فوج میں گزرے روز وشب/2-ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں علی پور چلا گیاتھا۔ زندگی بھر تعلیم ، مستقبل اور منصوبے کے بارے میں کسی نے بھی کوئی مشورہ نہیں دیا تھا۔ چنانچہ وہ چند روز بھی کٹ گئے تھے ۔ جب ریل کے ڈبے میں اکٹھے ہوئے تو ہم چار شخص تھے۔ میں ، چوہدری اظہار، اقبال کینٹ والا او ر قاضی اقبال۔ ہم چاروں فوج کے شکار لوگوں کے علاوہ ایک او ر شخص بھی اسی ڈبے میں بیٹھا ہوا تھا جس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں تھا۔ ہم آپس میں ہی گپیں ہانک رہے تھے جن میں زیادہ گفتگو فوجیوں میں ذہانت کے فقدان ،حکم کا غلام ہونے اور ملک پر بار بار قابض ہونے کے بارے میں تھی۔ وہ آدمی بہت غور سے ہمیں سن رہاتھا او ر اس کی زیادہ توجہ میری طرف تھی۔ میں نے اِس کو محسو س بھی کیا تھا اور پھر اپنا گمان سمجھ کر بے پروا ہوگیا تھا۔ یک لخت اس شخص نے میرے طرف اشارہ کرکے پوچھا تھا۔
’’آر یو مرزامجاہد‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا تھا۔ پھر اس نے پوچھا تھا‘‘آر یو فرام علی پور ‘‘ ظاہر ہے میں وہیں کا تھا۔ تیسرا سوال بھی انگریزی زبان میں ہی تھا ‘‘کیا تم امیر علی برق کو جانتے ہو‘‘ میں اس کو بھی جانتا تھا۔ ہم چاروں ہی ٹھٹک کررہ گئے تھے ۔ میں نے پھرکہاتھا، ’’جناب آپ کی ساری باتیں درست ہیں لیکن میں آپ کو قطعاَ نہیں جانتا‘‘ اس نے ایک مختصر سا جواب دیا تھا۔ ’’آئی ایم میجر اقبال‘‘،تب میرا ماتھا ٹھنکا تھا کیونکہ چند سال پہلے جب میرے دوست خادم حسین نے ایک پٹھان لڑکے کو چاقو کے وار کرکے زخمی کردیاتھا تو مارشل لاء کورٹ کے توسط سے یہی صاحب تفتیش کے لیے مقر ر ہوئے تھے۔ ایک بار کسی نے مجھے کہا بھی تھا کہ میجر اقبال تمہیں ڈھونڈ رہاہے۔ میں چونکہ واقعے کی نوعیت سے آگا ہ تھا اِس لیے اُس کی تفتیش کی زد میں آنے سے بچتا رہا تھا اور آ ج اِس نابکارنے مجھے آلیا تھا۔
لیکن کوئی بات نہیں اب تو میں خود پاک فوج کا افسر مقرر ہونے کی خاطر جارہا تھا۔ ایک نقصان یہ ہوا تھا کہ اب ہمارا فوج کے خلاف شکایات و تنقید کا دفتر بند ہو گیاتھا،مگر ایک فائدہ بھی ہوا تھا کہ میجر صاحب خود ہی فوج کا ایک اصول ’’Senior has to pay‘‘ سنا کر راستے بھر ہمارے اکل و شرب کی قیمت ادا کرتے رہے تھے اور جاتے جاتے مجھے کہہ گئے تھے ’’See you in Gilgit‘‘۔ مجھے با لکل سمجھ نہیں آئی تھی کہ میں گلگت میں اور کیوں۔ مگر یہ فوج تھی جس میں ہر شے کی منصوبہ بندی پہلے سے ہی کر دی
جاتی ہے۔ حکمت عملی ایک ہی رہتی ہے البتہ لائحہ عمل بعض اوقات بدلنا پڑ جائے تو بدل دیاجا تا ہے۔
میجر اقبا ل یہ کہہ کر رخصت ہو گیاتھا اور ہم چاروں نے رات گذارنے کے لیے ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں دوکمرے لے لیے تھے۔ صبح اٹھ کر نہائے دھوئے تھے۔ ایک ریستوران سے ناشتہ کیا تھا اور ملٹری ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ وہاں پہلے سے ہی ہماری طرح کے اور ڈاکٹر حضرات بھی پہنچے ہوئے تھے۔ ہمارے ایکسرے لیے گئے تھے، جانچنے کے لئے خون اورپیشاب لیا گیا تھا۔ طبی معائنہ ہوا تھا۔ پھر ہمیں انٹرویو کے لیے جی ایچ کیو حاضری دینی پڑی تھی۔کچھ ڈاکٹروں کے بعد جب میری باری آئی تو انٹرویو کمیشن کے سربراہ جنرل سی کے حسن نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا تھا کہ کوئی ایسا مسئلہ جسے ہم حل کر سکتے ہوں تو بتاؤ۔ شاید یہ سوال سبھی سے کیا گیا ہو لیکن ایسا ہونا بعد ازقیاس ہے۔ میں نے بھی آقاؤں کی زبان میں جواب دیا تھا ” سر، کوئی بھی شخص مسئلوں کے بغیرنہیں ہوتا البتہ میرا ایک مسئلہ ہے جو حکومت سے متعلق ہے۔
حکومت بنام مرزا مجاہد یعنی مجھ پر پانچ مقدمے ہیں جو سیاسی نوعیت کے ہیں۔ مجھے ان دفعات کا انگریزی نام نہیں آتا اسلیے اگر اجازت دیں تو اردو میں بتا دیتا ہوں؟” میں کتنا لا علم تھا جبکہ وہ بہت با علم تھے مگر جنرل صاحب نے پھر بھی اجا زت دے د ی تھی اور میں نے دفعات کی گردان کر دی تھی ’’ اغوا با لجبر، مسلح بلوہ، لوٹ مار آتشزنی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچا نا، قانون تحفظ امن عامہ” ۔جنر ل صاحب نے کہا تھاکہ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ انٹرویو کے بعد ہمیں چند روز کے بعد اے ایم سی سنٹرایبٹ آباد میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ چند روز آزادی کے کاٹے پھر بوریابستر سمیٹ ایبٹ آباد کی راہ لی۔
ایبٹ آباد بہت دلکش شہرتھا مگر افسری کے بلے لگے کندھوں والے رنگر وٹوں کا ٹھکانہ آرمی میڈیکل کور کا میس تھا۔ ایک ابھری ہوئی زمین پر خوبصورت تھاجس کے عقب میں ایک قطار میں بنے ،پچھلے زمانوں کے اونچی چھتوں والے کمروں میں ہمیں تین تین چار چارکواکٹھے ٹھہرایا گیا تھا اور حکم ہوا تھاکہ وردیاں سلوا لی جائیں ۔ہر افسر رنگروٹ کو ایک ایک ’’ بیٹ مین ‘‘ بھی دے دیا گیا تھا۔ بیٹ مین افسروں کو مخصوص درزیوں کے پاس لے گئے تھے جہاں سب نے وردیاں سلنے کی خاطر دے دی تھیں۔ چالیس روز کی ٹریننگ تھی اور پھر مقام ہائے تعیناتی کا فیصلہ ہونے کے بعد اس طرف کوچ کر جانے کے احکامات تھے۔
ٹائم ٹیبل ایسا تھا کہ فرصت کا وقت صرف رات کو ہی میسر آنا ممکن تھا۔ صبح چھ بجے سیٹی کی آواز پر اٹھنا ہوتا تھا۔ پی ٹی کرنی ہوتی تھی۔ منہ ہاتھ دھونے، دانت صاف کرنے اور حوائج سے فارغ ہونے کے لیے آدھ گھنٹہ دیاجا تا تھا ۔ کمروں کے عقب میں سرد پانی کے ٹب دھرے ہوتے تھے، استعمال کے لیے یہی پانی میسر ہوتا تھا۔ پی ٹی سے فارغ ہو کر،سات بجے وردی ڈاٹ کر میس میں ناشتہ کرنا ہوتا تھا اور ساڑھے سات بجے ہمیں پریڈ گراؤنڈ میں لے جانے کے لیے ٹرک آجایاکرتاتھا۔وہاں دو بجے تک پریڈ کرنی ہوتی تھی۔ واپسی پہ میس سے دوپہر کاکھانا کھا کر چار بجے گیم کٹ میں ملبوس کھیل کے گراؤنڈ میں پہنچناہوتا تھا جہاں سے ساڑھے چھ بجے لوٹتے تھے۔ تھوڑی سی استراحت کر کے شام کی چائے پینے جانا اور ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے نو رات تک میس میں ہی رات کا کھانا تناول کرنا بھی ڈیوٹی کا حصہ ہوتا تھا۔
میرے جیسے آرام کیش لوگوں کے لیے یہ سب کچھ سائیبیریا کی قید سے کم نہیں تھی۔ دوچار روز جب تک وردی سل کر نہیں آگئی تھی،میں شاید ایک دن ہی پی ٹی کے لیے گیاہوں گا۔شدید سردیاں تھیں دانت سے دانت بجتے تھے چنانچہ ٹھان لی کہ کچھ بھی ہو اِس عمل سے بغاوت ہی کرنا ہو گی۔ نائب صوبیدار سیٹیاں بجاتارہتا ۔”سر پی ٹی کے لیے باہر آئیں” قسم کی چیخ و پکار کرتا رہتا لیکن میں اپنی رضائی میں لپٹا، ٹس سے مس ہوکر نہیں دیتا تھا۔اٹھ کر تیار تبھی ہوتا تھا جب پریڈ گراؤنڈ میں لے جانے کے لیے ٹرک کمروں سے تھوڑی دورآ کرکے رکا کرتا تھا۔ہم سب فوج میں زبردستی لیے گئے لوگ یعنیConscriptees تھے۔ہمیں تووہ کسی صورت بھی فوج سے فارغ نہیں کر سکتے تھے۔ ویسے بھی اے ایم سی میس کا انچارج میرے جیسے ہی ایک شخص کرنل بد رمنیر مرزا تھے۔ نستعلیق قسم کے ڈاکٹر کرنل تھے۔ ڈانٹ ڈپٹ اور سختی ان کو چھو کر نہیں گذری تھی۔ بھلکڑ اور باتونی تھے۔ ان کے کچھ واقعات خاصے دلچسپ ہیں۔
ایک بار کسی بریگیڈیئر کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے انہیں ہوائی جہا ز کا تذکرہ کرنا تھا۔ انہوں نے انگلیوں کا جہاز بنایا اور جہاز کے صوتی تاثرات ادا کرتے ہوئے بریگیڈیئرکے چہرے کی طرف دیکھنے کے دوران انگلیوں کے جہا ز کو یک لخت جو جھکائی دی تو وہ بریگیڈیئر کے سامنے رکھی ہوئی ان کی پیالی میں غوطہ کھا گیا۔ شکر ہے چائے بہت گرم نہیں تھی ورنہ کرنل مرزا کا جہاز جھلس جاتا۔بریگیڈیئر صاحب ہکے بکے کبھی ان کے ٹپکتے ہوئے جہاز کو دیکھتے تھے اور کبھی اپنی پیالی میں ارتعاش کو، مگر کرنل مرزا صاحب نے بڑی معصومیت سے کہہ دیا ” آئی ایم سوری سر۔ آئی ایم ویری ویری ساری سر”۔۔۔۔ پھر ایک بار میس کے سامنے ا ترائی پر کھڑی اپنی سرخ پرانی کار میں اپنی بیگم کو بٹھا کر اوپر میس میں آئے اور نوجون افسروں سے گپ کرتے ہوئے بالآخر کرسی پر دراز ہو گئے تھے کہیں آدھ گھنٹے بعد ان کی بیگم نے غصے سے بھرا ایک لمباہارن دیاتھا۔ تب وہ ہڑ بڑا کر اٹھے تھے ورنہ وہ اپنی بیگم کو بھولے ہی رہتے۔
پریڈ گراؤنڈ میں ہمیں سلیوٹ کرنے کے طریقے اور مارچ پاسٹ سکھایا جاتا تھا۔ دسیوں منٹ دایاں بازو کندھے سے سیدھا کر کے سلیو ٹ کرکے مٹھی بند کرنے کے ساتھ ہی بازوکو تیزی سے دائیں پہلو کیساتھ سیدھاگرانے کی مشق کرنی ہوتی تھی۔ چل کر مارچ پاسٹ ،ہلکا ہلکا دوڑتے ہوئے مارچ پاسٹ۔ یہ سارا بیکار عمل جس کی بعدمیں کوئی ضرورت نہیں رہتی بادل نخواستہ کرنا پڑتا تھا۔ ہمارا ٹرینر(Trainer) قاسم نامی صوبیدارا تھا۔کرخت چہرے والا، طویل القامت اور گھٹے ہوئے جسم کا مالک قاسم ایک روبوٹ تھا جو اپنا کام مشین کی طرح سرانجام دیتا تھا۔ قاسم اس سے پہلے کاکول میں انسٹرکٹر تھا۔ جب ہم تھک جایاکرتے تھے توقاسم کے “داہنے سے جلدی چل” یعنی دایاں قدم بڑھا کر جلدی جلدی چلنا شروع کرو، کہنے کے تھوڑی دیر بعدہی میں ” جلدی رک” کا کاشن دے کر فوراً ” آسان باش” کہہ دیا کرتاتھا اور سب لوگ تتّربترہوجایاکرتے تھے۔
سگریٹ نوش سگریٹ پیتے تھے اور باقی خوش گپیاں کرتے تھے۔ قاسم جھنجھلا کر اونچی آواز میں کہا کرتا تھا “یہ کیاکرتے ہیں سر!” اور میں انگلیوں میں سگریٹ پکڑے کش لگاتے ہوئے مسکرایا کرتا تھا۔ درحقیقت یہ طریقہ انتہائی احمقانہ تھا کہ کپتانی کے عہدے کے حامل افسروں کو ایک جونیئر کمیشنڈ آفیسر احکامات دیتا ہوا۔ اگر ہم اسکے احکام نہ بھی مانتے تو قانون کی رو سے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا تھا اور اگر ہم اپنے طور پر اُس کے حکم کے منافی حکم دے کر اس پر عمل درآمد کرا لیتے تھے تو وہ قانونی طور پرہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اصل میں یہ ٹریننگ تھی ہی رسمی ورنہ اِس قسم کی غلطی کا ازالہ کیا جا سکتا تھا۔
چند روز بعد وردیاں سل کر آ گئی تھیں۔میرے بیٹ مین گلاب شاہ نے اُسے خوب استری کر دیا تھا اوردونوں کندھوں پر تین تین بلے لگا دیے تھے۔ بیرٹ(Barret)کیپ کے سامنے اے ایم سی کا نشان اڑس دیا تھا۔ فوجی بوٹ خوب چمکادیے تھے۔ مجھے وردی بھاتی بھی تھی اورمجھ پر جچتی بھی خوب تھی۔
میں نے فوج چھ جنوری 1976ء کو جوائن کی تھی۔غالباً ضیا الحق کو فوج کا سربراہ بنایا جا چکا تھا،شاید اِسی لیے جب میں نے پیریڈ گراؤنڈ کے قریب اے ایم سی کے سپاہیوں کی بیرکوں کے باہر دیوار پر سیمنٹ سے بنے بورڈوں پر چاک سے لکھی گئی آیتوں کا چاک سے ہی لکھا ہوا ترجمہ پڑھا تھا تو مجھے “یا ایہا الکا فرون”کا ترجمہ” اے کافرو (ہندوؤ)” پڑھ کر اچنبھا بھی ہوا تھا اور دکھ بھی۔ قرآن کے نزول کے وقت توکم ہی عربوں نے لفظ “ہندو” یا “ہندو مت”سنے ہونگے۔ یہ کافروں کے ساتھہ ہندوؤں کی پخ لگا نا فوج کا ” لائحہ عمل ” تھایا ضیا الحق کی کارستانی ،دونوں ہی صورتوں میں غلط تھی۔ یہ مخصوص ترجمہ پڑھنے کااتفاق اس طرح ہوا تھاکہ ایک بار ٹرک کے آنے میں دیر تھی اور میں پیدل ہی چل پڑ اتھا۔ بیچارے رنگروٹوں کے علاقے سے بھی گذرناپڑاتھا، جن بیچاروں کو ٹریننگ کے دوران نہ صرف بری طرح جھنجھوڑا جاتاہے اور دھکّے دیے جا تے ہیں بلکہ گالیاں بھی دی جاتی ہیں۔ لفظ “بے غیرت” کابے مہابا اوربے جااستعمال ہوتا ہے۔
فوج کے سپاہیوں کی اکثریت پنجاب اور سرحد سے ہوتی ہے اور ان دونوں علاقوں میں اِس سے بری گالی نہیں ۔ اِس طرح کے سلوک سے ان کی انا کچل کے رکھ دی جاتی ہے۔جو کچھ باقی بچ رہتی ہے وہ انہیں بیٹ مین بنا کر مار دی جاتی تھی۔شکرہے اب فوج سے یہ نو آبادکاروں والی روایت ختم کردی گئی ہے۔ پیدل چلنے کے دوران چڑھائیوں اور اترائیوں سے گذرنا پڑاتھا کیونکہ ایبٹ آباد سارا ہی سطح مرتفع پر ہے۔ فوجی بوٹ پہن کر مارچ تو ہو جا تا تھا لیکن ٹخنوں سے اوپر تک چڑھے ہوئے تسموں سے بندھے بوٹوں کی پنڈلی پر گرفت نے چلنا دوبھر کر دیاتھا اور اس پر مستزادیہ کہ جہاں جہاں بھی کوارٹر گارڈ آتی تھی تو سلیوٹ کیے جانے کا نعرہ لگتا تھا اور مجھے بھی اکڑ کر سلیوٹ کا جواب سلیوٹ سے ہی دینا پڑتا تھا۔ جونہی وہ نظروں سے اوجھل ہوتے تھے میری چال پھر نحیف و نزار ہوجا تی تھی۔
سچی بات تویہ ہے کہ رونے کو جی چاہ رہاتھا۔ دل چاہتا تھا جوتے اتا ر کے ہاتھوں میں پکڑ لوں اور ننگے پاؤں چلنا شروع کر دوں لیکن ایسا کرنانا ممکن تھا۔ افسر کی وردی زیب تن کی ہوئی تھی، اس کی تو لاج رکھنی ہی پڑی تھی۔ میس تک کی آخری چڑھائی میں نے عمومی وقت سے چار گنا زیادہ وقت میں طے کی تھی ۔میس میں پہنچ کر کرسی پر نڈھا ل بیٹھا رہاتھا اورپانی پیا تھا توکہیں بیس منٹ بعد اوسان بحال ہوئے تھے۔ تب کہیں جا کر دوپہر کا کھانا کھانے کے قابل ہوا تھا۔جب پنڈلی کی اینٹھن رفع ہو گئی تو میں گذرے وقت کی اذیت کو بالکل ہی فراموش کر بیٹھا تھا۔ میس کے بغلی دروازے سے نکل کر سڑک پر پہنچ کر میں نے اپنی کیپ اپنی سٹک کے سرے پر اڑس کر گھمانا شروع کر دی تھی۔ سڑک پر پہنچتے ہی ایک جیپ میں بریگیڈیر کی سطح کا افسر جاتا دکھائی دیا تھا۔ میں نے نہ تو سٹک پہ چڑھی ٹوپی گھمانا بند کیاتھااور نہ ہی پاؤں جوڑے تھے بلکہ بایاں ہاتھ اٹھا کر ماتھے تک لے جا کر رسمی سلام کردیا تھا کیونکہ میرے دائیں ہاتھ میں سٹک پر ٹکی ٹوپی کا کرتب چل رہا تھا۔ اپنے کمرے میں جاتے ہوئے کیپٹن فرقان نے گردن گھماکر مجھے دیکھ لیا تھا اور مسکرارہا تھا۔
کیپٹن فرقان شیخ فرنٹیر فورس سے تھا اور اے ایم سی سنٹر میں کسی کام پر Depute ہوکر آیا تھا۔ اگلے روز اُس سے میس میں ملاقات ہوئی تو وہ کل کا واقعہ یاد دلا کر خوب ہنساتھا۔ اس کی بے باک ہنسی اور عمومی غیر فوجی انداز مجھے اچھا لگا تھا۔ ہماری دوستی ہو گئی تھی جو آج بھی جاری ہے۔ جلد ہی ہم بے تکلف ہو گئے تھے۔ ابھی ضیا الحق نے کلب میں شراب پر پا بندی نہیں لگا ئی تھی البتہ میس ڈرائی کر دیے تھے۔ میں اور فرقان دو ایک بار ڈھلوان کی سڑک اتر کر آرمی میس کلب میں گئے تھے اور آتش دان میں بھڑکتی ہوئی لکڑیوں کے سامنے کرسیوں پر بیٹھ کر دخت رز سے جی بہلا یا تھا۔ بہت مزا آیا تھا،کیف آگیں اور آرام دہ، پر سکون ماحو ل تھا۔ اب تک تو ہم طالبعلموں کی طرح ھلڑ بازی کرنے کے عادی تھے۔ نہ تو گلاس مناسب ہوتے تھے نہ ماحول۔ پی اورمزید پی۔شور مچا لیا۔ رو لیا۔ لڑ پڑے۔ کڑاہی کھا لی۔ الٹیاں کر دیں۔ ڈھے گئے ،لیکن یہاں پینا تمام ترفوجی اصول وضوابط کے ساتھ محض شغل کرناتھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply