ایک بھکاری سے مکالمہ۔۔۔سیٹھ وسیم طارق

باو جی ! دس روپے  ۔۔۔ چائے پینی ہے۔ ایک بھکاری نے آتے  ہی آواز لگائی۔

میں ریلوے اسٹیشن کی ٹوٹی ہوئی  کرسی پہ بیٹھا اپنی ہی سوچوں اور خیالوں میں مگن تھا  ۔دس روپے پاس نہیں تھے تو اس کو کہا کہ جاؤ چائے والے سے جاکر چائے پی لو۔ میرا نام لینا وہ دیدے گا۔ اور ہاں یہ میرا خالی کپ بھی لیتے جاؤوہاں رکھ دینا۔

بھکاری میرا خالی کپ اٹھا کر چائے والے کے پاس چلا گیا اور میں اپنی جیب سے موبائل نکال کر دوست کو بلانے کیلئے کال ملالی۔ اس نے دس منٹ انتظار کا کہا۔ (مطلب کہ آدھا گھنٹہ) اس کے بعد میں موبائل پہ گیم   کھیلنے میں مصروف ہو گیا۔

تقریبا آدھ گھنٹے بعد جب گیم بند کر کے موبائل جیب میں ڈالا اور اردگرد نظر دوڑائی۔ دوست کے تو خیر ابھی بھی دس منٹ پورے نہیں ہوئے تھے لیکن شام ڈھل چکی تھی۔ سورج غروب ہوگیا تھا لیکن اس  کی سرخ کرنیں افق سے اوپر آسمان پہ نمودار ہو رہی تھیں۔ فوٹو بنانے کے خیال کو پس پشت ڈال کر موبائل جیب میں ڈالا اور بائیں جانب نظر دوڑائی تو دیکھا وہی بھکاری مجھ سے دو کرسیوں کی دوری پہ بیٹھا اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔

چائے نہیں ملی؟؟ میں نے دیکھتے ہی پوچھا۔

نہیں ! اس کے پاس دودھ ختم ہو گیا ہے۔ بھکاری نے معصومانہ انداز میں جواب دیا۔

اچھا تو پھر ٹھہر کے پی لینا ،جب بھی اس کے پاس دودھ ہوا۔ میں نے اس کو کہا۔

تو وہ بولا کہ قاری صاحب کوئی بات نہیں۔ اتنی بات کر کے اس نے بے رخی کے انداز میں منہ دوسری طرف پھیڑ لیا۔ پھر پتا نہیں کیا سوجھا کہ میرے ساتھ والی کرسی پہ آ کر بیٹھ گیا۔

قاری صاحب ! زندگی چہ بڑا کھادا اے ۔۔۔۔ لوکاں نے بہت کھوایا اے مینوں ۔۔۔۔۔ تسی یقین نہین کرنا قاری صاحب پورے بیالی سال منگ کے کھادا اے ۔۔۔۔ تے کُھلا کھادا اے۔

وہ کرسی پر بیٹھتے ہی جوشیلے انداز میں بتانا شروع ہو گیا۔ اور میں محض اثبات  میں سر ہلاتا گیا۔ جب وہ خاموش ہوا تو میں داد دینے کی غرض سے اس سے پوچھا کہ “بڑی گل اے ویسے ۔۔۔ اچھا  یہ بتاؤ کہ یہ مانگنا کب سے شروع کیا تھا۔ جو بیالیس سال ہو بھی گئے ہیں۔

میں میٹرک کرتے ہی مانگنا شروع ہو گیا تھا ۔۔۔۔ میں نے میٹرک کیا ہے ۔پڑھا ہوا ہوں میں۔

وہ بولتا گیا ۔۔۔ اس کی بات کو کاٹ کر میں نے کہا اچھا اگر میٹرک کیا ہی ہے تو کوئی نوکری کر لیتے یا آگے مزید پڑھ لیتے؟

نہیں قاری صاپ ایہوں ای تے تہانوں پتا نہیں ۔۔۔۔ قاری صاحب  جو مزہ منگ کے کھان وچ اے او کر کے کھان وچ نہیں (جو مزہ مانگ کر کھانے میں ہے وہ کام کر کے کھانے میں نہیں)۔

اس کے اتنا کہنے کے بعد میں چپ ہو گیا۔ اور موبائل نکال کر دوست کے بتائے ہوئے دس منٹ کے پورے ہو جانے کی تصدیق کرنے کیلئے اس کو میسج کرنے میں مصروف ہو گیا۔

قاری صاب میں صرف منگدا ای نہیں نمازاں وی پڑھنا واں ۔۔۔ میں ہون تک چھ ہزار دفعہ مسجد دا چکر لایا اے۔

میرے میسج لکھتے اس نے میرے بازوں کو اپنے ہاتھ سے جھٹک کر اپنی طرف مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ میں نے اس کی نمازوں والی بات کو اگنور کرتے ہوئے  پھر اس سے پوچھا کہ یہ بتاو کہ تم رہتے کہاں ہو۔ گھر ہے تمہارا کہ نہیں؟

وہ ذرا دکھی لہجے میں بولا گھر تو ہے لیکن میں یہاں ہی کہیں سو جاتا ہوں گھر نہیں جاتا میں ۔۔۔۔ میرا ابا مجھے بہت مارتا ہے مجھے ذہنی مریض سمجھتے ہیں۔ اس لیے میں اب جاتا ہی نہیں ہوں۔

اچھا ! میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔ تو کیا پولیس نہیں پکڑتی تمہیں۔

نہیں وہ کچھ نہیں کہتے۔ نہ ہی پکڑتے ہیں ۔۔۔۔ اگر پکڑ بھی لیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔کھانا وہ بھی کھلا دیتے ہیں ۔ لیکن گھر والے ۔۔ ابا بہت مارتا ہے۔۔۔۔ اس نے لاہور میں میرے علاج کیلئے مجھے دس ہزار کے ٹیکے لگوائے تھے ۔۔۔ مجھے پاگل سمجھتا ہے ۔۔۔ میں  کہتا ہوں میرا ابا ہی پاگل ہے  ویکھو پاگل وہی علاج کے پیسے مجھے دے دیتا۔

وہ کچھ کچھ لمحہ خاموش رہ کر بولتا گیا۔ اتنے میں میرا دوست بھی آگیا۔ میں نے تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ بیچارے کو اس کا ابا بہت مارتا ہے۔

کیوں ؟ دوست نے پوچھا۔

میں نے بتایا کہ مانگنے کی وجہ سے۔

اتنے میں وہ بیچارہ اپنی  ٹانگ پہ بنے زخم کو دکھاتا پوا بولا یہ دیکھیں کتنا مارا ہے میرے ظالم باپ نے ۔۔۔۔ ویسے قاری صاب میں اک حساب لایا اے  ابے نال پنگا نہیں لینا چاہی دا ۔۔۔ کیوں بھلا ۔۔۔۔ کیونکہ تسی اوہنوں کچھ سمجھا ای نہیں سکدے۔ (باپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آپ اس کو اپنی بات سمجھا نہیں سکتے)

ویکھوں میں اپنا منگنا تے اپنا کھانا واں ۔۔۔ ایدے چہ ابے نوں کی مسئلہ اے۔ ایویں جدوں مرضی مارنا شروع کر دیندا اے ۔۔۔  (دیکھیں میں مانگتا ہوں اور کھاتا ہوں اس میں والد کو کیا مسئلہ ہو تا ہے۔ جب مرضی مارنا شروع کر دیتا ہے)

وہ اپنی دکھی داستان سناتے سناتے چپ ہو گیا۔ پھر میں نے سمجھاتے ہوئے  کہا کہ دیکھو ٹھیک ٹھاک ہو مزدوری کر کے بھی کھا سکتے ہو۔ ایسے مانگ کر کھانے سے اپنی اور اپنے ابے کی عزت خراب کرو گے تو ابا مارے گا ہی ۔ پیار تھوڑی نہ کرے گا۔ میں ذرا غصہ سے کہا۔

وہ کچھ لمحے سوچتا رہا پھر بولا کہ ٹھیک مارے لیکن اس طرح کا نہیں مارنا چاہیے ۔۔۔ یہ زخموں والا۔

اس کے دوبارہ زخم دکھانے پر میں نے غصہ سے  اس کو اٹھ کے جانے کو کہہ دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ چلا گیا تو پھر میں اپنے دوست کی طرف مخاطب ہو کر اس کے ساتھ اس کے کہے ہوئے دس منٹوں پہ  گفت و شنید شروع کر دی۔

Facebook Comments

سیٹھ وسیم طارق
ھڈ حرام ، ویلا مصروف، خودغرض و خوددار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply