• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فارسی نظم: مورتو! ہانو ہو جاؤ، کلاماں ناٹو چندرا کی آسان تشریح / عثمان انجم زوجان

فارسی نظم: مورتو! ہانو ہو جاؤ، کلاماں ناٹو چندرا کی آسان تشریح / عثمان انجم زوجان

جوبن بچہ! جوبن تالاں دی معشوقی اے
کڑے سورمی مالاں دی کھولاں چہ کچی اے

سڈا اڑیل بیلا پیندا اے مالاں توں
اج توں نہی پچھلے پنج ست سالاں توں

کھوڈا اے اڑیل جوگ ایجی نوں پھوہ پا دے
ساڈے مگروں لے جا یا فیر مالاں نوں لا دے

سورمی دس نی مالاں نوں کیہڑا میں گناہ کیتا
دس ہاں کیہڑی اڈی کیہڑا کاروبار تباہ کیتا

سورما وی اڑیل کچی کردا اے مالاں دی
تالاں نوں کی کی وات سُناواں حالاں دی

اڑیل حال بسیٹ نے جندڑی ماڑی دے
کیہڑا دسے اینج نئیں جگرے ساڑی دے

بچہ! ہانو ناٹو ہو نہ بیلی پے رہ
میرا بوہا کھلا اے، آ تو ایتھے رہ

مالاں ٹولی ڈھینگن جاندی توں وی آ
جہڑا تیرا نئیں، توں اہنوں مگروں لا

از زوجان خان، میرپور، آزاد کشمیر

اُردو: مورتو! چپ ہو جاؤ، راز کی باتیں مت کرو!

اس کائنات کے رنگ و بو میں مالک ارض و سما نے نجانے کیسے کیسے رنگ نمایاں کر رکھے ہیں، احساِس برہنگی تپتی ریت سے کہیں زیادہ گرم جھلستی آگ کو محسوس کرتا یہ ہمارا وجود ہے، ہم مجرم کہ ہماری ادھوری جنس ہوں، قہر و نفرت کی آگ میں جھونک ڈالنے والے نے ایک بار نہ سوچا کہ خدا کے کن میں ایک فیصلہ ہمارا وجود، ہماری والدت بھی تھا!

پھر اتنی نفرت کیوں جو صدیوں پر محیط ہے، دل ہی دل میں تشنگی کی طویل سسکیاں لیتے میں سوچتی ہوں کہ دنیاوی و مذہبی تخیل کی دنیا میں مکمل جواب ہوتے ہوئے بھی آج تک ہم انسانیت کی بستی میں سوالیہ نشان کیوں بنے ہوئے ہیں؟

ہم آدھی جنس والے اپنے پاؤں پہ لڑکھڑاتے چلنا سیکھ رہے ہیں، دوڑنے کی آرزو نہیں کی کیوں کہ تم خدا پرستوں نے چلنا بھی محال کر دیا، تمھاری مذہبی تلواریں سانسوں کی ڈور کاٹ ڈالتی ہیں، تو کبھی تمھارے معیار کی چوٹیوں سے ہمیں دھکیل دیا جاتا ہے، کبھی ہماری جنس ہی تمھاری حیوانوں جیسی جنسی بھوک مٹانے کا بس ایک وقتی ذریعہ رہتی ہے تو کبھی ہم پر سب ہی ستم جائز قرار دینے کے باوجود زمین کے بعد قبرستان کی زمین بھی تنگ کردی جاتی ہے۔!

جینے کا حق چھیننے کے بعد خاموشی سے ہمیں دفن کرنے کی داستانیں گھڑی جاتی ہیں!

ادھوری جنس والوں کو مورت کہا جاتا ہے، ایسی ایک داستان ایک مورت کی ہے، جب ایک بد صورت مورت اشاروں پر اپنی روزی روٹی کر رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر ایک خوبصورت اور جوان کو مورت پر پڑتی ہے، بھاگ کر اس کے پاس جاتی ہے اور اس کے چہرے پر نمایاں اداسیاں کو بھانپ لیتی ہے اور کہتی ہے؛

میری بہن بات سنو، ادھر میرے پاس بیٹھ جاؤ، تم کون ہو، کہاں سے ہوں اور کہاں جا رہی ہو، تم تو اتنی خوبصورت اور جوان ہو، لیکن تمہارے چہرے پر یہ اداسیاں نمایاں کیوں ہے؟

اس پر وہ کہتی ارے بہن! کہاں کی خوبصورتی کہاں کی جوانی؟

تم میری اپنی لگتی ہوں، میرے اپنے مجھے اپنے نہیں لگتے، ان کے لیے تو میں منحوس ہوں، اور بدصورتی کا ایک بد نما داغ ہوں!

اور یہ کوئی آج کی بات نہیں، بچپن سے ہی میرے ساتھ ایسا ہے، میرے اماں، ابا، بہن، بھائی اور عزیز و احباب میری کیفیت کو نہیں سمجھ پائے!

ابا میرے تو میرے بالوں کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے ہیں کہتے ہیں:

او خبیثا! تم نے اتنے لمبے بال کیوں رکھے ہیں، انہیں کٹوا دو، بہت برے لگتے ہیں، بھلا لڑکوں نے بھی کبھی اتنے لمبے بال رکھے، خود کٹوا دو نہیں تو زبردستی کٹوا دیں گے!

میرے بھائی کو اپنے ناک کان کی پڑی رہتی ہے، کہتا ہے تم خدا کا واسطہ گھر سے باہر مت نکلا کرو، ٹانگیں توڑ دوں گا، تم باہر جاتی ہو، میری عزت کا جنازہ نکل جاتا یے، لوگ کہتے ہیں؛

او مورتاں دا بھراں آوندا پیا!

بہن! اب تم بتاو میں کیا کروں کس سے کہوں کس کو سناؤں میں کس قدر ازیت میں مبتلا ہوں اور جو دکھ اپنوں کا رویہ دیتا ہے اس کی تکلیف برسوں دل کو چھلنی کرتی ہے!

کاش! کہ کوئی کندھا ایسا ہو جو مجھ سے کوئی بھی سوال کیے بغیر سر رکھ کر رونے دے!

کاش! کوئی ہونٹ ایسے بھی ہوں جو صرف مجھے تسلی دینے کے لیے کھلیں!

کاش! کوئی کان ایسے ہوں جو صرف میرے دکھوں کے سامعین ہوں!

کاش! کچھ بانہیں ایسی ہوں جو میری تکلیفوں کو سمیٹنے کا ہنر جانتی ہوں!

کس قدر دھتکار اور تحقیر آمیز رویہ ہے دنیا کا بتانے سے قاصر ہوں!

اب یہ سب سن کر وہ کہتی ہے کہ میری بہن! تم یوں مایوس نہ ہو اور اپنے دل کو چھوٹا مت کر، چلو میرے ساتھ میرے ڈیرے پر، جو روکھی سوکھی میں کھاتی ہوں، تو بھی کھا

julia rana solicitors

اور ہاں جو ہوا سو ہوا دل بڑا کر، اپنے بل بوتے پر اپنا آپ منوا، اور جو تجھے بھول گئے تو بھی انہیں بھول جا، رب کائنات نے چاہا تو ان کے دل میں تمہاری محبت کا بیج بو دے گا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply