• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • ترکی میں روسی سفیر کا قتل اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتی شدت پسندی

ترکی میں روسی سفیر کا قتل اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتی شدت پسندی

ترکی میں روسی سفیر کا قتل اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتی شدت پسندی
طاہر یاسین طاہر
دنیا شدت پسندوں کی نشانے پر ہے۔ہر ایک اپنی اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق دین کی تفہیم کر کے اس پر اپنے مزاج کے مطابق عمل کو ہی عین فطری سمجھ رہا ہے۔دین اسلام ایک آفاقی دین ہے اور اس دین کی تعلیمات بڑی واضح ہیں۔سفیر ایک طور سے سرکاری مہمان بھی ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات اس امر پر گواہ ہیں کہ سفیر کو قتل کرنے یا اسے اذیت دینے کا کوئی حکم نہیں آیا۔اسلام تو دلیل اور مکالمے کا دین ہے،مگر صد حیف کہ عالمی سامراجی طاقتوں کے مفادات کی تکمیل میں مسلم حکمران پیش پیش رہے،اس “پیش کاری”کی بھی تاریخی و علاقائی وجوہات ہیں جنھیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔گذشتہ سے پیوستہ روز ترکی میں تعینات روس کے سفیر آندرے کارلوف کو ترک پولیس کے ایک اہلکار نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی فائرنگ میں حملہ آور بھی مارا گیا، روس نے معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان، اقوام متحدہ اور نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دنیا بھر میں واقعے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی میں روسی سفیر آندرے کارلوف کو انقرہ میں فنون لطیفہ کی ایک نمائش کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ ان پر اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ ڈائس پر کھڑے ہوکر خطاب کر رہے تھے، انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔ موقع پر موجود سپیشل فورسز کے اہلکاروں نے حملہ آور کو بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ باسٹھ سالہ اندرے کارلوو ایک منجھے ہوئے سفارتکار تھے اور 1980ء کی دہائی میں شمالی کوریا میں بطور روسی سفیر تعینات رہے۔ انہیں جولائی 2013ء میں ترکی میں روسی سفیر مقرر کیا گیا۔
یہ امر یاد رہے کہ روسی سفیر کے قتل کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں پر زور دیا ہے۔ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب روس نے انقرہ میں سفیر کی ہلاکت کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے معاملہ سکیورٹی کونسل میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ واقعے کے بعد ترک صدر طیب اردوان نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف تعاون مزید مضبوط کرنے پر اتفاق کیا۔ صدر پیوٹن نے کہا کہ حملے کا مقصد شام کے امن عمل کو نقصان پہنچانا ہے۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا اعلان کیا۔اندرے کارلوو جولائی 2013 میں ترکی میں روسی سفیر تعینات کیے گئے۔ ان کے دور میں روس اور ترکی کے درمیان تعلقات میں کشیدگی آئی اور گذشتہ سال شامی سرحد کے قریب ایک ترک طیارے نے روسی جنگی جہاز ما گرایا تھا۔روسی کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کے لگائے جانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات حال ہی میں بہتری کی جانب بڑھے تھے۔یاد رہے کہ “حملہ آور حلب اور بدلہ جیسے الفاظ استعمال کررہا تھا اور اس نے ہال میں موجود عام شہریوں کو باہر نکلنے کا کہا اور جب لوگ بھاگنے لگے تو اس نے دوبارہ فائرنگ کی،یاد رہے کہ انقرہ میں روسی سفیر پر حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ترک وزیرخارجہ میلود چاووش اوغلو،روسی وزیر خارجہ سرگئی لارووف اور ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف ماسکو میں شام کے معاملے پر ایک غیر معمولی سہ فریقی مذاکرات شروع کرنے والے تھے۔
واقعے کی وجوہات کو کئی تجزیہ کار ہمیشہ کی طرح تیسری چوتھی قوت کے ساتھ جوڑ رہے ہیں، ہم مگر سمجھتے ہیں کہ اس واقعے کی ویڈیو اس امر کی شاہد ہے کہ حملہ آور نہ صرف حلب میں روسی مداخلت پر پریشان تھا بلکہ اسے شام میں داعش اور باغیوں کے خلاف روس کی عسکری کارروائیوں کا بھی شدید رنج تھا۔حملہ آور نے جس طرح نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے فائرنگ کر کے ایک مہمان کا اسلام اور اللہ کے نام پر قتل کیا اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس کی فکر کے سوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں۔عالمی برادری کو حلب کی صورتحال پر تشویش ہے اور اس تشویش کی کئی وجوہات ہیں۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ حالات حلب کے بعد کس طرف کا رخ کریں گے؟مشرق وسطیٰ اس وقت مذہبی،لسانی،اور فرقہ وارانہ شدت پسندی کا گڑھ بنتا جا رہا ہے ۔افسوس ناک امر یہی ہے کہ قاتل و مقتول اسلام کے نام پر دست و گریبان ہیں۔شام کے حالات اور بطور خاص حلب میں داعش کی پسپائی سے سامراجی طاقتوں کے مفادات کا کھیل کسی حد تک بگڑا ضرور ہے مگر جو حقیقت ہے وہ یہی کہ دہشت گردی اور مذہبی جنونیت و انتہا پسندی کا پودا اس خطے میں توانا ہو چکا ہے،جس کی خونریز شاخوں سے نفرت اور لاشوں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ترکی اپنی شام مخالف اور داعش کی” طرفداریانہ” پالیسیوں کے باعث ایک ایسی خطرناک کیفیت کا شکار ہو چکا ہے جس کے اثرات ترک معاشرے سمیت خطے پر گہرے مگر منفی پڑیں گے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply