میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں ۔۔۔۔۔ حسنین چوہدری

محمد اختر شاہ انبالہ میں پیدا ہوا تھا، سال 1928ء کا تھا،والدین کی اکلوتی اولاد تھا اور متمول گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ اختر شاہ اپنے اکلوتے ہونے کا غم یوں بیان کرتے ہیں۔۔۔ “میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں کہ خدا کو اِس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟ بہر حال شاید میری تسکینِ قلبی کے لئے کسی کا نام بھائی رکھ دیا گیا ہوجو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پہ نظر رکھنے والے صاحبِ فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہوا بازو کالی چادر میں چھپائے، احساس کے الٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔اگر کوئی بہن بھائی ہوتا تو یہ حال نہ ہوتا۔”

اختر شاہ کو ابتدائی تعلیم گھر میں ہی دی گئی اور حبیب حسن خاں کے پاس بٹھا دیا گیا،وہیں شاعری کا شوق ہوا اور شاعری شروع کر دی۔لطیف انور گورداسپوری سے اصلاح لینا شروع کی اور اپنے لیے تخلص ناصر حجازی چنا،کچھ عرصہ شاعری کی اور پھر تخلص بدل کر ساغر صدیقی رکھ لیا۔ 1944ء کا سال تھا۔امرتسر میں ایک بہت بڑا مشاعرہ ہو رہا تھا، جگر جیسے شاعر شریک تھے،ساغر ان دنوں امرتسر میں لکڑی کی کنگھیاں بنانے کا کام کر کے اپنا پیٹ پالتا تھا،کام کرتے ہی بھنک پڑی کہ آج مشاعرہ ہے اور کنگھیوں کے بڑے خریدار جانتے تھے کہ بچہ شاعری کرتا ہے،عمر کوئی پندرہ سال کے قریب تھی۔کسی گاہک نے کہہ سن کر منتظمین مشاعرہ کو راضی کر لیا کہ بچے کو کلام سنانے کا موقع دیا جائے۔

غرض رات کو ساغر نے اپنا کلام مشاعرے میں سنایا۔۔آواز میں وہ بلا کا سوز تھا اور ترنم ایسا کہ جگر کو بھی کاٹ دیا۔۔جگر ترنم سے پڑھنے کے لیے  شہرت رکھتے تھے۔

پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے

پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دیے

نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دیے

غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دیے

سارا مشاعرہ لوٹ کر ہی واپس پلٹے۔۔۔۔

تین سال مزید امرتسر میں گزارے،پھر تقسیم ہو گئی اور ساغر لاہور آگی۔یہاں اس کے کلام کی شہرت پہلے سے پھیل چکی تھی اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔انور کمال پاشا فلم انڈسٹری کے بانیوں میں سے تھے۔انہوں نے ساغر پر دست شفقت رکھا اور گیت لکھوائے،اس زمانے کی فلموں کے بیشتر گیت خامہ ساغر سے ہی نکلے تھے،یہاں آکر ایسی کمال شاعری کی کہ مثال نہیں،اور سارا وقت لکھنے لکھانے میں گزرنے لگا۔ساغر نے خود لکھا کہ تقسیم کے بعد شعر ہی کہتا ہوں،شعر ہی کھاتا ہوں ،شعر ہی پیتا ہوں، لائل پور کاٹن مل میں ایک مشاعرہ تھا،طرحی مصرع دیا گیا۔۔۔

” سجدہ گاہ عاشقاں پر نقش پا ہوتا نہیں ”

ساغر نے بھی اس میں اپنی غزل سنائی،جس کے پہلے دو اشعار نہایت خوبصورت ہیں۔۔

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب

حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں!

سننے میں آتا ہے کہ جگر نے یہ غزل سن کر اپنا کلام سنانے سے انکار کر دیا تھا اور غزل پھاڑ کر چلے گئے تھے۔بہرحال اس کا کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔ ساغر نے ایک آدھ رسالہ بھی نکالا جو بری طرح ناکام ہوا,مجبوراً  بند کرنا پڑا،ہر عروج را زوال است ۔۔ یہی ساغر کے ساتھ ہوا۔1952 کا سال تھا، ساغر ایک رسالے کے دفتر میں بیٹھا تھا،پاس ایک شاعر دوست بھی تھا،ساغر نے بتایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے، دوست نے مارفین کا انجکشن لگا دیا،سردرد تو دور ہو گیا،لیکن اسے موت کی دلدل میں دھکیل دیا،اگلے دن اسے پھر مارفین کی طلب ہوئی،ساغر کے کمرے سے اوپر والے کمرے میں ایک ڈاکٹر کی رہائش تھی،اس نے فوراً ارفین کی رسد ساغر تک پہنچا کر داد وصولی۔اب تک ساغر شراب سے دور تھا،لیکن پھر اس کے بعد چرس اور شراب کی محفلیں جمنے لگیں،دن رات نشے میں دھت رہنے لگا۔جب نشے کی لت پڑی تو سب نے اس سے دور رہنا شروع کر دیا،کام ملنا بند ہو گیا۔

ایک دن شراب کی طلب میں بیٹھا تھا کہ ایک دوست آیا اور اپنا کلام اصلاح کے لیے دکھایا۔ ساغر نے اسے کہا کہ اصلاح کو چھوڑو میں تمہیں غزل لکھ دیتا ہوں،اپنے نام سے چھپوا لینا،مجھے بازار سے مارفین لا دو۔ وہ دوست مارفین لے کر آیا،ساغر نے غزل تھمائی ،اور وہ غزل اس دوست کے نام سے چھپی۔۔۔جب دوسروں نے ایسا دیکھا تو وہ شراب کی بوتلیں کوٹ میں چھپائے اس کے فلیٹ پہ آتے اور ایک آدھ غزل لے کر جاتے اور اپنے نام سے سناتے پھرتے،فلم پروڈیوسرز کی موجیں لگ گئیں،جس گیت کے پچاس/ سو روپے دینے پڑتے تھے،وہ پانچ دس روپے کی شراب کی بوتلوں کے عوض مل جاتا تھا۔ جب نشہ بڑھا تو حالت اس قدر ابتر ہوگئی کہ پاس جاتے ہوئے گھن آتی تھی۔بقول راوی نہایت گندے میلے کچیلے پھٹے ہوئے کپڑوں میں ، ایک بوسیدہ سی چادر ، سالوں سے گندے چہرے پہ پڑتے بال ، منہ میں گھٹیا برانڈ کی بھری ہوئی سگریٹ لیے لاہور کی سڑکوں پہ مارا مارا پھرنے لگا، داتا دربار سے بھنگ مل جاتی تو وہ پی لیا،کھانا بھی وہیں سے کھا لیتا اور اس کی سامنے سو رہتا۔ آوارہ گردی کرتے ہوئے کہیں بھی رات پڑ جاتی تو کسی بھی دکان کے آگے اخبار بچھا کر لیٹ جاتا۔آتے جاتے کوئی دوست مل جاتا،تو اس سے بھیک مانگنے لگ جاتا.۔دوست کبھی تو دس روپے دے دیتے تو کبھی ایک روپیہ اور کبھی جھڑک دیتے اور وہ ساغر مارفین کی طلب میں ان کے پاؤں پڑ جاتا۔

ایسا وقت بھی آیا کہ جاننے والے اسے دور سے آتا دیکھ کر چونی جیب سے نکال کر ہاتھ میں تھام لیتے اور اس کے گندے ہاتھوں کو ہاتھ لگائے بغیر وہ چونی اس کی ہتھیلی پہ رکھ کے آگے بڑھ جاتے۔1974 کی بات ہے جب اس پر فالج کا حملہ ہوا۔علاج کروانے کی بجائے مارفین کی مقدار بڑھا دی، دن گزرتے گئے،ایک صبح سو کر اٹھا تو خون کی الٹی آئی اور دن بدن جسم سوکھ کر کانٹا ہوگیا،داتا دربار کے سامنے والے فٹ پاتھ پر ڈیرہ ڈال لیا اور وہیں خون تھوکتا رہتا.سب جانتے تھے کہ اس کا آخری وقت قریب ہے۔۔ایک صبح اسی فٹ پاتھ پہ مردہ پایا گیا…

Advertisements
julia rana solicitors

یہ انیس جولائی 1974 کی صبح تھی،کچھ پرانے دوستوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے میت کو غسل دیا اور کفن وغیرہ کا بندوبست کر کے میانی صاحب میں آسودہ خاک کر دیا، ساغر کے شعری مجموعوں میں غمِ بہار، زہرِ آرزو، لوحِ جنوں، شبِ آگہی اور سبز گنبد شامل ہیں۔ اگر چہ ساغر صدیقی نے کوئی خاص علمی ، ادبی و تحقیقی کارنامے انجام نہیں دیے،لیکن اس کی شاعری کا اردو شاعری میں خاطر خواہ حصہ ہے۔ ” آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے”۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply