• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • علما کرام کا عورت کو جاہل رکھنے پر اجماع ہوچکا ہے۔۔۔اسد مفتی

علما کرام کا عورت کو جاہل رکھنے پر اجماع ہوچکا ہے۔۔۔اسد مفتی

ایک خبر کے مطابق پاکستان کی خواتین میں طلاق اور علیحدگی حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوگیا ہے،شوہروں کی بدسلوکی اور ازدواجی زندگی میں تلخیوں کی بھرمار کے سبب پاکستانی  خواتین طلاق حاصل کرنے پر مجبور ہورہی ہیں ۔ اکثر ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ طلاق کے مطالبے پر خواتین کو جان سے مار دیا گیا ۔

کشور حسین شاد باد کے دارالخلافہ اسلام آباد میں سال 2017 میں لگ بھگ چھ سو خواتین نے اپنے مجازی خداؤں سے طلاق حاصل کی۔ جبکہ 2016 میں خاندان کی “ عزت و وقار و غیرت “کے نام پر 1661خواتین و لڑکیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

یہاں یہ بات بتانی بھی ضروری ہے کہ اسلام کے قلعہ پاکستان میں 92 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں ،کسی مظلوم کو طلاق حاصل کرنا ہوتو طویل عدالتی کارروائی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ خواتین کے لیے یہ سیدھا راستہ بھی پُر خطر ،پُر تشدد، اور جان جوکھم کا راستہ بنا دیا جاتا ہے تاکہ وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں ۔

مسلم معاشرہ میں طلاق حاصل کرنا ایک معیوب اور گھٹیا امر تصور ہوتا ہے۔ لیکن جب سے دنیا میں خواتین کی بیداری کی تحریکیں چلنا شروع ہوئی ہیں خواتین کو زیادہ اختیارات ملنے لگے ہیں ۔ جن کے لیے وہ ساری عمر ترستی ہیں  ۔خواتین  باشعور ہوتی جارہی ہیں ۔ ورنہ مسلم معاشرے کی عورت کو 14 سو سال سے باورچی خانے میں قید کردیا ہے لیکن اب ان میں مردوں کی بالا دستی کے خلاف آواز کا حوصلہ اور ان کے جبر و زبردستی سے آزاد ہونے کا رجحان پید ہوگیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب شوہر کی چاہت نہ ہو تو اس کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے عورت جب کمانے والی ہو تو اس کو ازدواجی زندگی میں صرف شوہر کی چاہت کی ضرورت ہے، مالی طور پر وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہیں ۔ اس کو چاہیے صرف چاہت ومحبت ۔۔۔جب چاہت ہی نہیں تو ازدواجی زندگی کیسے خوش و خرم ہوسکتی ہے؟

ایک متوسط طبقے کی خاتون کا کہنا ہے کہ جب ہم بھی ملازمت کررہی ہیں تو ایثار ،قربانی صرف ہم ہی کیوں دیں ؟ خدا نے طلاق کی،خلع کی اجازت دی ہے، لیکن بیوی کو ذود و کوب کرنے کی اجازت نہیں دی(ہائے بے چاری بھولی اور معصوم عورت)۔

طلاق حاصل کرنے کا رجحان نہ صر ف پاکستان میں بلکہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں میں بھی تیزی سے سر اٹھا رہا ہے ۔تین میں سے ایک والدین کو طلاق کی صورت میں برطانوی سرکاری خزانے سے لاکھوں پونڈ کی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے ،کیونکہ طلاق کی صورت میں جوڑوں کو مالی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔

اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی جو انگلینڈ میں رہتے ہیں نے دھڑا دھڑ “طلاقوں “ پر زور دے دیا ہے۔یہ طلاق صرف کاغذات میں ہوتی ہے لیکن مولوی کے نکاح کو بدستور قائم رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ برطانوی حکومت ان دنوں اس مسئلے سے نپٹ رہی ہے۔

میرے حساب میں “حقیقی جمہوریت” کی طرح “ حقیقی طلاق” کا گراف نہ صرف بیرون ملک بلکہ اندرون ملک بھی بڑی تیزی سے اوپر جارہا  ہے۔ جہاں تک طلاق کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے ،کتاب و سنت کے بعد شریعیت کا تیسرا ماخذ اجما ع ہے۔

اس وقت اہل سنت والجماعت کے پانچ مکاتب فکر دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔حنفی،شافعی، مالکی ،حنبلی ،سلفی جبکہ تشیعہ کے یہاں فقہ جعفری پر عمل ہے۔

ان تمام مکاتب فقہ کی کتابیں چھپی ہوئی موجود ہیں ۔

میرے علم کے مطابق ان میں سے کسی کے یہاں بھی طلاق واقع ہونے کے لیے معاشی کوشش کا ہونا شرط نہیں ہے ۔کسی بھی کتاب میں طلاق دینے کے سلسلے میں ایسی کسی بھی کتاب میں طلاق دینے کے سلسلے میں ایسی کسی بھی شرط کا ذکر نہیں ملتا۔ اس لیے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس بارے میں ملت کا اجماع و اتفاق ہے۔ یہاں تک کہ علیحدگی کی صورت میں ثالثی کو بھی ضروری قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ اس کا کوئی ذکر ہی نہیں آیا ۔

لہذا قیاس کا تقاضا بھی یہی ٹھہرا کہ طلاق واقع ہونے کے لیے بھی پہلے ثالث کے   ذریعے معاملہ طے کرنے کی کوشش کرنا ضروری نہیں ہوتا ۔قرآنی آیات میں مرد و عورت کا درجہ بتایا گیا ہے کہ مرد صدر ِ خاندان ہے ۔(صدرِ پاکستان کی طرح بے بس نہیں )اور عورت پر جائز امور میں اس کی اطاعت واجب ہے ۔چونکہ حقوق فرائض کے بارے میں اکثر نزاع پیدا ہوجا تا ہے۔ اور میاں بیوی کی ہمہ وقتی رفاقت کیوجہ سے ان کے درمیان نزاع کا امکان زیادہ ہوجا تاہے۔ اس لیے خاص طور پر میاں بیوی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اگر بیوی شوہر کے حقوق کے بارے میں کوتا ہی کرے اور اس کی وجہ سے تعلقات میں ناخوش گواری پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو شوہر ذاتی طور پر اس کو حل کرنے کی کوشش کرے اور اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ،پندو نصیحت ،عارضی  طور  پر ترکِ تعلقات اور سرزنش اور اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو سماجی مداخلت۔

یعنی سماج کو چاہیے کہ باہمی جھگڑے طے کرانے کے لیے دونوں خاندانوں کو لے کر اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔

یاد رہے کہ یہ سب ایک عمومی نصیحت ہے چونکہ ازدواجی رشتہ خاندان کے استحکام کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس لیے خاص طور پر ذکر کیا گیاہے ۔اس میں دراڑ نہیں ہونی چاہیے۔شوہر بھی ذاتی طور پر اس کی کوشش کرے اور معاشری یا سماج بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے لیکن اس کا تعلق خاص طلاق کے مسئلے سے ہر گز نہیں ۔بلکہ کسی بھی قسم کا اختلاف شوہر و بیوی میں پیدا ہو تو اسے اس طرح حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے اور ضرور رکھنی چاہیے کہ اگر بیوی تحریری طور پر طلاق طلب کرے تو شوہر 90 دن کے اندر طلاق دے ورنہ نکاح خود بخود فسخ ہوجائے گا۔ میرے حساب سے نکاح نامے کی طرز پر معیاری طلاق نامہ بھی ہونا چاہیے ،جبکہ طلاق کی بھی رجسٹریشن کی جائے۔

طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان سے مسلم ممالک اور مسلم معاشرو ں میں طلاق ازدواجی زندگی میں تلخیاں گھول رہی ہے۔ شوہروں کی بدسلوکی کی وجہ سے خواتین طلاق حاصل کرنے پر مجبور ہیں ۔ اس لیے میرے حساب سے اگر علیحدگی کے بغیر گزارہ نہ ہو یا کوئی چارہ نہ رہے تو جلد سے جلد اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے کہ طلاق کو مشکل بنانا بظاہر عورت کے مفاد میں نظر آتا ہے لیکن یہ اس کے حق میں ضرر رساں عمل ہے۔

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ کشور حسین شاد باد کی نوے فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں ۔

غموں کا کوئی بھی موسم نہیں ہے

Advertisements
julia rana solicitors

یہ میلہ سال بھر لگنے لگا ہے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply