الیکٹرانک میڈیا کے سٹنٹ مین

چند روز قبل ایک ٹی وی چینل پر ایک صاحب ننھے منے بچوں کے درمیان ان سے گفتگو کر رہے تھے۔ ننھے بچے چہچہاتے ہوئے اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے۔ ان بچوں میں سے ایک بچے نے ایک نظم سنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اینکر پرسن نے مائیک بچے کو دیا اور بچے نے انگریزی کی ایک نظم سنانا شروع کی۔
Twinkle twinkle traffic light (جگمگ جگمگ ٹریفک لائٹ)
Shining on the corner bright (سڑک کنارے روشن لائٹ)
When it’s green it’s time to go (جب ہو سبز تو کہے چلو)
When it’s red it’s STOP! you now (جب ہو سرخ تو تم رکو)
بچہ ابھی نظم سنا ہی رہا تھا کہ اچانک اینکر پرسن نے مائیک واپس لیا اور اس بچے کو بولے کہ بیٹا یہ پاکستان ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں سرخ بتی پر چلتے ہیں اور سبز بتی پر رکنے کی وجہ سے گاڑیاں ایک دوسرے میں لگتی ہیں۔ اور جب ریڈ لائٹ پر چلتے ہیں تو کبھی کبھی ریڈ زون میں بھی گھس جاتے ہیں۔ پھر دھرنے اور مظاہرے ہوتے ہیں۔ وہ بچہ کچھ نہ سمجھ میں آنے کی وجہ سے حیرت کی تصویر بنے اس اینکر پرسن کا منہ ہی تکتا رہ گیا۔ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے ان ماں باپ کیلئے جو اپنے بچوں کو اتنے مہنگے سکولوں میں پڑھاتے ہیں تاکہ وہ معاشرتی آداب سیکھیں اور معاشرے کے ایک کارآمد شہری بن سکیں۔ لیکن یہاں حیرت تو اس بات پر ہے کہ وہ اینکر صاحب اتنے معصوم بچے کے ذہن میں ایک منفی بات ڈال رہے ہیں۔ پاکستان ہمارا ملک ہے جس میں کچھ لوگ اگر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کیلئے قانون کے مطابق سزا بھی موجود ہے لیکن یہ کیا کہ آپ بچوں کے ذہن میں ایک ایسی بات ڈالیں جس سے ان میں صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہی جاتی رہے۔ اب “ایسے تو نہیں چلے گا” نا۔۔۔۔
اسی طرح ایک اور چینل پر ایک عقلِ کل قسم کے اینکر صاحب نے اپنی قابلیت کا شاندار مظاہرہ کیا اور اس مظاہرے پر دیکھنے والے”حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں”کی مجسم تصویر بن گئے۔ اور پل ہی پل میں طالبہ پر اپنی علمیت کی ایسی بارش کی کہ دماغ کی بتی روشن ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں، گُل ہو گئی۔موصوف نے اپنی تقریر میں کیا ہی اعلیٰ الفاظ استعمال کئے۔ ویڈیو تو آپ سب دیکھ ہی چکے ہیں۔ وہ طالبہ تو قائدِ اعظم سے اپنے دکھ کا اظہار کر رہی تھی مگر قبلہ محترم نے تو ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے قائد پر لاکھوں لوگوں کو شہید کروانے کا الزام ہی لگا دیا۔ طالبہ نے تو کچھ غلط کہا ہو یا نہ کہا ہو پر اِن اینکر پرسن کے علمی اندازِ تخاطب پر تو قائد کی روح بھی جھوم اٹھی ہو گی۔
ٹی وی چینلز پر اینکر پرسنز کی ان سرکس نما حرکتوں کو دیکھ کر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میدیا کا تعمیری اور جمہوری کردار کہاں ہے؟ انہیں تو شاید لگتا ہو گا کہ ان کی ایسی حرکتوں سے انہیں عوام میں پذیرائی اور ریٹنگ مل رہی ہو گی پر درحقیقت عوام خصوصاً نوجوانوں اور بچوں کی شعوری تربیت کا جنازہ نکل رہا ہے۔

Facebook Comments

مہر ارم بتول
وومنز سٹڈیز اور انتھرپالوجی میں ڈگری حاصل کی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر قلمکاری کے ذریعے ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جڑے ایشوز پر روشنی ڈالنے کی سعی کرتی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply