اندھی ڈولفن اور بے غیرت صحافت. ثنا اللہ خان احسن

لندن میں مقیم ایک پاکستانی خاتون صحافی صاحبہ نے سندھ میں بلائنڈ دولفن کے ساتھ جنسی زیادتی کی پوسٹ لگائی ہے۔ جن کو یہ نہیں پتہ کہ یہ قبیح فعل صدیوں سے جاری ہے اور اس مکروہ فعل کو کرنے والے اکا دکا لوگ ہی ہیں۔ صحافت ایک عبادت کی طرح ہے لیکن بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں ہونے والی کسی برائی یا کسی کے انفرادی فعل کو پوری قوم پر چسپاں کر کے مذہب کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر طوفان بدتمیزی مچانا ان کا شیوہ ہے اور اسی گندگی کو پھیلانے کا معاوضہ یہ کھاتے ہیں،کہ اللہ نےان کے نصیب میں یہی رزق رکھ دیا ہے۔
گو کہ یہ میرا موضوع نہیں لیکن جس طرح کچھ نام نہاد مسلمان اور پاکستانی غیر ممالک کی گود میں بیٹھ کر پاکستانی قوم اور مسلمانوں پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور صرف چند بدکرداروں کے کرتوت کو پوری پاکستانی قوم اور مسلمانوں کی شناخت بتاتے ہیں وہ انتہائی شرمناک اور گھناؤنا فعل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس خاتون کی پوسٹ پر اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے بے غیرتوں، ننگ دین اور ننگ قوم کی بھی کمی نہیں جو شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہاں میں ہاں ملانے سے شاید اس خاتون کی نظر التفات ان پر پڑ جائے گی۔
بغیر کسی بات کی اصلیت جانے محض ایک خبر کو بنیاد بنا کر اچھلنے والےذرا کچھ تحقیق بھی کرلیا کریں۔
بات گرم ہے دریائے سندھ کے اندھی ڈولفن کے ساتھ جنسی اختلاط کی۔ یہ خبر آج سے شاید کوئی بیس سال پہلے ایک انگریزی اخبار میں چھپی تھی کہ جب ایک ٹیم سکھر کے مقام پر اندھی ڈولفن پر ایک تحقیقی رپورٹ مرتب کرنے گئی تھی۔ تب وہاں کے مچھیروں نے بتایا تھا کہ کچھ لوگ اس مچھلی کو جنسی تسکین کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔اور شاید یہ عمل صدیوں سے جاری ہے۔
دنیا میں جانوروں کے ساتھ جنسی فعل کے مکروہ فعل کی تاریخ بہت پرانی ہے اور ہر دور میں کچھ بد کردار شیطان کے چیلے یہ فعل سر انجام دیتے رہے ہیں۔ کالے جادو کے پجاری بھی یہ فعل سر انجام دیتے ہیں۔ افریقہ کے جنگلات میں بھی یہ فعل عام ہےخواہ کسی بھی جانور کے ساتھ ہو۔ لیکن یہاں ایک انفارمیشن کو بطور ڈس انفارمیشن پھیلایا جا رہا ہے۔ طنزیہ کمنٹس کہ ڈولفن ننگی پانی میں نہا رہی تھی اس لئےمومنین کو جنسی طور پر مشتعل کردیا۔ ڈولفن کو فوراً” پردہ” کرنا چاہئے۔ یہ قوم تو کھوتیاں نہیں چھوڑتی تو ڈولفن کیا چھوڑے گی۔ ایک کرسچن صاحبہ لکھتی ہیں کہ ان مومنین سے اللہ بچائے۔ کم از کم کافر یا عیسائی ایسی گھٹیا یا نیچ حرکت نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔ کچھ کمنٹس اس پوسٹ سے کاپی کر رہا ہوں۔
1- آنکھیں بھی ہوتیں تو کیا ان جیسے مومنوں کے ہاتھ سے بچ جاتی ,,,
2-انگریز لاکھ بُرے سہی تم جیسے نیچ و ہیچ نہیں,,( یہ ایک دیسی کرسچن صاحبہ کے کمنٹس ہیں)
3-پانی میں سب کے سامنے ننگی نہا رہی تھیں۔ وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو اسلام کا سب سے مضبوط قلعہ ہے۔۔
ہماری خواتین کو بےحیائی کا درس دے رہی تھی بے غیرت۔۔ اس کا بلات کار کر کے ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ آئندہ اگر کسی نے بے حیائی کرنے کی کوشش کی تو ہم اس کا کیا حشر کریں گے۔۔
4-جس قوم نے گدھیوں اور کتیوں کو نا چھوڑا ہو ، وہ ڈولفن کو کیسے چھوڑ سکتی ہے ،
کیا پاکستانی آئین میں کوئی ایسا قانون ہے جس میں جانور کے ساتھ بد فعلی کرنے پر کوئی سزا مقرر ہو ؟
اگر ہے تو ان لوگوں کے خلاف مقدمہ اور ان کو سزا کیوں نہیں ہوتی ؟
5- مچھلیوں کو جنسی زیادتی سے بچانے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے پردہ ،،کیونکہ بے پردہ مچھلیاں دعوتِ گناہ دیتی ہیں ۔ مولانا سے التماس ہے کہ وہ اب شہروں کا پیچھا چھوڑ کے مچھلیوں کو پردے کا درس دینے کے لئے سمندروں کی تہہ کا رُخ کریں ۔ وہاں درس کا اہتمام کریں تاکہ مورخ کہہ سکے : شہر تو شہر سمندر بھی نہ چھوڑے تم نے ۔۔
6- مومن ہے تو مچھلی پہ بھی کرتا ہے گزارہ
7-واہ واہ ،سلام تجھے بے غیرت قوم( کرسچن صاحبہ کا دوسرا کمنٹ)
(یہ وہ دیسی کرسچن ہیں جو خود کو گورے انگریز کی اولاد سمجھنے لگے ہیں ۔ ویسے ان کا پیغام محبت اور امن دیکھئے کیسے موقع ملتے ہی مسلمان اور پاکستان کے خلاف نفرت اور زہر اگلتا ہے۔)
جب میں نے ان کرسچن صاحبہ کی توجہ ان کروڑوں وڈیوز کی جانب مبذول کروائی جس میں مغربی مرد و خواتین مختلف جانوروں کے ساتھ جنسی عمل سر انجام دے رہے ہیں تو ذرا موصوفہ کا ڈھٹائی سے بھرپور جواب دیکھئے۔ فرماتی ہیں کہ
جی عربی سب سے آگے ہیں , انگریز چلو جو کرتے ہیں وہ چھپاتے بھی نہیں , لیکن عربی جونیکیاں , پردے میں کرتے ہیں وہ بھی سبھی کو پتہ ہے
غرض پوری پاکستانی قوم اور مسلمانوں پر درفتنیاں بھیجی جا رہی ہیں۔
ان بے غیرتوں سے پوچھو کہ بھلا چند افراد کے فعل کو پورے مذہب اسلام اور پاکستان سے جوڑ دینا کون سی صحافت ہے یا کونسی سچائی ہے۔
اب آ جائیے مغربی اقوام کی طرف۔ پاکستان میں تو یہ قبیح فعل شاید کچھ لوگ منہ چھپا کر اور چھپ چھپا کر ،کرلیتے ہونگے لیکن ذرا انٹرنیٹ پر جا کر ان لاکھوں کروڑوں وڈیوز اور کلپس کو بھی دیکھ لیجئے جن میں مرد و خواتین حتیٰ کے کمسن بچوں کو کتا ، بلی، گھوڑا ،گدھا ،خچر بیل، سور کے ساتھ جنسی اختلاط کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ کروڑوں وڈیوز موجود ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں روزانہ نئی وڈیوز اپلوڈ کی جاتی ہیں۔ اور وہ سب کسی دور دراز دریائے سندھ کے کسی گوشے میں کشتی پر رہنے والا جاہل ملاح نہیں بلکہ نام نہاد مہذب اور تعلیم یافتہ مردو خواتین ہیں۔ عورت کی ایسی تذلیل سے بڑھ کر شاید کچھ ممکن نہیں ہے۔ اس پر لکھتے تم کو موت آتی ہے کہ جس کے بے شمار ثبوت موجود ہیں اور ایک اکا دکا ہونے والے پوشیدہ واقعات کو آپ نے ہوا بنا کر اسلام اور پاکستان کے خلاف کھڑا کردیا۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ان خاتون اور اس قبیل کی دوسری خواتین کو آخر مسئلہ کیا ہے۔ جس ملک میں پیدا ہوئیں ، رہیں، پلی بڑھیں، کھایا پیا ، جس مذہب پر والدین تھے اس میں آپ کو کیڑے نظر آنے لگے۔ برطانیہ میں بیٹھ کر کوئی موقع نہیں چھوڑتے اس ملک اور اسلام کو بدنام کرنے کا۔ ان کو پاکستان میں ہونے والا کوئی مثبت کام نظر نہیں آتا ،لیکن معمولی سی منفی بات کو بھی ایسا اچھالا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔
ذرا ایک چمن کو دیکھئے کیسا خوبصورت ہوتا ہے۔ درخت، پھل پھول پودے، تتلی ہمیشہ خوش رنگ پھول پر بیٹھے گی، بلبل ہمیشہ شیریں پھل پر لپکے گی، شہد کی مکھی پاکیزہ پھولوں کا رس چوسے گی لیکن اگر اسی چمن میں کسی خنزیر کو چھوڑ دیجئے تو وہ درختوں کی جڑ میں پڑے کھاد گوبر پر لپکے گا، اس کو کھکھوڑے گا خود بھی کھائے گا اور پورے چمن میں بھی وہ غلاظت بکھیرے گا۔
اپنے ضمیر سے پوچھو کہ ایک ایسے واقعے کو کہ جس کے کوئی دستاویزی ثبوت نہیں اور جو صرف چند لوگوں تک محدود ہے یا تھا، اس کی بنیاد پر تم پوری پاکستانی قوم اور مسلمانوں کو طنزیہ انداز میں مومنیں مومنین کہہ کر کیسی تضحیک اور ذلت کا نشانہ بنا رہے ہو۔ اس سب کا کیا مقصد اور کیا ایجنڈا ہے۔ اگر ذرا بھی شرم وحیا اور غیرت نام کی کوئی چیز تم میں ہے تو ڈوب مرو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply