پشاور میں الیکشن کی فضا ۔۔۔۔۔اے وسیم خٹک

پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ہارون بلور سمیت 22افراد کی خودکش دھماکے میں شہادت کے بعد یہ بات پھر سامنے آگئی ہے اور آج بنوں میں سابق وزیر اعلی اکرم خان درانی پر ہونے والے حملے سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ الیکشن 2018 پرامن نہیں رہیں گے اوردہشت گردی کے واقعات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں جس سے صوبے میں پھر سے حالات خراب ہونے کے آخری حدوں کو چھونے لگے .گزشتہ روز لنڈی کوتل کے ایک شعلہ بیان مقرر کو بھی بورڈ بازار میں نامعلوم افراد نے قتل کردیا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ مخالف پارٹی کی کارستانی ہے ۔ حالیہ ہونے والے ایسے واقعات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ یہ الیکشن بھی پچھلے الیکشن کی طرح خونی ہوں گے جس میں سیاست دانوں کو اپنی انتخابی مہم مشکل سے انجام دینی پڑے گی ۔ پشاور میں ہارون بلور کی خودکش حملہ میں موت اس کی ایک کڑی ہے مگر دوسری جانب تحریک طالبان کی جانب سے واقعے کی ذمہ داری قبول کرنا بھی ایک المیہ سا بن گیا ہے جس پر بعض لوگ یقین نہیں کرتے مگر میڈیا چینل کی یہ ضرورت بن گئی ہے کہ وہ تحریک طالبان کی خبر کو لازمی اپنے چینل اور اخبار کی زینت بنائیں گے بلکہ بعض ٹی وی چینل والوں کی تو ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ جلدی سے وہ ذمہ داری قبول کر لیں اور تحریک طالبان کے ترجمان بھی اسی تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ جتنی جلدی ہوسکے وہ ذمہ داری قبول کرلیں۔

آپ کس پر بھاری ہیں؟۔۔۔۔۔نجم ولی خان

دوسری جانب انٹیلی جنس ذرائع نے کچھ نامور صحافیوں اور سیاست دانوں کو بھی کہا ہے کہ وہ سیکورٹی بڑھائیں کیونکہ وہ بھی دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں ۔ ہارون بلور پر خود کش دھماکے کی ذمہ داری  محمد خراسانی نے قبول کی جس کے بعدتجزیہ نگار بھی مخمصے کا شکار ہیں کہ واقعی یہ سب کچھ طالبان کر رہے ہیں یا کوئی اور ہاتھ اس میں ملوث ہے کیونکہ کئی مرتبہ ہمارے صحافی دوستوں کے ساتھ ماضی میں ایسے واقعات رونما ہوئے تھے جن میں طالبان ترجمان کو پتہ تک نہیں ہوتا اور وہ ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں کہ ہاں یہ ہم نے کیا ہے ۔واہ کینٹ پر ہونے والے دھماکے کے بعد ایک صحافی دوست نے اس وقت ایک ترجمان سے بات کی تھی جس کو پتہ نہیں تھا جب پوچھا گیا کہ یہ ذمہ داری آپ لوگ قبول کرتے ہوتو انہوں نے کہا کہ کس کی ذمہ داری؟ جب کہا گیا کہ جو واہ کینٹ فیکٹری پر دھماکہ ہوا ہے تو جواب اچانک آیا کہ ہاں یہ ہم نے کیا ہے،تو اس سے بھی کچھ کچھ پریشانی ہوجاتی ہے کہ آخر یہ سب کیا چل رہا ہے پشاور میں حالات میں کچھ بہتری آئی تھی جس سے پشاور کے باسیوں نے کسی حد تک سکھ کا سانس لینا شروع کیا تھا اور لگ رہا تھا کہ اب حالات بہتری کی جانب گامزن ہونگے مگر ہارون بلور پر ہونے والے خودکش دھماکے نے سب کو یہ سوچنے پر پھر مجبور کردیا ہے کہ عسکریت پسند کمزور نہیں ہوئے ہیں ان میں اب بھی وہ دم باقی ہے مگر وہ مناسب وقت کے انتظار میں ہیں اور وہ وقت شاید اب آگیا ہے جو لوگ یہ تصور کر رہے ہیں کہ طالبان قوتوں میں دراڑیں پڑگئی ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔

ضرب عضب سمیت تمام آپریشنوں کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ جبکہ ہماری حکومت کی جانب سے وہی پرانے بیانات دئیے جارہے ہیں کہ دہشت گردوں کے ساتھ جنگ جاری رہے گی ہم جھکنے والے نہیں ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اب وقت مقابلے کا آگیا ہے مگر ہماری حکومت کی ساری مشنیری فیل ہوگئی ہے وہ دہشت گردوں کا راستہ روکنے میں ناکام ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی کو 2013میں کافی زیادہ خطرات درپیش تھے ان کو دھمکیاں مل رہی تھیں جس کے باعث انہوں نے انتخابی مہم محدود کردی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کی تحریک انصاف پاکستان کو موقع ملا اور صوبہ خیبر پختونخوا میں ا نہوں نے حکومت قائم کی۔ اب 2018میں حالات تبدیل ہوگئے تھے تو عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور نے کہا کہ اس دفعہ حالات کنٹرول میں ہیں اوروہ انتخابی مہم بھرپور طریقے سے کریں گے۔ عوامی پذیرائی بھی انہیں مل رہی تھی ۔ مگر شاید نادیدہ قوتوں کو یہ بات راس نہیں آئی اور ان کی کامیابی کو سبوتاژ کرنے کے لئے انہوں نے ہارون بلور کو نشانہ بنا دیا ۔ اب پھر سے عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر پارٹیوں نے بھی حکمت عملی مرتب کرلی ہے کیونکہ حالات جس جانب اشارہ کررہے ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ الیکشن بھی اتنا پرامن نہیں ہوگا ۔ حالانکہ اس الیکشن میں تین لاکھ کے قریب فوجی ڈیوٹیاں دیں گے ۔

http://بوٹوں، سوٹوں اور ترازو والوں کی تدبیریں اور میاں کی پاکستان واپسی

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسری جانب ذرائع یہ بھی اشارہ دے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ایک دفعہ پھر عوامی نیشنل پارٹی کے حق میں نہیں ہیں کہ یہی پارٹی برسر اقتدار آئے مگر جو حالات ہیں اس میں یہ ممکن نظر نہیں آرہا ہارون بلور کی موت کے ساتھ ہی عوامی نیشنل پارٹی کا امتحان شروع ہوگیا ہے کیونکہ عوامی نیشنل پارٹی میں تو صرف دوہی نڈر بندے ہیں ایک کو تو شہادت نصیب ہوگئی جبکہ دوسرے میاں صاحب ہیں جن کی زندگی سب سے زیادہ خطرے میں ہے اور ان کو تو روزانہ دھمکیاں ملتی ہیں اب عوامی نیشنل پارٹی کی کیا سٹریٹجی ہوگی وہ الیکشن کے میدان میں کس طرح اتریں گے ان کی زندگیاں تو خطرات کا شکار ہیں اور الیکشن میں بہت کم دن رہ گئے ہیں اور یہ وہ دن ہیں جن میں طالبان قوتوں کی کاروائیوں میں تیزی آجاتی ہے اب اگر عوامی نیشنل پارٹی کی موجودہ ساکھ پر نظر دوڑائی جائے توّ آج صرف اور صرف میاں افتخار حسین ہی نظر آتے اہیں جو ایک واحد پارٹی کے اندر بہادر رہ گئے ہیں باقی تو اللہ کی پناہ ایک ہی دھماکے سے ملک عدم ہوجاتے ہیں ہارون بلور کی موت کے ساتھ ہی عوامی نیشنل پارٹی کے لئے کٹھن دور کا آغاز ہوگیا ہے اب پارٹی کے بڑے اس کو کس طرح سنبھالتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply