مجھے لیڈر چاہیے۔۔۔۔عارف خٹک

میں ایک غریب علاقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ جہاں کی مائیں اپنے بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر میلوں دُور پانی کی تلاش میں نکل جاتی ہیں۔ سر پر پانی سے بھرے دو دو مٹکے رکھ کر گھنٹوں بعد واپس جب اپنے بچے کے پاس آتی ہیں۔تو بچہ رو رو کر ماں کی راہ تکتے تکتےنڈھال ہوکر سو چکا ہوتا ہے۔ میرا تعلق اس علاقے سے ہے۔جہاں کے لوگ تعلیم اور ڈگریاں صرف اس اُمید پر حاصل کرتے ہیں۔کہ دو وقت کی روٹی کاکام چل جائے۔میں اُس جگہ سے ہوں۔جہاں کی تعلیمی ڈگریاں روٹی کی مُحتاج ہوتی ہیں۔

میرا تعلق وہاں سے ہے۔جہاں کھیتوں میں فصل کی جگہ دُھول اُڑتی ہے۔ جہاں کسان سال کے بارہ مہینے بارش کی دعائیں مانگتے تھکتا نہیں۔اور دس ہزار کی فصل بو کر جب پندرہ ہزار جیب میں ڈال لیتا ہے۔تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے پانچ ہزار اپنے سے ذرا زیادہ غریبوں میں بانٹ دیتا ہے۔

میرا تعلق اس علاقے سے ہے۔جہاں گیس اور پٹرول کے وسیع ذخائر تو موجود ہیں۔مگر میرا پڑھا لکھا بچہ آج بھی ایف سی میں بھرتی کےلئے ماں کے کنگن اور بہن کا جہیز بیچنے کا سوچتا ہے۔

میرا تعلق اس علاقے سے ہے۔جہاں ووٹ خریدا جاتا ہے،اور ضمیر کے سودے ہوتے ہیں۔ جہاں میرے غریب خاندان کو خواب دکھائے جاتے ہیں۔کہ انشاءاللہ اگلے سال آپ کو پینے کا پانی گھر تک پہنچا دیں گے۔اور میں مسحُور ہوکر ایک دفعہ پھر سے اپنا ضمیر اور اپنا شعُور ان کے ہاں گروی رکھ آتا ہوں۔

میرا تعلق اس علاقے سے ہے۔جہاں سیاست دان تو تھوک کے حساب سے مل جاتے ہیں۔مگر کوئی لیڈر آج تک نہیں مل سکا۔ وہی پرانے نعرے، وہی چہرے۔
جو کل تلک پی ٹی آئی میں تھا۔ آج اے این پی کا اُمیدوار ہے۔ کل جو بندہ اے این پی کی سُرخ ٹوپی سر پر سجائے نعرے لگاتا تھا۔آج وہ پی ٹی آئی کا اُمیدوار ہر کر تبدیلی کی بات کرتا ہے۔ اگر آپ نے کہیں ڈھٹائی اور لالچ کی انتہا دیکھنی ہو۔تو میرے کرک تشریف لے آئیں۔اس ماحول کو دیکھ کر گھن نہ آئی۔تو میرا نام بدل دینا۔

اسی ماحول میں میری آخری امید بھی دم توڑتی جارہی تھی۔ کہ کب تک میری آنے  والی نسلیں یوں ہی میری طرح لیڈر شپ کےلئے بھٹکتی رہیں گی۔کب تک یونہی میری اُمیدوں کا خون ہوتا رہےگا۔ مُجھے نئی لیڈر شپ چاہیے  ۔خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ مگر سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اس بندے کو ترجیح دی ہے ،جو کروڑوں کی پراپرٹی کا مالک ہو۔ جس کی جائیدادیں اندرون ملک اور بیرون ملک موجُود ہوں۔ جن کے پاس پیسہ ہو،امارت ہو۔ بھلے اُس کا تعلق کرک سے ہو یا نہ ہو۔ اس پر کون اپنا سر کھپائے۔میری بدقسمتی کہ وہی بندہ میرے حُجرے میں آکر مُجھ سے میرے خاندان کے ووٹ کا سودا تک کرلیتا ہے۔اور میں کر بھی دیتا ہوں ۔کیونکہ اوسط فی بندہ تین ہزار ماہانہ آمدن والا اور کر بھی کیا سکتا ہے۔

اس سب کے بیچ میں ذاتی طور پر شاہد خٹک سے مُتاثر ہوں۔ اس کی وجوہات یہ ہیں کہ۔۔۔
1۔ شاہد خٹک میری طرح ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔
2۔ اس کی سیاسی آبیاری دورانِ طالب علمی ہوئی ہے۔
3۔ جس طرح میری ماں اور بہنیں سر پر پانی کے مٹکے رکھ کر پانی کےلئے خوار ہوتی پھرتی ہیں۔بالکل اسی طرح شاہد خٹک کے گھر کی ماں اور بہنیں بھی پانی کےلئے ترس رہی ہیں۔
4۔ ہمارے مسائل مُشترکہ ہیں۔ کیونکہ وہ مُجھ سے ہے اور میں اُس سے ہوں۔
5۔ شاہد خٹک کے والد نے اپنے بیٹے کو اس اُمید پر پڑھایا کہ کل کو کہیں نوکری ووکری کرکے دو پیسے کما کر اس کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا۔مگر یہ سرپھرا کرک کےلئے اپنے مُستقبل کو داؤ پر لگا کر واپس آگیا۔
6۔ شاہد خٹک کے پاس ایک روپیہ بھی نہیں ہے  کہ وہ کسی کا ووٹ خرید سکے۔خالی جیب لئے40 سینٹی گریڈ گرمی میں گھر گھر جاکر شعُور بانٹ رہا ہے کہ ایک بار مُجھ پر بھروسہ کرکے تو دیکھ لیں۔

شاہد خٹک NA-34 سے پی ٹی آئی کا اُمیدوار ہے۔ مُجھے میرے رب کی قسم،اگر یہ لڑکا اے این پی سے بھی ہوتا۔تو واللہ میں اسے سپورٹ کرتا۔ میں شاہد خٹک کو سپورٹ اس لئے کررہا ہوں کہ پڑھا لکھا بچہ ہے۔ غریب ہے،اور سب بڑی بات باشعُور ہے ۔ کرک جیسے پسماندہ ضلع  سے کسی نے اُٹھ کر اس روایتی سیاست کو تو للکارنے کا سوچا کم ازکم۔ شاہد خٹک آپ سے مستقبل کی باتیں نہیں کرتا بلکہ حال کے مسائل کا حل پیش کردیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ میری دم توڑتی اُمید کی بُجھتی شمع اب دوبارہ ٹمٹمانے لگی ہے۔اور اس بار میں اس شمع کو ہر گز بُجھنے نہیں دوں گا۔ کیونکہ اس بار مُجھے فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیشہ کی طرح یا تو اُمیدوں اور وعدوں کی جُھوٹی آس پر ایک بار پھر سے بیوقوف بنایا جاؤں۔اور یا پھر دل سے یہ آخری پتہ کھیل لوں۔کیونکہ آپشن تو میرے پاس بھی کوئی نہیں رہا۔
سائمن سینک کہتے ہیں کہ لیڈرشپ کا مطلب ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن کے بیچ کا وقفہ نہیں ہوتا۔بلکہ اگلی نسل کےبہترین مستقبل کا لائحہ عمل ہوتا ہے۔
آپ کیا کہتے ہیں؟؟؟

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مجھے لیڈر چاہیے۔۔۔۔عارف خٹک

  1. بھائی جان۔۔آپ کی تحریر پڑھ کر دوہرے احساس کا شکار ہوا ہوں، کالم کے پہلے حصے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے اس حقیقت کی تائید کرتا ہوں مگر شاہد خٹک کے بارے میں آپ کے خیالات جان کر افسوس ضرور ہوا ہے۔ دو کروڑ کے اثاثے ظاہر کرنے والا کم از کم غریب تو نہیں ہوسکتا۔ دراصل اس جیسے نا تجربہ کار شخص کو ٹکٹ دے کر پرویز خٹک نے لمبی گیم کھیلی ہے۔ کرک کے وسائل پر پہلے بھی وہ قابض رہا اور اس جیسے شخص کے انتخاب پر یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہ کریں مستقبل بھی ماضی سے مختلف نہیں ہوگا

Leave a Reply