نیوزی لینڈ حملہ اور منافق دنیا۔۔۔علی اختر

نیوزی لینڈ کے شہر “کرائسٹ چرچ” میں ایک افسوسناک سانحہ ہوا جب “برنٹن” نامی ستائیس سالہ ایک جنونی انسان نے مسجد میں نماز جمہ کے اجتماع کے دوران بے گناہ نمازیوں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے کو گولیوں سے بھون ڈالا۔

صرف یہی نہیں بلکہ اس سفاک نے اپنے ہیلمٹ پر لگائے گئے کیمرے سے اس تمام  سانحے  کی ناصرف 27 منٹسں پر مشتمل وڈیو بنائی  بلکہ اسے سوشل میڈیا پر لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے لوگوں کو بھی دکھایا ۔ یہی نہیں اس کے پاس ایک منشور ” گریٹ ریپلیسمنٹ ” کے نام سے موجود ہے جس میں درج ہے کہ  یہ ایک شروعات ہے اور اگلے عزائم اس سے بھی ہولناک ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے “ڈونلڈ ٹرمپ” کی نسل پرستانہ پالیسیوں کو بھی اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے ۔

گو مذکورہ بالا افسوسناک واقعے میں ملوث قاتل کو انتہا پسند عیسائی بھی ثابت کیا جا رہا ہے لیکن میری رائے اس معاملے میں تھوڑی مختلف ہے ۔

میں کسی بھی مذہب یا مذہب کے فرقے کے بارے میں یہ رائے نہیں رکھتا کہ  وہ اپنے ماننے والوں کو مجبور کرتا ہے کہ  وہ اس طرح عبادت کرتے معصوم انسانوں کا بہیمانہ قتل کریں ۔ میرے شہر میں عیسائیوں کے بنائے ہسپتال آج بھی موجود ہیں جہاں بلا تفریق مذہب سبھی کا علاج ہوتا ہے ۔ ہندؤ ں ، مسلمانوں وغیرہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو انتہا پسند ہیں اور ایسے بھی جو بلا تفریق مذہب خدمت پر یقین رکھتے ہیں سو اس طرح کی کسی بھی دہشت گردانہ کاروائی  کو مذہبی رنگ دے کر اسکے ماننے والے تمام افراد کو لپیٹے میں لے لینا نا انصافی ، اپنے ملک میں موجود اقلیتوں کو  غیر محفوظ کرنے اور خود کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہے سو بات صرف نسل پرستی پر کرتے ہیں ۔

گو “سو کالڈ ” مہذب دنیا کے رہنماؤں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے لیکن یہاں میرے کچھ سوالات ہیں جو میں اس مہذب دنیا سے پوچھنا چاہتا ہوں ۔

پہلا سوال یہ کہ  یہ  نسل پرست “گورے” ماں کے پیٹ سے نسل پرست پیدا ہوتے ہیں یا کوئی  محرک ایسا موجود ہے جو انہیں بے گناہوں کا خون کرنے پر اکساتا ہے ۔

کسی منظم نیٹورک اور تنظیم کے بغیر اگر یہ محض وڈیو گیم کھیل کے یا کچھ لٹریچر وغیرہ سے متاثر ہو کر “آٹو میٹیکلی” وجود میں آتے ہیں تو مسلسل ہر کچھ عرصہ بعد کبھی امریکہ میں تو کبھی کینیڈا اور اب نیوزی لینڈ میں بھی بار بار مساجد پر حملہ کیوں کر رہے ہیں اور مسلسل خود بخود کیسے پیدا ہورہے ہیں ۔

لوگوں کو خودکش حملہ آ ور  بنانے والوں کی ہوشربا داستانیں سنانے والے جن میں ڈرگز دینے سے لے کر جنت اور حوروں کے ماڈل دکھانے تک کی کہانیاں شامل ہیں ۔ جو دوسری طرف یہ کہتے ہیں کے نسل پرست گورے اچانک اور خوبخود وجود میں آجاتے ہیں ۔ میرا ان منافق جھوٹوں سے سوال ہے کہ  آپ اس نسل پرستانہ سرگرمیوں میں ملوث تنظیموں کے خلاف کیا کیا اقدامات کر رہے ہیں یا محض زبانی جمع خرچ کے بعد مستقبل میں ہونے والے کسی اندوہناک سانحہ کا انتظار کر رہے ہیں ۔

کیا آپ اس واقعے میں ملوث اور زمہ دار گروہوں کے خلاف کوئی  آپریشن کر رہے ہیں یا سارے آپریشن ردالفساد اور ضرب عضب نیز دہشت گردی کے خلاف ساری جنگیں آپکو اپنی پرامن سرزمین سے کوسوں دور بیابانوں اور پہاڑوں میں ہی لڑنی ہیں ۔

اور آخری سوال میرا ان چورن فروش مغربی تہذیب کے وکیل اور اپنے ملک اور اسکے رہنے والوں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے والےطبقے سے ہے ۔ جو کبھی انکے اشارے پر مضحکہ خیز پلے کارڈز لیئے ہلکان ہوتے ہیں تو کبھی اپنے ملک کو دہشت گردوں کی فیکٹری اور انتہا پسندوں کی سرزمین قرار دے کر شرمندہ ہوتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حضرات گرامی “برنٹن” اور اس جیسے انتہا پسند دہشت گرد آپکے  پسندیدہ کلچر و معاشرت میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ۔ انکے ممالک میں کتوں کے بھی حقوق موجود تھے  جن پر ظلم خلاف قانون  تھا ۔ اظہار رائے کی آزادی ، برابری و احترام کا سبق اسے بھی برابر ہی پڑھایا گیا ہوگا ۔ اب یہ بھی دہشت گرد نکل آیا تو آپکے پاس کیا بچا ؟ میرا خیال ہے سب آپ مریخ کے کلچر و تہذیب کے فروغ کی جدو جہد اور وکالت شروع کردیں تو بہتر ہے۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply