ایک شخص کی آپ بیتی۔۔ہمایوں احتشام

ایک شخص کی آپ بیتی
ہمایوں احتشام
میں جب گاوں کے کالج سے یونیورسٹی میں پہنچا تو میرے لئے یہ ایک نیا جہان تھا۔ میں نے ایسے مناظر کبھی نہیں دیکھے تھے، کچھ دیکھے بھالے بھی تھے، جیسے میرے علاقے وسیب کے لوگوں کا ایک ہجوم جو ہمیشہ ظاہری نمائش سے متاثر کرنے والوں سے دور رہتا تھا۔ یہ لوگ چکا چوند دکھانے والوں سے الگ “گھیٹوز” میں رہتے تھے۔ ان کی زندگی دوسروں سے بالکل الگ تھی۔ یہ کھانا اکٹھے کھاتے، رہتے ایک ہی ونگ میں حتی کہ لیکچرز تک اکٹھے بیٹھ کر اٹینڈ کرتے تھے۔ اس طرح کے احباب میں سرائیکی وسیب، بلوچستان اور سندھ کے واسی شامل تھے۔ پشتون احباب دوہری طرز کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کے خود میں گم اقوام اور چکا چوند دکھانے والے لوگوں سے بیک وقت دوستی ہوتی تھی۔
میں ابتدائی طور پر ایک گھیٹو کا حصہ بنا، لیکن میں کچھ ہی عرصے میں اس سے بور ہوگیا۔ احقر ہمیشہ سے آزاد منش اور آوارہ رہا ہے۔ اس آوارگی پر اماں اور بڑے بھائیوں نے بہت پیٹا لیکن میں بڑا ڈھیٹ نکلا۔۔ ان کی بات پھر ان سنی کردیتا تھا۔
سو جلد ہی آپسی تضادات اور تنازعات اور گھیٹو کی جکڑ بندیوں کی وجہ سے میں نے اس اکٹھ کو خیرباد کہا اور دوسری اقوام والوں سے سلام دعا بنانا شروع کردی۔ اسی دران چکا چوند دکھانے والے کچھ لوگ بھی میرے احباب کے دائرہ میں شامل ہوگئے۔
اب ان احباب کا مسئلہ ہوتا ہے کہ یہ جس چیز کے بارے میں بتاتے ہیں اور دوسرے کسی کو اگر ان اشیا کا پتا نہ ہو تو اس کی “ناعلمی” کو جہالت قرار دیتے ہیں۔ ایسے شخص کو دنیا سے انجان پینڈو کہا جاتا ہے۔ ان کے سرکلز میں کاریں ڈسکس ہوتیں، پرفیومز ڈسکس ہوتے، کپڑوں کے برینڈز ڈسکس ہوتے، کبھی کتابیں ڈسکس ہوتیں، کبھی نظریات اور کبھی آپسی رقابت۔
میں ان سب چیزوں سے لاعلم تھا۔ سو باوجود کچھ بھی ہونے کے، میں نے گوگل سے ان متعلق سیکھنا شروع کیا۔ میں نے کاروں کے ماڈلز رٹا لگا لئے۔ میں نے پرفیومز کے بارے میں ان کے برانڈز ازبر کرلئے۔ میں نے کپڑوں کے برینڈز کے نام یاد کئے۔ کبھی کبھار خرید بھی لیتا تھا۔ میں نے کتابوں کے نام اور مصنفین کے نام یاد کئے۔ گوگل سے ان کی سمریاں نکال کر پڑھ لیتا اور شیخی بگھارتا۔ لبرلزم پڑھا، من کو نہ بھایا، فیمنزم دیسیوں کی ذات کے منافی ہوتا ہے، سو اسے بھی قبول نہ کیا۔ مارکسزم پر آکر رک گیا۔
مارکسزم ایک اچھا نظریہ تھا۔ پرولتاریہ اور بورژوازی کی کشمکش کے درمیان میرے جیسا ادنیٰ بورژوازی لٹکا ہوا تھا۔ ظاہری دنیا اور باطنی دنیا کے درمیان شدید تضاد تھا۔ چکا چوند دکھانے والے بھی عجیب لوگ تھے، کبھی برانڈز کے نام نہ پتا ہونے پر دوسرے کو پینڈو کہتے تھے اور کبھی غریبوں کے نظریہ مارکسزم کو چار چار گھنٹے اپنا موضوع بنا لیتے تھے۔
پانچ پانچ ہزار کی پتلون پہن کر ہڑتالیں منعقد کرواتے تھے۔ اس دران میں مارکسزم پر اپنی گرفت مضبوط کرتا رہا۔ مگر میں ان جیسا نہ بن سکا، کیونکہ میری استطاعت نہیں تھی۔ میں ایک مڈل کلاس گھرانے کا فرد تھا۔ جس کو اپنے گھر کی طرف سے انتہائی محدود پاکٹ منی ملتی تھی۔ اسی میں ہی مہینہ بھر گزارنا ہے۔
اسی دران میرے جیسے اور “پینڈو” احباب اس چکا چوند والے ٹولے کا حصہ بنتے گئے۔ وہ اپنے اصل سے نفرت کرتے، گاوں جاتے ان کو موت پڑتی اور شہر کی تعریفیں ہمیشہ کرتے۔ یہ لوگ دھوتی والے کا مذاق اڑاتے، شلوار قمیض پہننے والوں کو دیہاتی اور جاہل قرار دیتے۔ دیسی اقدار کا زکر حقارت سے کرتے، مذہب کا مذاق اڑاتے، حتیٰ کہ اس شدت پسندی میں بعض اوقات چکا چوند دکھانے والوں کو بھی کراس کر جاتے ہیں۔
میں اس ٹولے کا حصہ ہونے کے باوجود کبھی بھی اپنی جڑوں سے الگ نہ ہو پایا۔ مجھ سے کبھی مذہب کی توہین نہ ہوسکی۔ نہ مجھ سے کبھی نشے کئے گئے۔ مجھ سے کبھی دیسی اخلاقیات اور اقدار کی توہین بھی نہ ہو پائی۔
مگر ہمارے ان احباب نے ڈگری کے بعد گاوں کی زمینیں بیچیں، گھر فروخت کئے، اونے پونے داموں اپنے مویشی فروخت کئے اور شہروں میں چار چار مرلہ کے گھروں میں جا بسے۔ آج وہ کمپنیوں میں سیلز مین ہیں، مارکیٹنگ کررہے ہیں، فیکٹریوں میں انجینئر ہیں۔
اور اس وقت کو گالیاں دیتے ہیں، جب انھوں نے ان چکا چوند دکھانے والوں کا ساتھ اختیار کیا اور اپنے آپ سے نفرت کی بنیاد ڈالی، جس نے ان کا سب کچھ جلا کر راکھ کردیا۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply