روہنگیا کے بے یارو مددگار مسلمان اور عالم اسلام

طاہر یاسین طاہر
میانمارمیں روہنگیا کے مسلمان اپنے مسلمان ہونے کے قصور کی سزا بھگت رہے ہیں اور عالم اسلام سوائے مذمتی قراردادوں کے اور کچھ بھی نہیں کر پا رہا۔یہ مذمتی قراردیں بھی گاہے گاہے منظور ہوتی ہیں، ورنہ عالم اسلام کے قابل ذکر ممالک کے پاس اتنا وقت ہی کہاں کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کر سکیں۔وہ جنھوں نے فلسطین کے مسلمانوں کا خون گوارا کر لیا ان سے روہنگیا کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند ہونے کی توقع خام خیالی اور خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بہزاد لکھنوی نے کیا خوب کہا تھا
اس دور میں اے دوست زبوں حالی مسلم
دیکھی نہیں جاتی ہے مگر دیکھ رہا ہوں
ایک تازہ خبر کے مطابق ہزاروں لوگوں نے اسلامی ممالک میں روہنگیا مسلمانوں کی ابتر صورتحال پر احتجاج کرتے ہوئے مظاہرے کیے۔ بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں ہزاروں لوگوں نے مظاہرے کرکے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ مکمل ہم بستگی کا اعلان کردیا۔بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں مظاہرین نے ’’روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی بند کریں‘‘ کا نعرہ لگا کر عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے روہنگیا کے مسلمانوں کی نسل کشی پر آنکھیں بند نہ کرنے کی اپیل کی۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں مسلمانوں کے احتجاج کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش روہنگیا مسلمانوں کو پناہ گزین کے طور پر قبول نہیں کر رہا اور بنگلہ دیش اتھارٹی کی جانب سے سرحد پار کرنے والوں کو پھر سے میانمار واپس بھیجا جا رہا ہے۔تھائی لینڈ میں بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے بنکاک میں میانمار کے سفارتخانے کے سامنے اجتماع کرکے روہنگیا کے مسلمانوں پر کیے گئے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کیا۔ اس سے پہلے تھائی لینڈ کی حکومت کی جانب سے روہنگیا پناہ گزینوں کے دوسرے گروہ کو میانمار واپس بھیجنے کے فیصلے پر یہاں کے مسلمانوں نے شدید غم وغصے کا اظہار کیا تھا۔
مظاہرین نے میانمار حکومت سے مذہبی اور قومیت پر مبنی نسل کشی کو بند کرنے کی اپیل کی اور آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیم کو میانمار میں آنے اور حالات کا صحیح جائزہ لینے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔واضح رہے کہ تین سال قبل میانمار میں نسلی اور مذہبی تصادم کے آغاز کے بعد سے میانمار کے انتہا پسند بوڈھسٹ، حکومت اور فوج کی ایما پر روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں، ان کی املاک کو تاراج اور ان کی عورتوں پر مسلسل حملے کر رہے ہیں-
یہ انتہائی افسوس ناک اور دل سوز واقعات ہیں جو روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔اسلامی ممالک کے عوام اگرچہ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں مگر اسلامی ممالک کے بادشاہ اس حوالے سے قابل سماعت مذمت نہیں کر پائے ،کہ دنیا کے عدل پسند اس حوالے سے متوجہ ہو سکیں۔روہنگییا مسلمانوں کے ساتھ بنگلہ دیش کی حکومت کا رویہ بھی انتہائی جارحانہ اور نسلی و علاقائی متعصب پر مبنی ہے جس سے روہنگیا مسلمانوں کی تکالیف دو چند ہو گئی ہیں۔اگر بنگلہ دیش سمیت سارے اسلامی ممالک روہنگیا مسلمانوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں تو ان کی تکلیف کم ہو سکتی ہے۔ اگرچہ اس امر میں کلام نہیں کہ دنیا بھر میں پناہ گزینوں نے ممالک کے لیے مسائل کھڑے کیے ہیں۔ مگر روہنگیا مسلم کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔
یہاں عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کا رویہ بھی جانبدارانہ ہے۔اقوام متحدہ کو بھی چاہیے کہ انسانی حقوق کے مبصرین کو فوری میانمار میں تعینات کرے جو اس سارے معاملے پر نظر رکھ سکیں۔عالم اسلام کو بھی اقوام متحدہ سمیت دینا بھر کے فیصلہ ساز ممالک کے ساتھ اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر اٹھانا چاہیےاور یہ یقین حاصل کرنا چاہیے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کا کم از کم جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے میں عالمی برادری ان کا ساتھ دے گی۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply