حلوے جیسا میٹھا دوست ۔۔۔ مطربہ شیخ

دو سال پہلے جب فیسبک استعمال کرنا شروع کی تو احباب کی فہرست میں چند ہی دوست تھے۔ مجھے مشہور ہونے کا شوق نہیں لیکن مشہور افراد سے دوستی کرنے کا بڑا شوق ہے سو چن چن کر مشہور افراد ڈھونڈنے شروع کیے۔ زیادہ تر ادب سے تعلق رکھنے والے مصنفین یا مشہور اینکرز اور صحافی خواتین حضرات کو فالو کرنا شروع کیا، کسی نے فرینڈ ریکوئسٹ قبول کر لی کسی نے نہیں کی، لیکن ہم بھی ڈهیٹ فالو کرتے رہے۔ ہمارے دل کی بات سچائی سے سو لفظوں میں پرو کر بیان کرنے  والے محترم صحافی سر مبشرعلی زیدی صاحب کی دیوارِ سچائی سے دو ایسی نابغہ روزگار ہستیوں سے دوستی نصیب ہوئی ہے کہ اپنی قسمت  پر رشک آتا ہے، محترمہ شاہانہ جاوید آپا اور حافظ صفوان صاحب، دونوں سے دوستی اس قدر گہری ہوگئی ہے کہ دل کی بات چند لفظوں سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ سر صفوان فیسبک پر فردِ واحد ہیں جن سے میں نے خود ان کا فون نمبر مانگا تو فرمانے لگے کہ شریف لڑکیاں شریف لڑکوں سے باتیں نہیں کرتیں۔ ارے کون سے لڑکے؟ میں تو ایک بزرگ سے بات کرنا چاہ رہی ہوں۔ ایک دینی مسئلہ درپیش ہے۔ فرمایا خود پڑهو، ڈهونڈو، کتب بتا دیتا ہوں۔  یہ سر صفوان کی خوبی ہے کہ گفتگو میں مہذب طریقے سے مخاطب کرتے ہیں، خاص طور پر مشفقانہ انداز میں “لڑکی” کہتے ہیں تو میں خود کو نوعمر لڑکی ہی محسوس کرنے لگتی ہوں، سو میں نے بهی ٹین ایج لڑکی کی طرح میسنجر پر دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ جب کوئی دوست نخرہ دکھائے تو میں شریف ہرگز نہیں رہتی، سو ایک ہفتہ اتنی دهمکیاں دیں کہ سر صفوان نے میرے میاں کو کہا کہ تم نے اپنی بلا فیسبک پر کیوں چھوڑ دی ہے، یہ یا تو فیسبک بند کروائے گی یا ہم خود ہی فیسبک کو بند کر دیں گے۔ اسد نے بڑے اطمینان سے کہہ دیا کہ جو آپ کی مرضی ہے کریں۔ شکر ہے چند لمحے مجھے سکون کے میسر آئے ہیں یہودیوں کی فیسبک کی بدولت۔ آپ کی طرح مولون ہے، پیچھا نہیں چھوڑنا اس نے۔

سر صفوان کا تعلق ملتان سے ہے اسی لیے وہ ملتانی سوہن حلوے کی طرح نرم مزاج ہیں اور ان کا لہجہ بھی اتنا ہی شیریں اور اچھا ہے جیسا کہ حلوہ، خاص طور پر جب وہ اردو میں گفتگو کریں۔ سر صفوان سے پچھلے ایک سال کی دوستی میں بہت کچھ سیکھا، حتیٰ کہ دورِ طالب علمی کا پڑھا ہوا بھی سر صفوان کی دیوار منفرد پر ہونے والے سماجی، دینی و دنیاوی مباحث کے ذریعے ذہن میں تازہ ہوگیا۔ سر صفوان کے چٹکلے کبھی بے ساختہ ہنسی سے نوازتے ہیں اور کبھی  معاشرے کے دل شکن رویے پر کیا جانے والا چٹکلہ افسردہ بھی کر دیتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک معاشرتی و سیاسی مسئلے پر میں نے تھوڑی تلخ کلامی بھی کر دی لیکن سر صفوان نے خندہ پیشانی سے میری بدتمیزی برداشت کی کیونکہ وہ واقعی بڑے ہیں اور ہم چھوٹے۔ اسد نے تو مجھے ڈانٹا بھی۔ گویا یوں کہیے کہ ان کے ساتھ ذرا سی شرارت ٹائپ بدتمیزی پر میاں صاحب سے بھی ڈانٹ پڑ گئی۔

عام طور پر مذہبی افراد کو لوگ خشک مزاج سمجھتے ہیں لیکن سر صفوان کی زندہ دلی اور خوش مزاجی دینی و سماجی اصول کے مطابق ہے۔ خوش اخلاقی و محبت سے دینی بات منوانا ان کی خوبی ہے۔ تبلیغ اور اجتماعیت ان کی گھٹی میں پڑی ہے اور یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ یہ اجتماعیت کسی ایک مذہبی و سیاسی جماعت کی نظر نہیں آتی ہے بلکہ معاشرتی و سماجی طرز کی ہے۔ فرقہ واریت سے کوسوں دور ہیں، کسی بھی مسئلے کا حل  سماج کی اجتماعی فہم پر دیتے ہیں۔ دورِ حاضر کے بیشتر جید علمائے کرام سے رابطے میں رہتے ہیں اور سب کے علم کے اشتراک سے معاشرے کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ مسالک یا فرقے کی بنیاد پر ہونے والے اختلافی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسلام کا اصل پیغام جو کہ امن و محبت ہے، اسی پر خود بھی عمل پیرا ہیں اور اپنی فیسبک کی وال کے ذریعے بھی یہی پیغام دیتے ہیں۔

بس مجھے خطرہ ہے کہ سر صفوان کہیں میرے میاں کو راضی نہ کروا دیں دوسری شادی کے لیے، ورنہ میں ساری خوش مزاجی جاؤں گی۔ میرے میاں نے ایک بار سر سے کہا کہ سر آپ پہل کریں تو میری بھی دوسری شادی کی ہمت بندهے۔ فرمایا، کیا صرف تمهارے گھر میں شیرنی ہے؟ یہاں میرے گھر میں جو شیرنی ہے اس نے میرا حشر کر دینا ہے۔ میں بھی ایک میاں ہوں یار۔ تت تت بچارے میاں لوگ۔ مجھے بہت ترس آتا ہے سارے میاؤں پر۔ کتنا ڈرتے ہیں ناں بیویوں سے!

ابهی تک ہماری باقاعدہ ملاقات نہیں ہوسکی ہے۔ شہر الگ الگ ہیں اور خاصے دور ہیں لیکن دل قریب ہیں۔ امید ہے کہ ہماری جب بھی ملاقات ہوگی، اچھے اور دوستانہ ماحول میں ہوگی۔ یہ واحد شخص ہیں جن کے ساتھ دوستی پر میرے میاں اور میں فخر کرتے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔

آج سر صفوان کا یومِ پیدائش ہے۔ نہ جانے یہ لڑکا کتنے سال کا ہوگیا ہے۔ ویسے تو ہر انسان کی طرح ان کو بھی جوان رہنے کا شوق ہے۔ میں نے کہا سر اس سال سے بزرگ بن جائیں۔ کہنے لگے نہیں ابھی  سترہ سال کا ہوا ہوں، ابھی سے بزرگ نہیں بن سکتا، تم کافی ہو بزرگ بننے کے لیے۔ ویسے انھوں نے واقعی مجھے بزرگ بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ مجھے نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ  دورِ طالب علمی میں جو درسِ قرآن وغیرہ کرتی تهیں اب وہ بھی کیا کرو اور چھوٹی بچیوں اور لڑکیوں کی تربیت کے لیے دینی و سماجی پروگرام وغیرہ رکھا کرو۔ میں نے جان چھڑانے کو کہہ دیا کہ بس جوانی میں جو کرنا تھا کرلیا، اب بڑهاپے میں ہمت نہیں ہے۔ سب بچیاں لڑکیاں میری طرح ہیں، نہیں سدھریں گی۔ لیکن وقتًا فوقتًا ان کی اس نصیحت کی وجہ سے میں نے اپنے محلے میں ہفتہ وار درسِ قرآن پندرہ سال کے عرصے کے بعد دوبارہ شروع کروا دیا۔ اچھے دوستوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ دنیاوی اور دینی دونوں طرح سے بہترین ہوتے ہیں۔ ایسے دوستوں کا ساتھ ہمارے لیے ضروری ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سر صفوان کی سالگرہ پر کچھ کہنے کو دل چاہا تو یہ سب لکھ ڈالا۔ ڈر بھی رہی ہوں کہ ڈانٹ نہ پڑے۔ میری  طرف سے سر صفوان کو بہت بہت سالگرہ مبارک۔ دلی دعاگو ہوں اللہ سر صفوان کو صحت و تندرستی کے ساتھ درازیِ عمر عطا فرمائے آمین۔ ایسے متوازن اور دین و سماج و معاشرے کو درست طور پر لے کر چلنے والے افراد ہمارے لئے بہت ضروری ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”حلوے جیسا میٹھا دوست ۔۔۔ مطربہ شیخ

  1. واہ مزہ آگیا… دو فیس بُکی دوستوں کی “تاریخ دوستی” پڑھ کر واقعی اچھا لگا. اللہ اس دوستی کو مزید گہرائی نصیب فرمائے. آمین..
    لگے ہاتھوں… حافظ صفوان صاحب کو یوم پیدائش مبارک…

  2. حافظ صاحب سے پہلا تعارف ان کے مضامین پڑھ کر ہوا، پھر ٹیلی فون پر رابطہ رہا۔ لیکن حافظ صاحب کی شخصیت کھل کر تب سامنے آئی جب ہری پوری میں ان باقاعدہ ملاقاتیں ہوئی۔ حافظ صاحب قلم کے میدان کے شیر تو ہیں ہی لیکن خواتین کے اعضا کے بارے میں ان کی رائے اور رویہ

    ملاقاتوں کے بعد ہی کھلا۔ موصوف خواتین کے حوالے سے بالعموم اور اُن کے اعضا کے حوالے سے بالخصوص ایسی سیر حاصل گفتگو کرتے

    کہ ان کی “آنکھ کی گہرائی” اور “نیت کا اخلاص” واضح تر ہوتا چلا جاتا۔ “CRULP” میں لسانیات کے حوالے سے ایک کانفرنس تھی جس میں

    جرمنی سے تشریف لائیں مریم بٹ صاحبہ نے مقالہ پڑھنا تھا مجھے پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوگئی، حافظ صاحب سے استفسار کیا تو فرمانے لگے

    چھوڑیے اُس کے مقالے کو اُس کے۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ واللہ کیا کہنے (خالی جگہ خود پُر کریں)۔۔ حافظ صاحب ماہر لسانیات ہیں اور لغت نویس بھی، ان کی

    ایک لغت لاہور سے “کرنٹ پبلشرز” سے چھپ چکی ہے۔ وہ لغت ناشر پر اس قدر بھاری ثابت ہوئی کہ اُس کی اشاعت ناشر کے ترک کر دی ہے۔

    ادارے کے مالک “غلام یزدانی صاحب” سے پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ حافظ صاحب نے اُن کے گھٹنوں کو چھو کر معافی مانگی تھی کہ ”

    انکل غلطی ہوگئی معافی چاہتا ہوں”۔ “انکل” سے یاد آیا کہ حافظ صاحب “خواجہ زکریا” صاحب کو بھی انکل ہی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، خواجہ

    صاحب سے ایک ملاقات میں اُنھوں نے فرمایا کہ میں اس۔۔۔۔ کو صرف اس کے باپ کی وجہ سے مِل لیتا ہوں۔ صفوان صاحب کو خود نمائی کا اس

    قدر شوق ہے کہ چند ماہ پہلے “ایوان اقبال” کے مین ہال میں “روسٹرم” پر کھڑے ہوکر تصویریں اُتروایں اور فورا ہی فیس بک پر چڑھا دیں کہ ”

    حافظ صفوان کانفرنس میں مقالہ پڑھتے ہوئے”۔ وہ تصاویر لینے والے “عاطف بٹ” سے تصدیق کی جاسکتی ہے جو دیال سنگھ کالج لاہور میں پڑھاتے ہیں۔ حافظ صاحب کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ “‘پرائیڈ آف پرفارمنس” ہیں اور اس کے ثبوت کے طور پر وہ ایک تصویر پیش کرتے ہیں جس میں صدر ضیا الحق اُن کے سینے پر “بیج’ لگا رہے ہیں جو دراصل سکاؤٹ کو کسی کارکردگی پر لگایا جاتا تھا۔۔ یہ تصویر میں نے حافظ صاحب کے ہاں ہری پور میں خود دیکھی تھی۔ “مقتدرہ قومی زبان” میں بھی حافظ صاحب اپنی صلاحیتیوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں جن کی تفصیلات “راؤ صفدر رشید” اور “افتخار عارف” وغیرہ سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔ “اقبالیات” کے حوالے سے حافظ صاحب کا اختصاص ہے جس کی تفصیل میں خود “سہیل عمر” سابق ناظم اقبال اکادمی” سے سن چکا ہوں۔ کیا بڑے کیا چھوٹے سب ہی حافظ صاحب کے مداح ہیں، اور تو اور اُردو بازار لاہور کے کمپوزر حضرات حافظ صاحب کو ایسے ایسے القابات سے یاد کرتے ہیں کہ یہ فورم اُن کا متحمل نہیں ہوسکتا، اُن میں سب سے معروف کمپیوٹر کمپوزر اور ٹائپسٹ “گل گرافکس” کے کرتا دھرتا “بابر صاحب” ہیں۔ ویسے حافظ صفوان صاحب کی شخصیت کے حوالے سے بہت مدلل اور سیر حاصل گفتگو محترم “کفیل بخاری” اور “صبیح الحسن” کرتے ہیں اور ان کی شخصیت کے ایسے ایسے پہلو سامنے لاتے ہیں کہ لغت اُن الفاظ کے معانی بیان کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی جو الفاظ اُس گفتگو کا خاصہ ہوتے ہیں۔ حافظ صاحب خود کو پی- ایچ- ڈی کہتے ہیں لیکن اُن کی اس پی ایچ ڈی کا سراغ نہیں مل سکا اور نہ ہی ایچ ای سی اُس کی توثیق کرتی ہے. ایک مرتبہ میرے پوچھنے پر فرمانے لگے کہ اُن کی یہ ڈگری “non routed” ہے۔ تعلیم و تدریس کے میدان سے وابستہ افراد اس اصطلاح سے بخوبی واقف ہیں۔ حافظ صاحب ہری پور ہوں یا فیصل آباد، ملتان ہوں یا رحیم یار خان یہ جملہ اُن پر صادق آتا ہے کہ “جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے”۔ یاد آیا حافظ صاحب اپنا پورا نام “حافظ صفوان محمد چوہان” لکھتے ہیں لیکن اُن کے انتہائی قابلِ احترام والد عابد صدیق صاحب نہیں کبھی بھی خود کو چوہان نہیں لکھا جبکہ اُن کے تایا اور اُن کی پھوپھیاں تو خود کو انصاری لکھتی رہیں ہیں۔۔۔ گل وچ کچھ ہور تے نئیں؟؟

Leave a Reply