پاکستان کے بارے امریکہ کی نئی پالیسی

پاکستان کے بارے امریکہ کی نئی پالیسی
طاہر یاسین طاہر
مشکلات بتا کر نہیں آتیں۔ہاں البتہ کچھ مشکلات و آفات ناگہانی ہوتی ہیں اور کچھ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ۔امریکہ کی غیر مشروط دوستی بھی ہمارے اعمال کا ہی نتیجہ ہے۔یقیناً بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین یہ ضرور کہیں گے کہ امریکہ سے ہمارے دوستی غیر مشروط نہیں بلکہ مفادات کے اس عالمی کھیل کا حصہ ہے جس کے تحت ملکوں کے باہمی تعلقات بنتے سنورتے ہیں۔بے شک یہ دوستی باہمی مفادات کے تحت ہی بنی ہو گی، مگر فی الواقع حقیقت یہی ہے کہ امریکہ کو ہم سے زیادہ توقعات ہیں، اور ان کا بدل ہمیں کم ملتا ہے۔امریکہ کی توقعات ہیں کس باب میں؟ وہی دہشت گردی کے خلاف کارروائی ۔ افغان سرحد سے متصل دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں۔کیا یہ سچ ہے؟اگر نہ بھی ہو تو بھی یاد رہے کہ طاقت کے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہیں۔کبھی مسلمانوں کے پاس بھی طاقت تھی، عسکری اور معاشی۔آج یہ طاقت امریکہ اور یورپ کے پاس ہے۔ظاہر ہے طاقت ور ممالک دنیا کو اپنے مفادات کی نظر سے ہی دیکھیں گے۔
بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم جانتے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات کی کہانی الف لیلوی داستانوں جیسی ہی ہے۔اگر روس ایک عالمی طاقت نہ ہوتا یا وہ ایک کمیونسٹ ریاست نہ ہوتا ،تو کیا پھر بھی پاک امریکہ تعلقات کی اڑان ایسی ہی ہوتی؟اگر افغان کمیونسٹ دعوت دے کر روس کو اپنے ملک نہ بلواتے تو کیا نئی جہادی ترکیب میں امریکہ کا پاکستان پہ اتنا ہی اعتماد ہوتا؟کہ اسلام آباد میں جہادی کمانڈروں کو ڈالر اور اسلحہ دیا جاتا رہا۔دراصل اس وقت امریکی مفادات کی طلب اور تھی۔نائن الیون کے بعد پاک امریکہ تعلقات نے نئی کروٹ لی۔بے شک پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بنا اور پاکستان کا یہ فیصلہ درست،پاکستان کے مفاد میں اور زمینی حقائق کے عین مطابق تھا۔یہاں سے پاک امریکہ تعلقات کی ایک اور کروٹ نظر آتی ہے۔دنیا کے نامور اور مطلوب ترین دہشت گرد پاکستان نے پکڑے یا مار دیے۔القاعدہ یہاں سے بھاگ کر یمن و عراق کی طرف نکل گئی۔القاعدہ کی تنظیم تتر بتر ہو گئی۔البتہ اس جنگ میں پاکستان کو امریکہ و یورپ سے زیادہ مالی،جانی اور سماجی نقصان ہوا۔ دنیا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرتی ہے، مگر اس طرح نہیں جیسا کہ حق بنتا ہے۔
امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف اب اس طرح موثر کارروائی کرنے میں معاون نہیں جیسا کہ ابتدا میں ہوا تھا یا جیسا کہ امریکہ کو توقع ہے۔امریکہ ڈیڑھ عشرے سے جاری اس جنگ کو در اصل پاکستان کے سر تھونپ کے نکل جانا چاہتا ہے۔ امریکی یوں انخلا چاہتے ہیں کہ ان کے فوجی اڈے اور کچھ دستے تو افغانستان اور خطے میں موجود رہیں مگر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں پاکستان کرے۔مفادات کے اس کھیل میں امریکہ پاکستان کو استعمال کرنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے ۔ خبر ہے کہ افغانستان پر حملوں میں ملوث مبینہ دہشت گردوں کی پاکستان میں موجود محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف مزید کارروائی کے مطالبے کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پاکستان کے ساتھ اپنی پالیسی میں سختی پر غور کررہی ہے۔اس حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کے زیر غور اقدامات میں ڈرون حملوں میں اضافے، پاکستان کی امداد میں کمی یا منتقلی، یا غیر نیٹو اتحاد میں پاکستان کا درجہ کم کرنا شامل ہے۔دوسری جانب کچھ امریکی حکام ان اقدامات کے نتیجے میں مثبت نتائج کے حوالے سے شبے کا اظہار کررہے ہیں۔
ان حکام کا ماننا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں کے دوران پاکستانی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جبکہ بھارت کے ساتھ امریکا کے مضبوط ہوتے تعلقات بھی اسلام آباد کے ساتھ تعاون کے حوالے سے پیش رفت کی امید کو کم کرتے ہیں۔پینٹاگون کے ترجمان ایڈم اسٹمپ کہتے ہیں کہ ،امریکا اور پاکستان قومی سلامتی کے مختلف معاملات پر اپنی شراکت داری کو برقرار رکھیں گے۔تاہم انتظامیہ کے زیر غور معاملات ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانے، جنہیں افغانستان کی صورتحال کو متاثر کرنے کی وجہ قرار دیا جاتا ہے، سے نمٹنے کے لیے امریکا جارحانہ نقطہ نظر کی طرف جاسکتا ہے۔
یہ محض الزام ہے یا امریکہ کے پاس اس حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد بھی ہیں؟ پاکستان بارہا کہہ چکا ہے کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے بارے اگر امریکہ کے پاس ٹھوس شواہد ہیں تو وہ پاکستان کے ساتھ شیئر کرے، پاکستان کارروائی کرے گا۔ دراصل امریکہ اور افغان حکومت یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کو سپورٹ کر کے افغانستان کے اندر عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔امریکہ کی نئی ٹرمپ انتظامیہ ممکن ہے پاکستان میں ڈرون حملے بڑھا دے،امداد میں کمی کرے اور بھارت کے ساتھ سٹریٹجک تعاون بڑھا کر پاکستان پر دباو بڑھائے۔ہم سمجھتے ہیں کہ سی پیک سے متصل ،خطے میں آنے والی تبدیلیاں صرف معاشی ہی نہیں ہوں گی بلکہ ان تبدیلیوں کی نوعیت سیاسی اور عسکری بھی ہوگی۔سیاسی و عسکری تبدیلیوں کے زیر اثر خطے میں نئے اتحادی بلاک بھی بنیں گے اور موجودہ امریکی انتظامیہ پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں کئی بار کروٹ لے گی۔ہمیں اس وقت اپنی خارجہ پالیسی کو موثر بناتے ہوئے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی کامیابیوں اور قربانیوں کے اعداد وشمار دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے،دنیا سے اپنے حصے کے کام کا اعتراف کرانا چاہیے، ظاہر ہے اس مشکل ترین کام کے لیے ایک کل وقتی اور فہیم وزیر خارجہ کا ہونا بہت ضروری ہے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو سفارتی سطح پہ پاکستان وہ کامیابیاں حاصل نہ کر سکے گا ،جن کی وجہ سے خطے اور دنیا میں پاکستان کے کردار اور اہمیت میں اضافہ ہونا ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply