انگریزستان(حصّہ اوّل)۔۔عدیل ایزد

کیا آپ جانتے ہیں ؟
یو نائٹڈ نیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر دوسرے ہفتے دنیا سے ایک زبان ختم ہوجاتی ہے۔ آنے والے دس سالوں میں دنیا کی نوّے فیصد زبانیں ختم ہو جائیں گی۔ اور اس کے بعدجو زبانیں باقی رہ جا ئیں گی ان میں شامل ہیں سپینش، رشین، مینڈرین ( جو چائنہ کی آفیشل زبان ہے) اور سب سے مشہور زبان جو آج بھی ہر جگہ بولی جا رہی ہے وہ ہے انگریزی۔ اسے آپ دو نظریوں سے دیکھ سکتے ہیں پہلا ہے یورپین نظریہ کہ بلآخر پوری دنیا میں ایک ہی زبان استعمال ہو گی ۔زبان کے لحاظ سے ہی سہی پوری دنیا متحد تو ہو گی ۔ سبھی ایک زبان بولیں گے جو کہ ایک اچھی بات ہے ۔

اور دوسرا نظریہ جو کہ دراصل ایک تلخ حقیقت ہے وہ یہ کہ نوّے فیصد زبانیں ختم ہو جائیں گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیامیں ایسی ہزاروں علاقائی بولیاں ہیں، مادری زبانیں ہیں جن کو لوگ بولنا ہی چھوڑ دیں گے ۔

آج میں پوری دنیا کی بات نہیں کرنے والا حالانکہ یہ تحریر ان سبھی ممالک کے لیے ہے جن کی قومی یا مادری زبان انگریزی نہیں ہے ۔مگر آج ہم صرف بات کریں گے اپنے ملک کی ۔ کیا ہو گا ہمارے ملک میں اگر ایسا ہو اتو؟

آپ کے تصور میں پاکستان کیسا ہو گا اگر سب انگریزی بولنا شروع کر دیں؟ لیکن یہ جاننے سے پہلے ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ زبان ہوتی کیا ہے؟ زبان دراصل ہماری سوچوں کےاظہار کا نام ہے۔ انسان الفاظ کے ذریعے ہی سوچتا ہے ۔ یا پھر یوں کہہ لیجیے ہمارے لیے الفاظ ہی سوچنے کا ذریعہ ہیں۔ کیونکہ آپ نے بھی نوٹس کیا ہو گا کہ ہم میں سے انگریزی بہت سے لوگ بول تو لیتے ہیں لیکن ہماری جو سوچیں تخلیق ہوتی ہیں وہ اردو میں ہوتی ہیں جن کی بعد میں ہم انگریزی میں تشریح کرتے ہیں، پھر بولتے ہیں۔

تو کیا آپکو انگریزی میں روانی سے بات کرنے کے لیے سوچنا بھی انگریزی میں پڑے گا؟ جی ہاں۔ یہی حقیقت ہےآپ انگریزی کے الفاظ کا  ذخیرہ کتنا ہی بڑھا لیں ، جتنی مرضی انگریزی کی کتابیں پڑھ لیں ، انگریزی مویز دیکھ لیں آپ انگریزی بولنا تو سیکھ جائیں گے لیکن روانی سے بولنے کے لیے آپکو سوچنا بھی انگریزی میں ہی پڑے گا۔

 

آپ بھی اس سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ آخر انگریزی میں سوچا کیسے جا سکتا ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں جتنا آپ سمجھتے ہیں ۔ انگریزی میں سوچنے کا مطلب ہے انگریزوں کی طرح سوچنا۔ جس طرح سے وہ سوچتے ہیں اپنی روایات، اپنے کلچر کے بارے میں۔ کیونکہ کسی بھی جگہ کی زبان اس جگہ سے وجود میں آتی ہے اور اس جگہ کے کلچر سے ہی متاثر ہوتی ہے۔ آپ الاسکا (Alaska) چلے جائیں وہاں پر جو اسکیموز (Eskimos) ہوتے ہیں ان کے پاس برف کے لیے پچاس سے زیادہ الفاظ ہوتے ہیں۔ جب برف گر رہی ہے تو اس کے لیے الگ لفظ(Qana) ، جب برف ڈرفٹ کر رہی ہوتی  ہے تو اس کے لیے الگ لفظ(Piqsirpoq)، زمین پر بکھرے برف کے لیے الگ لفظ(Aput) ۔ کیونکہ وہ برف سے گھرے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے یہاں صرف برف ہی بولتے ہیں یا پھر انگریزی میں سنو(Snow) ہی بولتے ہیں کیونکہ ہماری آب و ہوا ایک جیسی نہیں اس وجہ سے ہمیں برف کے لیے اتنے زیادہ الفاظ کی ضرورت ہی نہیں۔ جگہ سے زیادہ زبان ہمیں ملکیت کا، اتحاد کا احساس دیتی ہے۔ کیونکہ زبان کا ہماری تہذیب کے ساتھ، ہماری جگہ کے ساتھ انتہائی گہرا تعلق ہے۔

اردو کے ایسے کئی الفاظ ہیں جن کا عین انگریزی لفظ نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ سارے الفاظ ہماری سرزمین سے وجود میں آئے ہیں یا پھر ہماری تہذیب سے متاثر ہوکر عام ہوئے جن کا آپکو انگریزی میں تو کیا دنیا کی کسی بھی زبان میں عین مطابق لفظ نہیں ملے گا۔ اور اگر آپ ان الفاظ کو بولنا چھوڑ دیں گے ان کو روزمرہ کی گفتگومیں استعمال کرنا چھوڑ دیں گے تو وہ سارے تہذیبی پہلو جو ان الفاظ سے جڑے ہیں ، آپ انہیں بھی گنوا دیں گے۔ کسی تصور کی نمائندگی کرنے والے ایک لفظ کو اگر آپ مٹا دیں تو یہ تصور خود بخود دنیا سے غائب ہوجاتا ہے۔ میں آپ کو اس کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ۔ جھوٹا کھانا ہم سب کو معلوم ہے کیا ہوتا ہے مگر اس لفظ کا عین انگریزی لفظ نہیں ہے۔ اس کا انگریزی میں جو قریب ترین ترجمعہ کیا جاتا ہے وہ ہے “سپوائلڈ فوڈ”Spoiled Food ۔ جسے ہم اردو میں برباد کھانا کہہ سکتے ہیں۔ وہ کھانا جو آپ کھا ہی نہ سکیں ۔ مگر ہمارے لیے برباد کھانا اور جھوٹا کھانا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ضروری نہیں ہے کہ ہر جھوٹا کھانا ہم نہ کھائیں یا پھر اسے پھینکنا ہی پڑے۔

درحقیقت ہمارے معاشرے میں ہم کبھی کبھار اپنے قریبی لوگوں کا جھوٹا کھانا کھا لیتے ہیں۔ دوستوں میں تو مل کر ایک ہی پلیٹ سے تین تین لوگ بھی کھا سکتے ہیں۔ لیکن انگریزوں کی تہذیب میں جھوٹا کھانا نہیں کھایا جاتا ۔ اگر کوئی کھانا جھوٹا ہے تو وہ ان کے لیے برباد ہی ہو گیا ہے اور اسی لیے وہ جھوٹے کھانے کے لیے “سپوائلڈ فوڈ” کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہماری تہذیب میں کھانے کی ایک الگ روحانی اہمیت حاصل ہے۔

ہمارے ہاں کھانا ضائع کرنا صرف غلط ہی نہیں ایک گناہ بھی ہے۔ اور اسی لیے جھوٹا کھانا اور برباد کھانا دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ اور اس کے لیے دو الگ لفظ ہیں۔ دیکھا آپ نے ایک چھوٹا سا لفظ کتنا بڑا ثقافتی فرق ڈال سکتا ہے۔ اور اگر آپ بھی جھوٹے کھانے کو “سپوائلڈ فوڈ” ہی بولیں گے تو آپ کے ذہن میں جو تصویر بنے گی وہ برباد کھانے کی بنے گی، آپ بھی ہر جھوٹے کھانے کو برباد ہی سمجھیں گے ۔ اور ایسا کرنے سے ہم آہستہ آہستہ اپنی ثقافتی تہذیب کو گنوا بیٹھیں گے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ان کی ثقافت کو اپنی تہذیب سے اونچا مقام دیتے ہیں جیسا کہ انگریزوں نے چارسو سال پہلے ہم پر اپنی حکومت کے دوران کہاتھا کہ وہ ہم سے برتر ہیں اور ہمیں ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ تو بس ایک ہی لفظ کی مثال ہے ایسے کئی اور الفاظ بھی ہیں جو ہم بہت پہلے ہی بھول چکے ہیں ، جو ہم اپنی روزمرہ کی گفتگو میں استعمال ہی نہیں کرتے اور ان الفاظ سے جڑے تہذیبی پہلو بھی گنوا چکے ہیں ۔ آج ہمارے ملک میں انگریزی زبان نے ایسے اپنے پنجے گاڑھے ہیں کہ جب ہم کسی کے سامنے انگریزی غلط بولتے ہیں یا ہمارا تلفظ غلط ہوتا ہے تو ہم شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر اردو غلط بولتے ہیں یا اس کے الفاظ کی ادائیگی میں کوئی غلطی کرتے ہیں تو اس نظر انداز کر دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply