خود بینی

چاچا رفیق اقامت گاہ کا نگران تھا‘ وہ ایک سابق فوجی ہے جو چوہتر برس کی عمر میں بھی خاصا صحت مند ہے ‘ سستی و کاہلی تو اس کے پاس سے بھی نہیں گزری۔ اس نے بیالیس سال بطور نگران گزارے‘ اتنا عرصہ ایک ہی جگہ گزارنے سے اسے اقامت گاہ سے ایک خاص لگاؤ تھا جس کی بدولت وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی گیارہ سال تک وہیں مقیم رہا۔ملازمت کا سارا دورانیہ اس نے بلا شرکت غیرے گزارا‘ کسی کو بھی کچن کے نزدیک پھٹکنے نہیں دیا‘ ٹی وی روم کو ہر وقت تالا لگائے رکھا اور مینو اس کا اپنا بنایا ہوتا تھا‘دوسرے لفظوں میں اس نے اپنی سلطنت قائم کی ہوئی تھی۔ تین ماہ کے بعد وہ صرف ایک دن کے لیے گھر جاتا تھاوہ بھی پنشن کی رقم دینے کے لیے‘ خوشی یا غمی میں بھی وہ کبھی ایک دن سے زیادہ نہیں ٹھہرا۔
عام لوگوں کی نظر میں وہ ایک بد تمیز اور اخلاقیات سے عاری شخص ہے جس کی موجودگی میں کوئی اقامت گاہ کی طرف آنے کی جراٗت نہیں کرتا تھا۔ بے شمار خامیوں کے باوجود وہ کئی خوبیوں کا بھی مالک ہے۔ اس کا دعوٰی تھا کہ صرف وہی تھا جو اتنے بڑے اقامت گاہ کا انتظام سنبھالے ہوئے تھا اور اس کے جانے کے بعد یہ بند ہو جائے گا‘کوئی بھی دوسرا شخص اس بوجھ کو اٹھا نہیں پائے گا،لہٰذا لوگ مجھے یاد کریں گے۔ حالات نے پلٹا کھایا‘ ادارے نے کچن ایک پرائیویٹ کیٹرنگ کمپنی کو ماہانہ کرائے پہ دے دیا۔ شرکت وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا چنانچہ بیالیس سالہ سفر کو ختم کر کے اسے بے عزت طریقے سے گھر جانا پڑا‘ جن چیزوں کو وہ ہاتھ نہیں لگانے دیتا تھا اور سنبھال سنبھا ل کے رکھتا تھا آج انہیں غیر استعمال کر رہے ہیں۔ وہ چلا گیا لیکن اقامت گاہ کا انتظام چل رہا ہے‘ وہ لوگ جو کل تک اس کے گن گاتے تھے آج ان کے پاس اس کی طبیعت پوچھنے کے لیے ایک فون کال کرنے کا وقت نہیں ہے‘ وہ ادارہ جس کے لیے اس نے اتنا لمبا عرصہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ خدمات انجام دیں آج اس کا نام بھی سننے کے لیے تیا ر نہیں۔
چاچا زمان بھی ایک ادارے کے تحت چلنے والی اقامت گاہ کا نگران تھاجو لوگوں کو یہی کہتا تھا کہ اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ اجڑ جائے گی اور اس کا کوئی والی وارث نہیں ہو گا‘ وہ ہی تھا جو اس کی اتنی دیکھ بھال کرتا تھا‘ آج چاچا زمان کو ریٹائرڈ ہوئے چار سال ہونے کو ہیں لیکن اقامت گاہ قائم و دائم اور اس کا انتظام پہلے کی نسبت بہتر انداز میں چل رہا ہے۔
گلزار بھی ایک ادارے میں ملازم تھا جو انتہائی ذہین بااخلاق اور اپنے کام کا ماہر ہے‘ پورا سیکشن اس کی قابلیت کا معترف تھا اور اس پر حد سے زیادہ انحصار کرتا تھا‘ یوں دکھائی دیتا تھا کہ اس کے بغیر یہ سیکشن نہیں چل سکے گا۔ ادارے نے اپنے ملازمین کے لیے رضاکارانہ علیحدگی سکیم متعارف کرائی۔ گلزار کے دماغ میں غرور کا سودا سمایا‘ اس نے اپنی اہمیت اجاگر کرانے کے لیے مذاق مذاق میں درخواست دے دی یہ سوچتے ہوئے کہ مجھے کون چھوڑے گا ،میں تو اپنے سیکشن کا ستون ہوں۔ لہٰذا میری درخواست کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔ اسی دوران گلزار کا آفیسر رخصت پہ چلا گیا اور کسی دوسرے نے چارج سنبھال لیاجو گلزار کی خوبیوں سے ناواقف تھا‘ اس نے اس کی درخواست منظوری کے لیے ہیڈ کوارٹر بھجوا دی جو فوراََ ہی منظور ہو گئی۔ گلزار کے افسران نے بعد میں بڑی کوشش کی کہ اس کی درخواست واپس ہو جائے لیکن ایسا نہ ہوا‘ وہ صدمہ سے سخت بیمار پڑ گیا اور کئی دن شفاخانہ میں رہا۔ گلزار کے جانے کے بعد سیکشن کے کام پر کوئی اثر نہ پڑا۔
یہ ہے بنی آدم کی سوچ جس کی بدولت وہ خود بینی‘ خود نمائی اور خود رائی کا شکار ہو جاتا ہے‘ وہ اپنے آپ کو بہت بڑا پھنے خان سمجھنے لگ جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس کے بغیر سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ نظام قدرت کسی کے دنیا میں رہنے یا چلے جانے کامحتاج نہیں ہے‘ بڑے بڑے فرعون و نمرود‘ عادو ثمود جیسی قومیں جو خود نمائی کا شکار تھیں اس دنیا میں آئیں اور چلی گئیں لیکن نظام دنیا چلتا رہا اور چلتا رہے گا۔اداروں میں لوگوں کو یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ بندہ ادارے کے لیے ناگزیر ہے اور اس کے بغیر ناقابل تلافی نقصان ہو گاجبکہ یہ سراسر سوچ کی پستی ہے‘ اگر وہی انسان دنیا ہی سے چلا جائے تو کیا ادارے کا کام رک جائے گا؟ ایک ادارے کے چھیاسٹھ ہزار ملازمین تھے جن میں بہت سے تیس مار خان یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے بغیر ادارہ دیوالیہ ہو جائے گا‘ اب ادارہ بیس ہزار ملازمین کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں کام کر رہا ہے۔
میری موت کے بعد ہمالیہ روئے گا جیسے دعوے سراسر خود رائی ہے ‘ چور دروازے سے اقتدار پر قبضہ کرنے والے طالع آزما یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے بغیر شاید نظام مملکت رک جائے صرف وہی محب وطن اور ان کے ناقدین غدار ہیں چاہے ان میں مادر ملت ہی کیوں نہ ہو‘حال ہی میں میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ فلاں جنرل کے چلے جانے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل کی گئی کامیابیاں رائیگاں چلی جائیں گی لیکن حقیقت آپ کے سامنے ہے۔ نظام قدرت میں ہر انسان کا علم و فضل‘ عقل و فہم‘ نظام و مرتبہ میں بہترین متبادل موجود ہے جیسا کہ اللہ تبارک نے حضرت موسیٰ و خضرؑ کے واقعہ میں ہمیں بتایا۔
؂دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے‘ کوئی ہم سا ہو گا۔
خود بینی‘ خود نمائی اور خود رائی اپنے نفس سے غیر معمولی محبت کا نتیجہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ انسان کو اپنے اندر جو کمالات اور خوبیاں نظر آتی ہیں وہ ان پر کبھی ایسا فریفتہ ہو جاتا ہے کہ اپنے سوا ہر چیز اس کو پست اور حقیر معلوم ہوتی ہے اور یہ تمام کمالات و خوبیاں اس کو ایسی معلوم ہوتی ہیں گویا وہ خود اس کی اختیاری ہیں اور اس کی اپنی پیدا کی ہوئی ہیں‘ اسی کا نام عجب اور خود بینی ہے‘ اسی سے نفس میں خود نمائی اور خود رائی پیدا ہوتی ہے اور اکثر حالتوں میں وہ کبر و غرور کا سبب بن جاتی ہے۔قیامت کے دن کی جو نشانیاں آنخضرتﷺنے بتائی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب ہر شخص کو اپنی ہی رائے بھلی معلوم ہو گی اور اسی پر ناز کرے گا اور اترائے گا اور یہی وہ موقع ہے جس میں ہر شخص کو اپنی فکر کرنی چاہیے(بخاری کتاب الادب)۔عجب و خود بینی ایک فریب کا نام ہے اور جب اس فریب کا پردہ چاک ہو جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حقیقت جلوہ سراب سے زیادہ نہ تھی۔ اس بیماری کا سب سے بہتر علاج یہ ہے کہ کوئی اپنی خوبی کو اپنی کوشش کا نتیجہ نہ سمجھے بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور عطیہ سمجھے اور دہائی دے میں کچھ نہیں تو ہی تو۔
؂تجلّی تیری ذات کی سو بہ سو ہے
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply