جے آئی ٹی اور وزیر اعظم ہاوس آمنے سامنے کیوں؟

جے آئی ٹی اور وزیر اعظم ہاوس آمنے سامنے کیوں؟
طاہر یاسین طاہر
اٹارنی جنرل کی جانب سے جے آئی ٹی کے الزامات کا جواب سپریم کورٹ میں داخل کرا دیا گیا ہے ،اٹارنی جنرل نے جے آئی ٹی کی جانب سے مختلف اداروں پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتےہوئے موقف اپنا یا ہے کہ تمام اداروں نے جے آئی ٹی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔اٹارنی جنرل نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ جے آئی ٹی نے وزیر اعظم ہاوس کے فون ٹیپ کیے،اٹارنی جنرل نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا کہ جے آئی ٹی گواہان کو بیان پڑھانے کے ثبوت فراہم کرے اور اگر ضرورت پڑی تو متعلقہ شخص اپنا جواب داخل کرانے پر بھی رضا مند ہو گا۔یاد رہے کہ وزیر اعظم ہاوس کی جانب سے سمن لیک کرنے کی بھی تردید کی گئی ہےاور جواب میں کہا ہے کہ سمن کو جے آئی ٹی یا اس کے ممبران نے لیک کیا ہو گا۔جے آئی ٹی گواہوں کی نگرانی اور ان کے فون ٹیپ کرنے میں ملوث ہے اور یہ امر قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اٹارنی جنرل نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ ریکارڈ کو ٹمپر کرنے کا الزام بھی درست نہیں ہے۔یاد رہے کہ وزارت قانون و انصاف نے بھی جے آئی ٹی کے تمام الزامات مسترد کر دیے ہیں، جبکہ اٹارنی جنرل نے مزید کہا ہے کہ جے آئی ٹی کے کچھ ممبران کے خلاف بھی متعصب ہونے کے الزمات ہیں،جبکہ جے آئی ٹی نے اداروں پر الزامات لگائے ہیں۔
یاد رہے کہ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا ادارے نہ صرف ریکارڈ دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں بلکہ ریکارڈ میں ٹمپرنگ بھی کی جا رہی ہے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی کے اراکین پر دباو ڈالا جا رہا ہے۔یہ بات درست ہے کہ حکمران جماعت نے سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی کی تشکیل کے فیصلے پر جشن منایا تھا اور مٹھائیں تقسیم کی تھیں۔حکمران جماعت کا موقف تھا کہ وزیر اعظم صاحب نے پاناما کیس سامنے آنے کے بعد جس نوعیت کا تحقیقاتی کمیشن بنانے کی پیشکش کی تھی، در اصل جے آئی ٹی اسی کی ایک شکل ہو گی، جسے سپریم کورٹ نے بنانے کا حکم دیا ہے۔ازاں بعد جے آئی ٹی کی تشکیل میں سپریم کورٹ نے جس طرح کردار ادا کیا اور مختلف اداروں سے نمائندے لیے،اس پر حکمران جماعت حساسیت کا مظاہرہ کرنے لگ گئی۔سب سے پہلے تو دبے لفظوں میں جے آئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں پر اعتراض اٹھایا جانے لگا،مگر جب جے آئی ٹی کی تشکیل مکمل ہو گئی اور اس نے اپنی تحقیقات کا آغاز کر دیا تو ،اس تحقیقاتی ٹیم پر اعتراضات اور اس کے رویے کے خلاف شدت در اصل حسین نواز کی پیشی سے شروع ہوئی۔
حسین نواز نے بھی جے آئی ٹی کے دو ممبران پر اعتراض داخل کرایا،جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیا۔حسین نواز کی جے آئی ٹی میں مسلسل پیشی اور گھنٹوں تحقیقات نے حکمران خاندان اور مسلم لیگ نون کے اعصاب پریقیناً دباؤ ڈالا ،اس پہ مستزاد یہ کہ حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع کی، تصویر بھی لیک ہو گئی۔جس سے نون لیگ مشتعل ضرور ہوئی ہے۔وزیر اعظم صاحب کے دونوں صاحبزادوں کی پے در پے پیشیوں اور اس کے بعد وزیر اعظم صاحب کی جے آئی ٹی میں پیشی،نے نون لیگ کے رہنماوں کو مزید بر انگیختہ کر دیا۔ اگرچہ کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کی جے آئی ٹی میں پیشی،دراصل حکومت اورحکمران خاندان کی جانب سے عدلیہ اور اداروں کے احترام کی پاسداری ہے،مگر جس طرح جے آئی ٹی نے حکومت،اورا س کے ما تحت اداروں پر الزامات عائد کیے اور جس طرح اٹارنی جنرل نے جواب داخل کرایا یہ سب کسی طوفان کا پیش خیمہ ضرور ہے۔
اگرچہ آج وزیر اعلیٰ پنجاب بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے ہیں،اور جلد ہی وزیر اعظم کے داماد بھی جے آئی ٹی میں پیش ہوں گے۔یہ سب ایک طرٖ ف مگر جس طرح ترجمان وزیر اعظم مصدق ملک نے کہا کہ جے آئی ٹی جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے،اور جیسے نون لیگ کے دانیال عزیز،مریم اورنگزیب،طلال چوھدری اوررانا ثنا اللہ ،جے آئی ٹی کی حیثیت کو متنازعہ بنانے کی مہم پر ہیں،اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ اگر فیصلہ حکمران خاندان کے خلاف آتا ہے تو اسے جے آئی ٹی کی جانبداری کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے گا۔اس وقت عملاً جے آئی ٹی اور وزیر اعظم ہاوس ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں۔یہ افسوس ناک مرحلہ اس وجہ سے آیا کہ ہمارے ہاں یہ روایت ہی نہ تھی کہ طاقت وروں سے بھی حساب مانگا جائے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جارحانہ بیان بازی کے بجائے جے آئی ٹی کو اپنا کام کرنے دیا جائے اوروزیر اعظم ہاوس اپنا کام کرے۔وہ معاشرے جہاں ادارے مضبوط ہوں وہاں جمہوری روایات مضبوط ہوتی ہیں اور، وہ معاشرے جہاں اداروں کے بجائے افراد کو مضبوط کیا جاتا ہے وہاں ،آزادی کے بجائے گھٹن اور تعصب کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply