پیشِ نظر۔۔نیّر عامر

سرکاری ہسپتال کے زچگی وارڈ سے متصل نرسری کا اندرونی منظر ہے۔ اپنی مخصوص چرچراہٹ کے ساتھ دروازہ کھلتا ہے۔ اس آواز کے ساتھ ہی فرش پر ادھر ادھر آوارہ پھرتے چھوٹے چھوٹے چوہے، کونے کھدروں میں بنی، اپنی پناہ گاہوں میں عارضی طور پر دبک جاتے ہیں۔

ڈیوٹی نرس گود میں ایک نومولود کو لیے اندر داخل ہوتی ہے۔ بچے کو ایک بوسیدہ اور خستہ حال، خالی جھولے میں ڈالتی ہے۔ وزن پڑتے ہی جھولا ہوا میں ہچکولے کھانے لگتا ہے۔ ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈال کر، نرس واپس پلٹ جاتی ہے۔

دروازہ بند ہوتے ہی کونوں کھدروں میں دبکے چوہے، پھر سے کمرے میں رینگنے لگتے ہیں۔

باہر سے آنے والے ہلکے ہلکے شور اور سال خوردہ جھولوں کی دبی دبی سسکاریوں کے درمیان، ایک مولود کی آواز ابھرتی ہے.

“تم نے دنیا میں قدم رکھنے میں اتنی دیر کیوں کر دی؟ تمہاری امی اتنے دن سے ہسپتال میں، داخل ہیں۔ تمام ڈاکٹر، نرسیں بھی پریشانی کے عالم میں یہاں وہاں، بھاگتی پھر رہی تھیں۔”

نو وارد مولود: “تمہیں یہ سب کیسے معلوم ہوا؟”

پہلا مولود: “اس لیے کہ میں بھی کئی دن سے یہاں موجود ہوں۔ ڈاکٹرنیاں اور نرسیں آتے جاتے تمہاری امی کی حالت کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتی رہتی تھیں۔”

نو وارد مولود: “اور۔۔ بتانا پسند کرو گے، تم اتنے دنوں سے یہاں کیوں ہو؟”

پہلا مولود: “وہ سب تفصیلات میں تمہیں بعد میں بتاؤں گا، پہلے تم میرے سوال کا جواب دو! آخر تم نے دنیا میں آنے میں اتنا وقت کیوں لگا دیا؟”

نو وارد مولود: (گہری سانس کھینچ کر) “سچ پوچھو تو میں ڈر رہا تھا۔۔۔”

پہلا مولود: “میں سمجھا نہیں! کیسا ڈر؟”

نو وارد مولود: “مجھے اپنی اس، شکم مادر کی دنیا سے بہت پیار تھا۔ وہ میرا وطن، میرا مسکن تھا۔ وہاں کی ہر چیز سے میں مانوس ہو چکا تھا۔

(ذرا توقف سے) میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ وہاں کی زندگی آسان نہیں تھی۔ مشکلات کا سامنا وہاں بھی کرنا پڑتا تھا، مگر وہ مشکلات ایسی تھیں جن سے میں اچھی طرح آشنا تھا اور کسی نہ کسی طرح ہاتھ پیر چلا کر، ان سے نبرد آزما ہو لیتا تھا۔

بے شک، وہ جگہ چھوٹی اور محدود تھی مگر اس کی یہی خصوصیت میرے لیے باعث اطمینان تھی۔ اس مختصر اور محدود جگہ کے مسائل بھی اسی کی طرح مختصر اور محدود تھے۔ اس کی گداز قوسیں مجھے تحفظ کا احساس دلاتی تھیں۔

شکم مادر سے باہر، اس نئی دنیا کے تصور ہی سے میں بہت خوفزدہ رہتا تھا۔ میں مسلسل یہی تکرار کرتا رہتا، ماں مجھ پر رحم کرو، مجھے ابھی مت پیدا کرو, خدا کے لیے تھوڑا وقت اور۔۔۔۔ ابھی نہیں۔۔ ابھی نہیں۔۔”

پہلا مولود: “معاف کرنا! میں اب بھی تمہارے خوف کا سبب سمجھنے سے قاصر ہوں۔ یہ نئی دنیا تو ماں کے شکم سے بہت زیادہ وسیع اور روشن تر ہے۔ اس میں زیادہ خوبصورت مناظر اور سامان تعیش موجود ہے۔ یہ تو گویا زمین پر جنت ہے جنت!!”

نو وارد مولود: “ہو سکتا ہے، تمہاری بات درست ہو۔ مگر اس وقت تک میں ایسی باتیں سوچنے، سمجھنے سے بالکل عاری تھا۔ میں تو بس اپنے ہی خوف میں مرا جا رہا تھا۔ وہ تو ڈاکٹروں نے میری امی کی جان بچانے کے لیے ہنگامی طور پر آپریشن کا فیصلہ کر لیا۔ ورنہ میں تو اب بھی اس دنیا میں قدم رکھنے کا روادار نہیں تھا۔

تم ترقی کی بات کرتے ہو۔۔۔؟ یہ ترقی ہی تو وہ سب سے بڑی رکاوٹ تھی، جو میرے اس دنیا میں آنے کی راہ میں آڑے آ رہی تھی۔”

پہلا مولود: “ارے واہ! یہ اچھی کہی تم نے؟۔۔ بھلا ترقی کیوں تمہاری ولادت کی راہ میں حائل ہونے لگی؟”

نووارد مولود: “تم تو بڑے بے صبرے ہو بھیا! ذرا صبر اور تحمل سے کام لو، میں اسی طرف آ رہا ہوں۔

(گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑتے ہوئے) ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا۔۔۔

میرے خوف کی وجہ اس دنیا کی تیز رفتار ترقی سے ہی مربوط تھی۔۔۔ میں سوچا کرتا تھا کہ جیسے ہی میں نے اس دنیا میں قدم رکھا، مجھ پر چاروں طرف سے، ہر طرح کے حملے شروع ہو جائیں گے۔ مجھ پر گولیاں چلائی جائیں گی، بم برسائے جائیں گے، ایٹمی، نیوکلیائی ری ایکٹروں کی خودکار توانائی عمل کرنا شروع کر دے گی اور اس سے نکلنے والی مضر شعاعیں میرے جسم میں بیک وقت کئی پیچیدگیاں پیدا کر دیں گی۔

ان سب کا سامنا نہ بھی ہوا تو معدوم ہوتی اور مسخ شدہ انسانی قدریں، میرا اس اجنبی دنیا میں رہنا محال کر دیں گی۔

تعفن زدہ گلیاں، کوچے، بازار اور فضا میں زہریلا دھواں گھولتی چمنیاں، میرے نرم و نازک کونپلوں جیسے جسم کو بدنمائی اور غلاظت سے لتھڑ دیں گی۔

گردش زمانہ اور غم روزگار، مجھے عجیب و غریب قسم کی گاڑیوں اور جہازوں میں یہاں سے وہاں پھراتے رہیں گے…

سیٹلائٹ اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہر لمحہ میری زندگی میں مداخلت کی جائے گی، میری زندگی، میری نہیں رہے گی، ایک تختۂ مشق بن جائے گی۔۔۔

ایسے نجانے کتنے ہی خدشات، ہمیشہ میری سوچوں سے جونک کی طرح چمٹے رہتے۔

انہی خیالات کے درمیان گھرے ہوئے، مجھے اپنا وجود کسی شکنجے میں جکڑا ہوا محسوس ہوتا۔ ایسے میں مجھے شدید گھبراہٹ ہوتی اور میرے دل کی دھڑکنیں رکنے لگتیں۔۔۔۔

میری ماں کی حالت اتنی غیر ہو جاتی کہ انہیں ہسپتال لانا پڑتا۔۔” (سانس لینے کو ذرا سا رکتا ہے.)

پہلا مولود: “تو بھائی! اب جبکہ بالآخر تم اس دنیا میں وارد ہو چکے ہو اور تمہارا استقبال اس انداز سے نہیں ہوا جیسا تم نے سوچا تھا۔ اب کیسا محسوس کرتے ہو؟”

نووارد مولود: “اس کا اندازہ تو ہسپتال سے نکلنے کے بعد ہی ہو گا۔ فی الحال، مجھے سب سے زیادہ خوف، فرش پر مٹر گشت کرتے ان چوہوں سے محسوس ہو رہا ہے۔ تم تو اس شیشے کے مضبوط حصار میں محفوظ ہو۔ باقی سب کے جھولے ٹوٹے پھوٹے اور بوسیدہ ہیں۔ گویا تمہی نے ہمیں ان چوہوں کی دعوت کے لیے پیش کر رکھا ہو۔” (دھیمی سی مسکان کے ساتھ انگڑائی لیتا ہے۔)

پہلا مولود: “ارے کہاں بھائی! تمہیں کیا معلوم، میں تو خود اپنی ہی جلد بازی کا خمیازہ بھگت رہا ہوں۔

اور تم نے یہ کیا بات کر دی؟

مطلب۔۔۔ تم ابھی تک اسی خوف میں مبتلا ہو؟

میرا یقین مانو! یہ سب کچھ تمہارے وہم کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ہم آ گئے ہیں ناں! اب یہ دنیا ہماری اس مٹھی میں ہے۔ تم دیکھنا، اس کا سارا نظام اب ہم سنبھالیں گے۔”

نو وارد مولود: “خمیازہ۔۔۔۔؟”

(کمرے میں موجود ایک اور مولود جو اب تک خاموش تھا، ایک بھرپور انگڑائی کے ساتھ جمائی لیتے ہوئے گویا ہوتا ہے۔)

تیسرا مولود: “تم دونوں ہی عقل کے اندھے ہو!

ایک نے خودساختہ خوف میں مبتلا ہو کر اپنی ماں کی جان خطرے میں ڈالی تو دوسرے نے حد سے زیادہ تجسّس کا شکار ہو کر!

میرے بھائی! ہم لوگ خاکروب باپوں اور گھروں میں برتن مانجھنے والی ماؤں کی اولاد ہیں۔ ہماری انفرادی طور پر کوئی حیثیت نہیں کہ کوئی ہم پر حملے کرنے لگے۔ رہی اجتماعی طور پر حملے کا نشانہ بننے کی بات، وہ ہوتا تو بھائی! شکم مادر کی دنیا بھی تمہیں اس سے نہیں بچا سکتی تھی۔۔۔۔”

پہلا مولود: “وہ سب تو ٹھیک ہے۔ تمہاری یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ اب ذرا اس کی بھی وضاحت کر دو! تمہاری منطق کے مطابق یہ تو ٹھہرا عقل کا اندھا! مگر میں بھلا اس زمرے میں کیونکر آتا ہوں؟”

تیسرا مولود: “یہی۔۔ یہی عجلت نہ تمہیں کہیں لے ڈوبے۔ خاکروبوں اور کام والی ماسیوں کے بچے ہو کر دنیا کا نظام ہاتھ میں لینے کے بڑے بڑے دعوے۔۔۔۔! یہ ایک ڈینگ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں، تمہیں عقل کا اندھا نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟!!

حقیقت تو یہ ہے کہ ہم بھی وہی بنیں گے، جو ہمارے ماں باپ ہیں۔ زیادہ سے زیادہ تیر مار لیا تو کلرک بن جائیں گے۔

بے شک، مستقبل میں ہماری نسل کے لوگ ہی دنیا کا نظام سنبھالنے والے ہیں، لیکن ان لوگوں کا تعلق ہمارے طبقے سے نہیں ہو گا۔ وہ اسی طبقے سے ہوں گے، جس طبقے کے ہاتھ میں، آج دنیا کا نظام ہے۔

سو، میرے بھائی! اپنے دماغ کو آسمان سے نیچے اتارو، زمینی حقائق کو دیکھو اور سمجھو! جتنی جلدی تم نے ان کو سمجھ لیا اور ان سے ہم آہنگی پیدا کر لی، اتنی ہی جلدی ایک بہتر زندگی کی جانب قدم بڑھا پاؤ گے۔ بصورتِ دیگر، انہی خواب و خیال کی باتوں کے پیچھے بھاگتے رہو گے اور جب تک ہوش آئے گا، آدھی سے زیادہ عمر گنوا چکے ہو گے۔۔۔”

پہلا مولود طیش میں آ کر تیوری چڑھاتا ہے۔ اس سے قبل وہ کچھ کہتا ایک اور مولود مداخلت کرتا ہے:

چوتھا مولود:

“تم سب خاموش رہو مجھے بھوک لگی ہے۔ ڈیوٹی نرس ابھی تک فیڈنگ کے لیے نہیں آئی۔”

نووارد مولود:

“ہاں! بھوک تو مجھے بھی لگ رہی ہے۔ اور تو اور میرا تو ڈائپر بھی بھر چکا ہے۔”

پہلا مولود جوں ہی تلملا کر اپنا مکا ہوا میں لہراتا ہے، اس کے دائیں ہاتھ کی پشت پر لگے کینولا کی سوئی اپنے مقام سے ہل جاتی ہے اور اس سے خون بہنے لگتا ہے۔ درد کی ایک تیز لہر اس کے ہاتھ میں دوڑ جاتی ہے، بے ساختہ اس کے حلق سے ایک چیخ برآمد ہوتی ہے اور وہ رونے لگتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کی دیکھا دیکھی باقی تمام مولود بھی اپنی اپنی ضروریات کے حصول کے لیے صدا بلند کرنے لگتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply