زندگی میں کم پیسوں میں بھی گزارا ہو جاتا ہے اور ہمیں حالات کی عادت بھی ہو جاتی ہے۔ مگر ایک خواہش دل میں رہتی ہے کہ مستقبل میں بھی ایسا نہ ہو، کہ عام ضروریات زندگی اپنے بچوں کو مہیا کرنے کے لیے خاندان کا سربراہ ایک دن میں 16 گھنٹے کام کرنے کے باوجود بھی اپنے بچوں کو وہ سہولیات نہ فراہم کر سکے جن کا ہم روز استعما ل کرتے ہیں۔
میرے ایک دوست اسرار کے والد صاحب ایک سکیورٹی گارڈ کی ملازمت کرتے ہیں۔ اپنی 25000 کی ماہانہ آمدن میں ان کے لیے کہاں آسان ہے کہ وہ اپنے گھرکی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے چھ بچوں کےتعلیم کے اخراجات بھی اٹھائیں۔
اسرار نے بات کرتے ہوئے بتایا “جب مستقبل میں ایک کامیاب انسان بننا ہے تو محنت سے کیوں گبھرانا, میرے ماں باپ جو میرا مستقبل سنوارنے کے لیے اتنی محنت کرتے ہیں مجھے ان کے لیے اپنے اور اپنے بہن بھائیوں کے لیے اتنا قابل بننا ہے کہ مہینہ گزارنے کے لیے ان کو تارخیں نہ گننا پڑیں”۔
زندگی کی جانب اس کا مثبت رویہ اس کو تھکنے نہیں دیتا, وہ ہر روز صبح چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ سکول آتا ہے, اور اس کے بعد گھر کے نزدیک ایک فیکڑی میں کام کے لیے چلا جاتا ہے، جہاں وہ دوپہر دو بجے سے رات بارہ بجے تک محنت کرتا ہے۔ جس سے اس کی ماہانہ 6000 روپے تک آمدن ہوتی ہے جو وہ ساری کی ساری اپنی ماں کے ہاتھ میں دیتا ہے، تاکہ اس کے والدین کو گھر کا نظام چلانے میں آسانی ہو۔
اسرار کی ماں کا کہنا ہے کہ ہمارا بچہ پڑھ لکھ کر ایک کامیاب زندگی گزارے اور اس کو زندگی میں کبھی کسی چیز کی کمی نہ رہے۔ وہ پڑھتا ہے اور ساتھ ساتھ کام بھی کرتا ہے یہ اس کی آنے والی زندگی میں اس کو مضبوط بنائے گا، اس کو مشکلات کا سامنا کرنے کا طریقہ آئے گا۔ مجھے اپنے بچے پر فخر ہے کہ اتنے مشکل حالات کے باوجود اس کی کلاس میں کارگردگی ہمیشہ اچھی رہی ہے۔
اسرار اور اس کے جیسے بہت سے گھر ایسے ہیں جنہیں معاشرے میں ایک مضبوط پہچان حاصل کرنے کے لیے ہماری اور آپ کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو محنت مزدوری کرکے اپنے گھر والوں کے لیے کھانے کا تو انتطام کر پاتے ہیں، مگر اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے ان کو تعلیم سے آراستہ کرنا بہت مشکل ہے۔آپ کے اردگرد ایسے لوگ ہوں تو اُن کا ساتھ ضرور دیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں