آئین کی بالا دستی اور عوامی نمائندے۔۔۔عاصم اللہ بخش

پہلے ایک قصہ سن لیجیے، پھر آگے بڑھتے ہیں۔

میں بہ سلسلہ روزگار ایک چھوٹے سے کاروبار سے وابستہ ہوں۔ یہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی برآمد کا ادارہ ہے ۔ ایک مرتبہ میں نے اپنے ایک امریکی کسٹمر سے پوچھے بغیر اس کے مال کی پیکنگ میں کچھ تبدیلی کر دی۔ اس تبدیلی سے اسے فائدہ تھا کیونکہ ایک کنٹینر میں زیادہ مال آ جاتا اور اسے بحری جہاز کے کرائے کی مد میں کافی بچت ہو جاتی۔ تاہم مجھے بہت حیرانی ہوئی جب گاہک نے اس کا بہت برا منایا اور مجھے کہا ، میں آپ کی دل سے قدر کرتا ہوں اورمجھے آپ کے خلوص میں بھی کچھ شک نہیں، ورنہ میں آپ کے ساتھ کام ہی نہ کرتا، لیکن برائے مہربانی آپ میرے فیصلے مجھے ہی کرنے دیں۔ آپ میرے لیے میرے فیصلے نہ کریں۔ یہ میرا حق ہے اور اسے میرے پاس ہی رہنے دیں۔ میرے لہجے سے اس نے اندازہ لگایا کہ مجھے اس کی یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی ۔۔۔۔ اس نے اپنے لہجہ میں نرمی پیدا کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ آج آپ کو میری بات بری لگ رہی ہے لیکن آپ یقین رکھیں اس پر عمل درآمد ہم دونوں کے تعلق کو مزید مضبوط کرے گا اور ہم ایک دوسرے پر زیادہ اعتماد کر سکیں گے ۔ اس نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا، آج آپ نے ایک فیصلہ کیا جو آپ کی دانست میں درست تھا۔۔۔۔ شاید ہو بھی ۔۔۔ لیکن اگر آج میں آپ کو یہیں روک نہیں دوں گا تو کل آپ مزید ایسے فیصلے کرنے لگیں گے جو شاید آپ کی نظر میں تو درست ہوں لیکن مجھے ان سے نقصان پہنچنے کا امکان ہو ۔ چنانچہ بہتر ہے آپ اپنا کام کریں اور مجھے کیا اور کیسے کرنا ہے وہ مجھ پر چھوڑ دیں۔

قریب چالیس سال قبل ہمیں معلوم ہؤا کہ ایک قاتل ، ملک کو دولخت کرنے کا ذمہ دار شخص اپنے انجام کو پہنچا، اسے پھانسی دے دی گئی۔ سوچا اچھا ہو گیا ، خس کم جہاں پاک۔ اب آ کر معلوم ہؤا کہ وہ شخص تو “شہید ” ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پھانسی لگوانے میں پیش پیش بھی اسے شہید کہہ رہے ہیں۔ وہ تو شہید بن گیا لیکن اس شہادت کا خراج یہ قوم آج تک ادا کر رہی ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ بے نظیر بھٹو سے ہوتے ہوئے یہ سلسلہ آصف علی زرداری اور اب بلاول “بھٹو” زرداری تک پہنچ چکا ہے۔

آج کی بات یہ ہے کہ ہم ایک کرپٹ ترین شخص کو سزا سنا کر فارغ ہوئے ہیں۔ اس بار یہ اچھا ہؤا کہ بیٹی اور داماد کو بھی ساتھ ہی نااہل کر دیا گیا ، لیکن اب اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس بار قوم کو براہ راست ایک اور بلاول کا سامنا نہیں ہوگا ؟

بھٹو اور نواز شریف کی کہانی نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ اب اس کی دوسری قسط نواز شریف اور عمران کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ بھٹو فسطائی تھا تو نواز شریف “شرافت کی سیاست” کا علمبردار بن کر سامنے آیا۔ بے نظیر سیکیورٹی رسک ہوئی تو نواز شریف محب وطن “مید  ان پاکستان” قیادت۔ اب نواز شریف کرپٹ ہے تو عمران خان مسٹر کلین ہیں، نواز مودی کا یار ہے اور خانصاحب پاکستان کا محب وطن بیٹا۔ غالباً اس داستان کی اگلی کڑی یہ ہو گی کہ عمران کے سامنے ایک پارسا اور حلیم کردار ہو گا اور عمران خان کمزور کردار اور حکمت سے کوسوں دور شخص ۔ واللہ اعلم۔

قصہ کوتاہ، قیادت کی تبدیلی کا یہ راستہ ملک کو دائروں میں گھماتا رہے گا۔ یہ عوام کا حق ہے انہی کے پاس رہنا چاہیے۔ اس میں کسی قسم کی اضافی”مدد” خواہ کتنے ہی اخلاص پر مبنی کیوں نہ ہو، نہ عوام کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ملک کے، کیونکہ اس صورت میں عوام جذباتی نعروں اور ناممکن خوابوں کے اسیر بنے رہیں گے اور سسٹم ہر وقت عدم استحکام کے امکانات سے لرزتا رہے گا۔

یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ حکمرانوں کا احتساب صرف عوام پر ہی چھوڑ دیا جائے ؟ یہ تو حکمرانوں کے لیے بہت آسان راستہ ہے ۔

نہیں ایسا نہیں ہے ۔ اس کے لیے ملک کے اداروں کو فعال ہونا چاہیے اور جہاں غلط بات کی نشاندہی ہو فوراً بروئے کار آنا چاہیے۔ لیکن اس سب کو ایک “سلسلہ جاریہ” کے تحت چلنا چاہیے ۔۔۔ ایسا نہیں دکھنا چاہیے کہ اچانک یا خصوصی طور پر کچھ ہو رہا ہے۔ اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ خود ان اداروں میں احتساب اور تطہیر کی شاندار روایات قائم کی جائیں۔ تقدس کردار سے وابستہ ہو ، عہدے سے نہیں۔ نیز ایسا نہ ہو کہ احتساب کا ادارہ خواہ سول حکومت میں بنے یا فوجی حکومت میں اس کا اصل کام صرف سیاسی اہداف کا حصول بن کر رہ جائے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور جنرل مشرف کے ادوار میں قائم ہونے والے مبینہ طور پر احتساب کے اداروں نے اس کے علاوہ کچھ کیا ہو، یہ کم از کم میرے علم میں تو نہیں۔ اداروں کا کام بروقت کارروائی ہوتا ہے ، “مناسب ” وقت کے لیے فائلیں بنانا نہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ قومی نقصان روکنے سے زیادہ ان معلومات کا سیاسی استعمال مطلوب ہے۔

کل مریم نواز صاحبہ نے اپنے والد کی پریس ٹاک کے دوران فرمایا کہ پاکستان میں آئین و قانون کی بات کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ٹھیک ہے سب اداروں کی عزت ہونی چاہیے لیکن عوامی نمائندوں کی بھی عزت ہونی  چاہیے۔

بالکل درست کہا انہوں نے۔ لیکن انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ زیادہ عزت کا مطلب زیادہ ذمہ داری ہے ۔ اس کا مطلب مطلق العنانی نہیں۔ اسی طرح آئین کا واحد استعمال حق اقتدار جتلانا نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمارے ہاں سیاست دان آئین کے ساتھ وہی رویہ روا کرتے ہیں جو بعض طبقات “اجتہاد” کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ اجتہاد کا مقصد ہے بدلتے ہوئی تمدن میں کس طرح اسلامی احکام کی زیادہ سے زیادہ پاسداری ممکن بنائی جا سکے۔ جبکہ بعض دوست اسے اسلامی احکامات سے جان چھڑانے کا ذریعہ خیال کرتے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے سیاستدان آئین کو ایک گائیڈ لائن سمجھنے کے بجائے محض اقتدار کے حصول کا راستہ سمجھتے ہیں جس کے بعد اس کا مزید کچھ استعمال نہیں رہتا۔ سیاستدان اس دستاویز کو اپنے عمل میں جتنا زیادہ کردار دیں گے آئین کے تقدس کے حوالہ سے ان کی بات میں اتنا ہی وزن پیدا ہو گا۔ دستور  پرخلوص عمل سے ہی اس کی روح اجاگر ہو گی ۔۔۔ ورنہ دوسری صورت تو یہ ہے کہ حالیہ سینٹ الیکشن میں آئین سے روگردانی کی کوئی ایک صورت دکھا دیں آپ۔

آخری بات افواج پاکستان کے حوالہ سے۔

فوج پاکستان اور پاکستانی قوم کا فخر ہے۔ یہ ہمارا سب سے مضبوط دفاعی حصار ہے۔ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اس کی اہمیت اور بھی بڑھا دیتا ہے۔ ساتھ ہی اس کی یہ ذمہ داری بھی کہ وہ ہمہ وقت اپنے پیشہ ورانہ معاملات کی بہتری کو توجہ دے۔ اس ملک کے دشمن ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ عوام اور فوج میں فاصلے پیدا کر سکیں۔ یہ ان کا وہ خواب ہے جس کی تعبیر سے وہ اب تک محروم ہیں ، عوام نے ایسے حلقوں کی کبھی پذیرائی نہیں کی۔ تاہم اب عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں پاکستان کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ فوج کو نشانہ بنانے کی کوششیں بھی ازسرنو سامنے آ رہی ہیں ۔

حال ہی میں ایک ایسی ہی “موومنٹ” سامنے آئی جس کے غبارے میں قوم پرستی کے نام پر ایک مرتبہ پھر ہوا بھرنے کی تیاری ہے۔ ایسی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے واسطے فوج کو بھی یہ غور کرنا ہو گا کہ اس کے لیے پاکستان کی فوج ہونا زیادہ باعث افتخار ہے یا “اسٹیبلشمنٹ” کہلانا۔ یہ فیصلہ پاکستان کے داخلی استحکام اور مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر درپیش بیرونی چیلنجز سے نبرد آزما اور کامیاب ہونے کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج کی صورت تو یہ ہے کہ سیاست بھی تیس چالیس سال پیچھے جاتی دکھائی دے رہی ہے اور عدلیہ بھی۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔۔۔ بالغ نظری اور باہمی اعتماد کے ساتھ ۔ قوموں کی زندگی میں اس کا ذریعہ صرف اس عمرانی معاہدے کا مرہون منت ہے جسے ہم “آئین” کہتے ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply