میں واپس ہوا اور چڑھائی چڑھنے لگا، چڑھائی چڑھتے سانس پھول جاتی ہے، میری زیادہ پھولتی ہے، بیچ میں تھوڑی دیر سستانے کےلیے رکا، ایک خاتون سیاح گلے میں کیمرہ ڈالے اور آنکھوں پر چشمہ لگائے نیچے آبشار کو جارہی تھیں، یہ میرے مسلک سے تھیں، جو آبشار کے قدموں میں لپٹنا چاہتی تھیں، میں نے روک کر ہیلو ہائے کیا، وہ مسکرایا، میں مسکرایا۔۔میں نے پوچھا “کہاں سے ہو”؟۔۔۔ بتایا ” جنوبی افریقہ سے” میں نے کہا “کیپ ٹاؤن سے” اس نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا “یس یس کیپ ٹاؤن”۔
میں نے کچھ توقف کیا، شاید وہ بھی مجھ سے پوچھ لے کہ آپ کہاں سے ہیں، لیکن وہ مجھے پوچھے بغیر اترائی کو جانے لگیں، اس وقت تک میری سانسیں معمول پر آچکی تھیں اور میں اوپر چڑھ کر ریسٹورنٹ کے احاطے میں داخل ہوا۔
ریسٹورنٹ سے نکل کر گاڑیوں کی پارکنگ تک منیر نیازی کے دریا کی طرح ایک اور چڑھائی پار کرنا ہے، یہاں چاھیں تو پیدل جائیں، جس کے لیے پھتروں سے ایک پگڈنڈی نما راستہ بنایا گیا ہے، جس پر دو تین لوگ ایک قطار میں آ جا سکتے ہیں، نہیں تو جیپ پکڑیں، اوپر جائیں۔ اترتے وقت ہم اسی راستے پر آئے، واپسی میں اوپر جانے کےلیے جیپ پر جانے کو ترجیح دی جس نے ایک منٹ میں سڑک پر پہنچا کر معمولی کرایہ وصول کیا۔
سحر انگیز آبشار سے رخصت لے کر جب واپس ہوئے تو میں نے سوچا کہ اس آبشار کے شور کی ضرور کوئی بولی ہوگی جسے اہل زبان سمجھتے ہوں گے، بلکہ فطرت کے ان تمام نظاروں کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے، گئے زمانوں کے لوگ فطرت کی زبان سمجھتے تھے، کیونکہ ان کی زندگی فطرت سے جڑی ہوتی تھی، وہ لوگ فطرت کے ان نظاروں سے باتیں کرتے تھے۔ ندیوں سے باتیں، دریاؤں سے باتیں، آبشاروں اور جھیلوں سے باتیں، سمندر سے باتیں۔۔ہواؤں سے، فضاؤں سے، صحراؤں اور جنگلوں سے باتیں، اپنی ڈیوڑھی میں لگے بوڑھے برگد سے باتیں اور منڈیر پر اترتے پرندوں سے باتیں۔۔۔ یہ ان کی زندگی کا معمول تھا۔ ہماری زندگی کا معمول کیا ہے، ڈپریشن کی ٹیبلٹ کب لینی ہے، انسولین کس وقت لگانی ہے اور بلڈ پریشر کی دوائیں دن میں کتنی بار کھانی ہیں۔
اس وقت انسانوں اور نظاروں کے درمیان ایک مضبوط بندھن تھا، مگر آج کے انسان کا فطرت کی ان رعنائیوں سے تو کجا، اپنے آپ سے بھی رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔
فطرت سے قربت، خدا سے قربت ہے۔
خدا سے قربت، خود سے قربت ہے۔
گاڑی رواں دواں تھی، راستہ کٹ رہا تھا، ہم نور ایلیاء سے قریب ہوتے جارہے تھے۔ خوبصورتی، خوشنمائی اور دلآویزی ہماری آنکھوں سے لپٹتی جاتی تھی، وسیع کائنات بدلتی رنگوں کے ساتھ قدم قدم ہمارے ساتھ تھی۔
ہم مسلسل اونچائی پر ہیں، دور سے گھنے جنگلوں اور پہاڑوں میں گھری دو خوبصورت جڑواں جھیلیں نظر آرہی ہیں، جس سڑک پر ہم ہیں وہاں سے یہ بہت زیادہ فاصلے پر ہیں، وہ ایک پیالے کی طرح دکھتی ہیں، خوبصورت ایسی، جیسے جنت کے رخسار سے بارش کی دو بوندیں ٹپک کر جھیل کی شکل اختیار کر گئی ہوں۔
ہمارے دونوں جانب چائے کے باغات تھے، جہاں چائے بنانے والی بڑی بڑی کمپنیوں کے بورڈ آویزاں تھے، ساتھ میں ان کمپنیوں نے خوبصورت چائے کے ریسٹورنٹس بنا رکھے تھے، جن کی عمارت دیکھ کر فائیو اسٹار نہ سہی فور اسٹار ہوٹلوں کا گمان ہوتا تھا، کینڈی سے نور ایلیاء جاتے ہوئے سیاح ان ریسٹورنٹس میں کچھ وقت بتاتے اور چائے کے گرم چسکوں سے لطف لیتے، ان ریسٹورنٹس میں کمپنیوں کے پروڈکٹس بھی بیچے جاتے تھے جو خوبصورت پیکنگ میں کاؤنٹر کے ساتھ لگی شیلفوں میں رکھے ہوئے ہوتے۔
ہمیں اندازہ تھا کہ نور ایلیاء پہنچتے پہنچتے کافی سمے بیت چکا ہوگا، لیکن یہی طے ہوا تھا کہ دوپہر کا کھانا وہاں جاکر کھائیں گے، البتہ لب سڑک قائم چائے کی ایک کمپنی کے بنائے گئے ریسٹورنٹ میں کچھ دیر کےلیے رکے۔ چائے ایک بہانہ تھا، دراصل یہ منظر کے رنگ تھے، جوآنکھوں میں سماتے، دل میں اترتے۔ دماغ پر چھا جاتے، کبھی بوسہ دیتے تو کبھی بوسہ لیتے اور لپٹ کر قدم روک کر کہتے
کہ۔۔۔
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دل ابھی بھرا نہیں۔
محبت دو طرفہ ہوتی ہے، یہی اس کی جمالیات ہے، یہاں آگ برابر لگتی ہے، مگر اس کی تپش میں شبنم کی ٹھنڈک ہے۔
درختوں سے پیار کریں، اڑتے بادلوں پر نچھاور ہوجائیں، بہتے دریا کے شور یا ٹہرے سمندر کے سکوت پر وارفتہ ہوجائیں، اڑتی فضاؤں میں چلے جائیں،یا اٹھتی نگاہوں میں اتر جائیں، یہ چاہت لوٹ کر واپس چاھنے والے کے دل میں آ بستی ہے، یہ نہیں کہ درخت اور سمندر بے جان ہیں، یہ انسان کی محبت کو سمجھ نہیں پاتے۔۔سمجھ جاتے ہیں، انسان کی طرح سمجھ جاتے ہیں۔ پیار کی زبان کون نہیں سمجھتا، یہ نظارے دیکھ کر دل و دماغ میں جو بہاریں سر اٹھانے لگتی ہیں اور طبعیت میں نشاط انگیزی کے جو جام لڑھکتے ہیں۔۔یہی تو وہ چاہت ہے جو پلٹ کر انسان کی طرف آجاتی ہے۔
ریسٹورنٹ میں اندر بیٹھنے کی جگہ تھی، مگر ہم باہر بیٹھ گئے۔ سامنے ڈھلوان کھیت، بائیں کو ریسٹورنٹ کی پرشکوہ عمارت، دائیں اور پیچھے گھنا جنگل تھا۔ دائیں جانب ہی ریسٹورنٹ کے بغل میں نیچے کی طرف کنسٹرکشن کا کام ہورہا تھا، ایک ڈبل کیبن گاڑی کھڑی تھی اور ساتھ کچھ انجنئیرز ٹائپ لوگ تھے جو انگلیوں کو گھما پھرا کر نئے پروجیکٹ سے متعلق صلاح و مشورہ کررہے تھے، شاید ایک نئی عمارت کھڑی کرنے کی تیاری تھی، کینڈی سے نورایلیاء جاتے ہوئے جن علاقوں سے گزرتے ہیں ان کی لینڈ اسکیپ ایک جیسی ہے، اس لینڈ اسکیپ میں قدرت کی کمال کاریگری ہیں۔ دل کرتا ہے کہ دل اور آنکھیں ان وادیوں میں چھوڑ کر واپس ہوا جائے۔
میرا اور ہاشم کا رخ سڑک کی طرف اور منیر کا رخ ہماری طرف تھا، ہمارے تشریف فرماتے ہی کمپنی کی مخصوص یونیفارم میں ملبوس، خوش اخلاق نوجوان خاتون ہونٹوں پر سجی مسکراہٹ کے ساتھ آئیں، اور چائے کا آرڈر لے کر واپس ہوئیں۔
جب تک چائے آگئی تو اس وقت تک دو گورے سیاح ایک مرد اور غیر شرعی لباس میں ملبوس ایک خاتون بھی آن پہنچے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گاڑی پر نہیں بلکہ ٹک ٹک ( آٹو رکشہ) پر کینڈی سے یا شاید کولمبو سے سفر کرکے آرہے تھے، سیاح ٹک ٹک پر اتنا لمبا سفر بھی کرتے ہیں، یہ معلومات لینے کےلیے ہم نے اپنے ڈرائیور عرفان کی خدمات حاصل کیں، انہوں نے مذید انکشافات کرتے ہوئے کہا یہ لوگ تو اکثر ٹک ٹک کرایہ پر حاصل کرکے خود ڈرائیو کرتے کولمبو سے نکل کر ان سیاحتی مقامات پر جاتے ہیں، یہ سن کر مجھے یاد آیا جب کولمبو سے کینڈی آتے ہوئے ہم ہاتھیوں کی جگہ رکے تھے تو ایک سیاح ٹک ٹک کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان تھا، اس وقت میں نے دھیان اس لیے نہیں دیا کہ میں سمجھ رہا تھا وہ شوقیہ کچھ لمحے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوگا۔
راستے میں ایک اور جگہ رکنا پڑا، یہ سڑک کنارے بنا ایک ڈھابہ تھا، جسے ایک نوجوان اور ایک بوڑھا چلا رہے تھے، باپ بیٹے تھے یا مالک ملازم، یہ میں نے نہیں پوچھا، مخصوص سری لنکن رنگت میں ڈھلے ہوئے تھے، بابا کے لباس میں دیہاتی پن تھا، اور لہجہ کسی قسم کی عیاری یا سیاحوں کو لبھانے والے مصنوعے پن سے یکسر خالی تھا، دونوں ہر طرح سے سیدھے سادھے اور ایک حد تک بھولے بھالے تھے، بس نوجوان میں بوڑھے کی نسبت کچھ پھرتی اور معمولی ذہانت تھی۔
ڈھابے پر ایک مخصوص قسم کی روٹی ملتی تھی، چھوٹی سی، گول گول، بسکٹ کے سائز سے ذرا بڑی ہوگی، لگ رہا تھا یہ یہاں کی مقامی روٹی ہے، اس کے ساتھ رائتے جیسی بنی چٹنی، جس میں بھگو کر یہ روٹی کھائی جاتی ہے، چٹنی میں مرچی اتنی تیز کہ منہ میں جاتے ہی پانی کا گھونٹ ساتھ میں پینا پڑتا، میں اور ہاشم نے چٹنی کے ساتھ مقامی روٹی کا ذائقہ حلق میں اتارا۔ عرفان اپنی زبان میں ان مقامیوں سے گفتگو کرتا رہا۔ اور منیر خلاؤں کو گھورتا رہا۔
ہم ڈھابے سے کچھ فاصلے پر گئے، ایک پائپ سے پانی بہہ رہا تھا۔ چلو بنا کر پیتے رہے، کسی جھرنے سے آتے اس پانی میں ٹھنڈک اور مٹھاس کی ایسی حلاوت تھی جیسے اپنی شیریں کے عشق میں ڈوبے کسی فرہاد نے تیشہ چلا کر پہاڑ کی کوکھ سے اس کا چشمہ دریافت کرلیا ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں