سرخ انقلاب۔۔شہباز الرحمٰن خان

“میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا،

مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا

مجھے فکر امن عالم ،تجھے اپنی ذات کا غم

میں طلوع ہورہا ہوں ،تُو غروب ہونے والا!

ارجنٹائنا سے چی گویرا ،کیوبا سے فیڈل کاسترو، وینزویلا سے ہوگو چاویز، لیبیائی معمر القذافی، ذوالفقار علی بھٹو پاکستان سے، امریکی مارٹن لوتھر ،یہ سب سرخ انقلابی فلسفے کے علمدار تھے، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا، اور اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر اپنے خون سے تاریخ لکھ گئے۔

سیاح فام دبلا پتلا چھریرا بدن، درمیانا قد، ماتھے پر کوئی شکن نہیں ،انجام کا کوئی خوف نہیں، افریقہ کی ریاست یوگنڈا کا رہنے والا، جس کا نام روبرٹ کیا گولانی ہے، عوام اس کو  بابی وائن کے نام سے مخاطب کرتی ہے، بابی کا تعلق ایک مڈل کلاس خاندان سے ہے اور بابی کی پیدائش ایک سرکاری ہسپتال میں ہوئی، جہاں اسکی ماں نرس تھی ،یونیورسٹی آف مکیریکر سے بیچلر آف ڈرما اور میوزک پڑھا۔

بابی ایک مشہور سنگر ہے میری توجہ بابی  کی طرف اُس وقت  ہوئی،  جب میں نے انکا ایک گانا یوٹیوب پر سنا، بابی نے اپنے گائیکی کے جوہر دکھائے اور ملک کے نوجوانوں کو متحرک کیا، انکی تربیت اپنے گانوں سے کی، یوگنڈا میں پانچویں دفعہ  منتخب ہونے والے صدر کو بابی کی بڑھتی مقبولیت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی، انہوں نے ریاست کی مشنری کو فعال کیا اور بابی کو حکومت کیخلاف  اکسانے پر جیل بھیج دیا۔

30 سال سے اقتدار میں رہنے والے صدر میسوی کو خطرہ محسوس ہورہا تھا اور دن بدن بابی کے ارادے مضبوط ہورہے تھے سر پر سرخ انقلابی ٹوپی پہنے یہ دیوانہ لیٹری عدالتوں میں دکھے کہتا رہا، جس پُر تشدد ہاتھ میں بیساکھی اسکے خون کی جنبش کو دیکھتی رہی، اسکے پیچھے یوگنڈا کے نوجوان سر پر سرخ انقلابی ٹوپی پہن کر سراپا احتجاج رہے ،بابی نے اپنا الیکشن کا فارم جیل سے بھرا ،سماج کو کیا پتہ تھا،جس چراغ کو پوچھنا چارہے ہیں، ایک دن یوگنڈا اس کی روشنی سے چمکے گا۔

عوام کی طاقت نے صدر میسوی کے قلعے میں دراڑیں ڈال دیں  ،اور بابی وائن الیکشن جیت گیا ،صدر میسوی کو بابی کی عوامی مقبولیت کسی صورت برداشت نہیں تھی، اس نے بابی پر حملہ  کروادیا ،بابی بچ گئے اور ان کا ڈرائیور مارا گیا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق یوگنڈا میں 85 فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے ،اور وہ بابی کے سرخے ہیں، جو ریاست کے معاشی سماجی استحصال کا شکار ہیں۔

آج کل حکومت نے بابی پر سیاسی سرگرمیوں اور نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی ہے، بابی کا کہنا ہے میری عمر 37 برس ہے، یوگنڈا پر ملٹری قبضہ کر چکی ہے اورعالمی طاقتور ممالک اپنے مفادات کے حصول کے لئے فوج کو تحفظ فراہم کررہے ہیں یوگنڈا کی فوج اس وقت افریقہ میں امریکی جنگیں لڑرہی ہے۔

صومالیہ،الجیریا،دوسری افریقی  ریاستوں میں ہماری فوج کیوں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت عوام کا خون کر رہی ہے ،میں اپنی فوج سے کہتا ہوں میں آپکے بچوں کے لیے نکلا ہوں ،ہمارے یوگنڈا کے لیے نکلا ہوں، میرا خواب ہے میں یوگینڈا کو پھر سے تشکیل دوں ،جس میں اخوّت ،بھائی چارا، مساوی حقوق ،امن ترکی کا گہوارہ ہوں۔

ان کا کہنا ہے، صدر میسوی اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے دو دفعہ  دستور میں تبدیلی کرچکے ہیں، اب ملک میں فوج کے بڑے بڑے  افسران عوامی عہدوں  پر فائز ہیں، اور سیاست کرنے کے ساتھ ساتھ علمی اداروں کو بھی فائدے پہنچا رہے ہیں، اس سے ہمارا نظام تباہ ہوگیا ہے، دستور شہری کو آزادی دیتا ہے ،دستور حقوق دیتا ہے ،دستور شہری اور ریاست کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے۔

اگر یوگنڈا کا صدر میں بن گیا میری ترجیحات تعلیم اور صحت کے محکموں میں اصلاحات میری ترجیحات ہونگی نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں ان کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔

میرے مالک میں 90 فیصد خواتین دوران زچگی سے مر جاتی ہیں اور 300 بچے پیدا ہوتے ہیں ان کی تعلیم، خوراک، ریاست کی  ذمہ داری ہے ،یوگنڈا قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال ہے، لیکن ہمارے بچے بھوکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں یوگنڈا میں ایک سورج طلوع ہوتے دیکھ رہا ہوں، ترقی پسند تحریکوں کی ایک لہر اٹھنے والی ہے جو سرمایہ داروں  کے عوام دشمن معاشی پالیسیوں کو اپنے انقلاب سے بہا لے جائے گی۔

Facebook Comments

شہباز الرحمٰن خان
شہباز الراحمن خان سابق ڈپٹی جنرل سیکریٹری پیپلز پارٹی برائے نوجوان کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply