متحدہ ہندوستان کی آخری امید ۔۔۔ بوس (دوسرا حصہ)

جنگ آزادی کے بے لوث مجاہد بھگت سنگھ شہید کو 23 مارچ 1931 کو لاہور میں پھانسی دی گئی تو اس کے خلاف ملک کے طول و عرض میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی احتجاج کے بعد جواہر لال نہرو کو جیل بھیج دیا گیا اور سبھاش چندر بوس کو جبری طور پر ہندوستان سے باہر بھجوایا گیا۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بوس شدید ڈپریشن کا شکار تھے۔ شاید یہ ڈپریشن اس وجہ سے تھی کہ بوس آزادی کے لیے انتہائی پرجوش تھے اور کانگریس کو سوشلسٹ اصولوں کے تحت منظم کرنے کے خواہش مند تھےلیکن گاندھی جی اور دائیں بازو کے سیاستدان ان سے اتفاق نہیں رکھتے تھے اور ان کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی تھیں۔

یہاں یہ تذکرہ برمحل معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد 1920 اور 1925 کے درمیان رکھی گئی تھی۔ اس پارٹی کے قیام کی درست تاریخ ایک الگ موضوع ہے جو زیر نظر تحریر سے غیر متعلق ہے۔ ابتدا ئی برسوں کے دوران یہ پارٹی نہ صرف غیر منظم تھی بلکہ اسے انگریز سرکار کے خلاف بغاوت کی سازش کے تین مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ان تین کیسز میں ایک کانپور سازش کیس بھی تھا جس میں الزام عاید کیا گیا تھا کہ بالشویک ہندوستان سے برطانوی امپیریلزم کا خاتمہ کرنے کی سازش کر رہے تھے۔ اس مقدمے کو خاصی شہرت ملی اور پریس میں اس کے تذکروں نے عوام کو کمیونسٹوں کے وجود سے صحیح معنوں میں آگاہ کیا۔

انگریز سرکار کی جانب سے کمیونسٹوں کے خلاف کارروائیوں کے بعد سی پی آئی ، مزدور کسان پارٹی کےپردے میں ہی کام کر رہی تھی۔ 1926 میں مزدور کسان پارٹی نے ملک بھر میں اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ مزدور کسان پارٹی کی صوبائی تنظیموں میں شامل ہوجائیں اور تمام کمیونسٹ سرگرمیاں مزدور کسان پارٹی کے بینر تلے ہی انجام دی جائیں۔ 1928 کی عالمی کمیونسٹ کانگریس میں ہندوستانی کمیونسٹوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ ملک بھر میں اصلاحات کی حامی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کریں اور اس سلسلے میں “سوراجیوں” اور “گاندھیوں” کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے جو اصلاحات، سوراج، اہنسا اور پرامن جدجہد کے نام پر سامراج کو دوام دینے کا کھیل، کھیل رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے متعلق جہاں کانگریس اور کمیونسٹوں کے درمیان اختلافات تھے، وہیں کانگریس کے اندر بھی دو دھڑے تھے جن کا تذکرہ پہلے بھی ہو چکا ہے یعنی دایاں بازو جس میں گاندھی اورپٹیل شامل تھے جبکہ بایاں بازو جس کے سربراہ بوس اور نہرو تھے۔ 1934 کے دوران ہندوستان میں بائیں بازو کے بعض رہنماؤں نے “کانگریس سوشلسٹ پارٹی” قائم کی تاہم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اسے سوشل فاسشٹ قرار دے کر اس سے فاصلہ رکھا اور دوسری جانب نہرو اور بوس نے کانگریس ہی میں رہتے ہوئے سوشلزم کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ کمیونسٹ خیالات رکھنے والے بے شمار کانگریسی کارکنوں نے کانگریس سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔

جیسا کہ اوپر کی سطور میں ذکر ہوچکا ہے کہ سبھاش چندربوس کو انگریزوں نے جبری طور پر ملک سے باہر رہنے کا حکم دے رکھا تھا، اس لیے 1933 سے 1936 کا عرصہ انہوں نے یورپ ہی میں گزارا۔ اس دوران انہوں نے برطانوی عوام کو ہندوستانیوں کے مسائل سے آگاہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن برطانوی حکومت کی جانب سےاجازت نہ ملی۔ اسی ملک بدری کے دوران وہ جرمنی اور اٹلی گئے، جرمنی میں ایک خاتون ایملی شینکل سے شادی کی لیکن ہٹلر کے رائج کردہ قوانین کے باعث یہ شادی رجسٹر نہ ہوسکی۔ اٹلی میں انہوں فاشسٹ رہنما مسولینی سے ملاقات بھی کی۔ قیام یورپ کے دوران بوس اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے گاندھی جی کا طریقہ کار درست نہیں بلکہ اس مقصد کے حصول کے لیے براہ راست عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ان “عملی اقدامات” کے لیے انہوں اٹلی کو متحد کرنے والے انیسویں صدی کے جرنیل، سیاستدان اور قوم پرست رہنما گیری بالڈی کے “افکار” سے بھی مدد لی۔

1936 میں یورپ سے واپسی پر بوس دوبارہ ملکی سیاست میں سرگرم ہو گئے۔ انہوں نے 12 اکتوبر 1936 کو لکھنؤ میں کانگریس یوتھ کا جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا اور ہندوستان بھر کے ہندؤں، مسلمانوں اور ہر مذہب کے لوگوں کو آزادی کی حقیقی جدوجہد میں شرکت کی دعوت دی۔ وہ جانتے تھے کہ ڈیڑھ ہزار زبانوں، کئی مذاہب اور لاتعداد ثقافتوں والے ملک کو صرف سوشلزم کے پرچم تلے جمع کیا جا سکتا ہے۔ جدوجہد آزادی کے لیے وہ فاشسٹ انداز اختیار کرنے کے خواہشمند ضرور تھے تاہم ملک میں کسی قسم کی نسلی برتری، ذات پات کی تقسیم، ہندو بالادستی اور ان جیسے دیگر نظریات کے سخت خلاف اور مکمل مساوات کے حامی تھے۔ یہ سوچ برہمن راج کے حامیوں اور ہندو سرمایہ داروں کے لیے کسی طور قابل برداشت نہیں تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بوس کی اس پکار پر مقررہ تاریخ کو لکھنؤ میں کم و بیش ڈیڑھ لاکھ نوجوان جمع ہوئے۔ جلسے کے حاضرین کی مجموعی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ سبھاش چندر نے کانگریس کے نوجوان رضا کاروں کے لیے نیم فوجی طرز کی ایک یونیفارم تیار کرائی اور جب ان رضاکاروں نے جلسے کے دوران ایک نظم و ضبط کے تحت اپنے جوش اور جذبے کا اظہار کیا تو بوس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آزادی بھیک مانگنے سے نہیں ملتی، اسے چھیننا پڑتا ہے۔ انہوں گاندھی جی کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چرخے کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اس پر گاندھی جی کو اپنا مہاتمائی سنگھاسن ڈولتا نظر آنے لگا اور انہوں نے ناراضی کا برملا اظہار کیا۔ اس جلسے کے بعد یو پی میں انگریز سرکار کے چیف سیکرٹری نے بوس کی گرفتاری کا حکم دے دیا لیکن لاکھوں کارکنوں کی موجودگی اور مزاحمت کے باعث فوری طور پر یہ ممکن نہ ہوا۔ اس جلسے نے بوس کی عوامی حمایت کا ناقابل تردید ثبوت مہیا کر دیا تھا اور یہ نظر آنے لگا تھا کہ کانگریس میں گاندھی جی اور دائیں بازو کے لیے ایک حقیقی خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

ژاں سارتر
کسی بھی شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply