آخر میں نے انہیں ڈھونڈ ہی نکالا۔ وہ اپنے ایک نصف صدی بوڑھے مکان میں مقیم تھے ۔ آج بھی میں اس سرد اندھیری رات کو نہیں بھول سکتا۔ ایک کمرے میں روشنی موجود تھی، جس نے مجھے حوصلہ بخشا ۔ بیس منٹ تک دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد آخر انہوں نے دروازہ کھول ہی دیا۔ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ، جو بمشکل تمام قوت جمع کرنے کے بعدہی چند قدم چل سکتا تھا۔ انہو ں نے کہا ، کون ہو ؟ میں نے اپنا نام بتایا، انہوں نے نہیں پہچانا۔ میں نے کہا، قرض واپس کرنے آیا ہوں ۔ وہ میری طرف دیکھتے رہے ، سوچتے رہے ۔ انہیں کچھ یاد نہیں تھا ۔ خدا جانے وہ کس کس کو قرضہ دیتے رہے تھے ۔

میں نے اس تنہائی اور گوشہ نشینی کی وجہ پوچھی ۔ کہنے لگے ، بیوی سمیت میرے ساتھ کے سب لوگ مر چکے ہیں ۔ اولاد ہے نہیں ۔ ایک بھتیجا ہے ، جس کی اپنی عمر 75 برس ہے ۔ امیر شخص ہے اور خود دادا بن چکا ہے ۔ نوکر میں رکھتا نہیں کہ بوڑھے شخص کو اپنے رحم و کرم پہ دیکھ کر تنگ کرنے لگتے ہیں یا جائیداد ہتھیانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں ۔ ایک خاندانی ملازمہ ہے ، جو دن میں چکر لگاتی ہے اور شام کوچلی جاتی ہے ۔معلوم نہیں کیوں دو دن سے وہ بھی نہیں آئی ۔
میں نے رقم کا تھیلا پاشا صاحب کو تھمایا۔ میں جلدی میں تھا۔ صبح لازماً مجھے دارالحکومت لوٹنا تھاور نہ یونیورسٹی میں میرے بیٹے کی تقریب رہ جاتی ۔ پاشا صاحب ہنس پڑے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ رقم ان کے لیے اب ردی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔میرے اصرار کے باوجود انہوں نے وہ تھیلا مجھے واپس کر دیا۔

اس نے کہا، میں واپس نکلااور کچھ دور تک پیدل چلتا رہا ۔ پاشا صاحب نے میرے سامنے اٹھ کر دروازہ بھی مقفل نہیں کیا تھا۔ ’’حتی الامکان اپنی توانائی بچاتا ہوا ضعیف بوڑھا۔ ‘‘اس نے کہا ’’مجھے ایک فون بوتھ نظر آیا(یہ موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا)۔ اس کے اندر کھڑا ہو کر میں سوچتا رہا۔ بیٹے کی محبت گھر کی طرف کھینچ رہی تھی ۔ ادھر دوسری طرف بوڑھا محسن تھا۔اس کا قرض میرے سر پہ اسی طرح موجود تھا۔پاشا صاحب کی آنکھوں میں ایک التجاتھی لیکن ساری زندگی خودداری اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے والا آدمی اسے زبان پر نہ لا سکا ۔ وہ کسی کے ساتھ کے لیے ترس رہا تھا ۔ایک ایسا شخص، جو اس کی جائیداد نہ ہتھیانا چاہتا ہو بلکہ کسی غرض کے بغیر اس سے باتیں کرتا رہے ۔ پینتیس برس پہلے جیسے میری زبان لڑکھڑا رہی تھی ، اسی طرح آج ان کی لیکن فرق یہ تھاکہ وہ اپنی غرض کو زبان پہ لانے سے رک گئے تھے ۔ جب کہ میں بول اٹھا تھا۔
طوفانی ہواؤں میں ، آخر میں نے اپنی بیوی کو فون کیا۔ اسے کہا کہ خدا کی طرف سے احسان اتارنے کا یہ آخری موقع ہے ۔ جس طرح بھی ہوسکے، اسے ہمارے بیٹے کو سنبھالنا ہوگا ۔ سمجھدار عورت نے کہا، اپنے محسن کو راضی کیے بغیر نہ لوٹنا۔ اب مجھ میں ایک نئی ہمت پیدا ہوئی ۔میں لوٹ گیا۔

پاشا صاحب وہیں اسی پہلو بیٹھے ہوئے تھے، جہاں میں انہیں چھوڑ کر گیا تھا۔ مجھے دیکھ کر ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ میں نے کہا : سر ، کیا میں کچھ وقت آپ کے ساتھ بتا سکتا ہوں ؟ 35 برس پہلے توہمیں آپ سے گپ لگانے کی جرات نہیں تھی ۔بوڑھا ہنس پڑا۔
پوری رات وہ بولتے رہے ، میں سنتا رہا۔ بظاہر پورے انہماک سے ۔۔حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ مجھے ان باتوں میں کوئی بھی دلچسپی نہ تھی ۔ بوڑھا شخص حقائق کی دنیا سے بہت دور ماضی میں زندہ تھا۔ پھر بھی میں سنتا رہا، جان بوجھ کر سوالات کرتا رہا ۔ وہ بیچارہ نہ جانے کب سے خاموش تھا ۔ آخر وہ تھک ہار کر سو گیا۔
صبح ملازمہ نے ہمیں جگایا ۔ پاشا صاحب نے اسے کہا کہ یہ میرا قابلِ اعتبار دوست ہے ۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈیڑھ ماہ تک میں ان کے ساتھ مقیم رہا۔ روز گھر فون کرتا رہا ۔ پاشا صاحب کی باتیں سنتا رہتا ۔ گاہے خود بھی کوئی قصہ کہانی سنا دیتا ۔وہ بہت خوش دکھائی دیتے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ مدتوں بعد کسی نے ان کی باتوں کو اہمیت دی تھی ۔ جب میں اکتا جاتا تو خود کو یاد دلاتا کہ 35 برس پہلے پاشا صاحب اگر میرے سر پہ ہاتھ نہ رکھتے توآج میں کس حال میں ہوتا۔
ڈیڑھ ماہ میں ان کے پاس رہا، ان کا دل بہلاتا رہا ۔ آخر ایک صبح جب میں سو کر اٹھا تو وہ مر چکے تھے ۔ اس سے پہلے کہ ان کا بھتیجا وہاں آتا اور مجھے شک کی نظرسے دیکھتا، میں وہاں سے نکل آیا ۔
ہم دم بخود اس کی کہانی سن رہے تھے ۔ ’’کچھ قرض لوٹانا بہت مشکل ہوتے ہیں دوستو‘‘ اس نے جمائی لے کر کہا ۔ ’’وہ کرنسی نوٹوں کی صورت میں لوٹائے نہیں جا سکتے‘‘

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply