نا اہلی آخری وار نہیں/ قادر خان یوسف زئی

نا اہلی کا قانون کسی فرد کے کسی قو می ادارے کی ایگزیکٹو مینجمنٹ باڈی میں سینئر عہدے پر فائز ہونے اور جونیئرز کو مواقع سے محروم کرنا ہے۔ ملکی اداروں کا انتظام قانون سازی کے ذریعے مختلف معاملات میں ریاستی اداروں کے ذمہ  نظم و نسق قائم کرنا ہے۔ نااہلی کا اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جو قانونی ادارے کے جسم میں تنظیمی، انتظامی یا انتظامیہ میں منطقی افعال منفی روش کے طور پر انجام دیتے ہیں۔ نا اہلی کی اصطلاح کے معنی، کسی کی قابلیت، مہارت کچھ قانونی وجہ کی بِنا پر کسی بھی کام کو انجام دینے  کی صلاحیت کا نقصان ہے۔ مملکت کے قانون میں نا اہل قرار دئیے جانے کیلئے تشریحات موجود ہیں، جنہیں پارلیمنٹ سے بے د خلی، نا اہل قرار دے کر اقتدار کے منصب سے کچھ برس یا تا حیات نا اہل قرار دیا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ موجودہ قانون میں نا اہلی کا اطلاق  ان افراد پر کیا جا سکتا ہے جنہیں سول سروس اور ووٹ کے ذریعے حکمران اور وزرا ء بننے کا حق ملا یا مل سکتا ہے یہ ریاستی اداروں میں تنظیمی، انتظامی اور اقتصادی  افعال سر انجام دیتے ہیں اور ان کی نگرانی کیلئے ایسے ادارے بھی ہیں جو ان کی کارکردگی سمیت تمام امور کا جائزہ لے کر مقدور اداروں میں بھیجتے ہیں کیونکہ یہ بھی ایک قانونی و آئینی عمل ہے، جسے غیر اخلاقی نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ ریاست کے بچاؤ کیلئے اگر نگراں ادارے داخلی و خارجی معاملات میں عمل دخل نہیں رکھیں گے تو معاشرے و انتظامی اداروں میں ہر ایک اپنے خود ساختہ قانون کا سہارا لے کر احتساب کے عمل سے بچنے کی کوشش کرتا رہے گا۔

نا اہلی کی مدت کا تعین کون سا ادارہ کتنے عرصے کیلئے کرے گا، اس کی توجیہہ بھی انہی اداروں کے پاس ہوتی ہے۔ جسے چیلنج کرنے کیلئے آئینی ادارے جائزہ بھی لیتے ہیں، قانون کا طالب علم اس حوالے سے عام کے نزدیک زیادہ بہتر جانتا ہے، اگر اس کا تعلق سیاسی جماعت سے ہو تو پھر قانون کی تمام تشریحات و دلائل کا براہ راست تعلق سیاست سے جڑ جا تا ہے۔ نا اہلی کی جو بھی شکل ہو اس کا اطلاق ان افراد پر کیا جا سکتا ہے جو ادارے کا انتظام کرنے کیلئے مختلف  سرگرمیاں  انجام دیتے ہیں۔ نا اہلی کے مدارج اور سزا کیا ہوگی، یہ ہم ایک منٹ کی سزا سے تا حیات نا اہلی کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہے کہ نا اہلی کی شکل میں انتظامی جرمانہ صرف ایک جج کی طرف سے عائد کیا جا سکتا ہے۔

نا اہلی کا اطلاق انتظامی اور قانونی ممانعت کی خلاف ورزی کیلئے صرف ایک خصوصی قانونی حیثیت والے ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ یہ ایک حلقے (سیاسی یا تنظیم جماعت) مخصوص گروہ اور کاروباری افراد تک پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ نا اہلی کی اصطلاح پر اور اس کی خصوصیات اور اقسام کو سامنے لائے بغیر ہمیں سیاسی رہنماؤں کی نا اہلی کے مندر جات سمجھنے میں دقت پیش  آسکتی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی نا اہلی کے تصور میں اس بیانیہ کو پہلے ٹھیک طور پر سمجھ لیا جائے کہ نا اہلی کی بنیادی وجوہ کیا ہوسکتی ہیں ، ایسے حالات میں عوام، عام طور پر جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور انہیں اشتعال انگیز تقاریر اور خو د ساختہ ترجیحات کے طور بہلا پھسلا کر بادی النظر گمراہ کیا جاتا ہے اور اصل وجوہ کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ شاید یہ ہر ایک سیاسی جماعت یا تنظیم کرتی ہے۔ کسی بھی انتہا پسند تنظیم سے پوچھ لیں وہ خود کو کبھی دہشت گرد انتہا پسند نہیں کہیں گے، کسی بھی نسل پرست سے معلوم کریں تو اس کے پاس اپنے اثبات کے دلائل و دلیلوں کے انبار ہوں گے کہ بعض اوقات آپ کو اپنی نسل پرستی پر فخر محسوس ہونے لگے گا۔ کسی بھی حکومتی عہدے دار کی کرپشن، اختیارات کے تجاوز یا کسی بھی ادارے کے  اپنے دائرے سے باہر آنے پر انگلی اٹھائیں گے تو ان کی دانست میں نافرمابردار ٹھہریں گے ۔

ناکا فی خلاصہ اور کنڈیشن، ایک اصول کے طور پر، ہمیشہ صرف صادق اور امین بننے کی خواہش اور رسید کو متاثر کرتی ہے اصولی طور پر، کسی بھی سیاست دان یا حکومتی عہدے دار کو بد بو دار نظام کے کوڑے دان سے نکالنا اس سے سب سے بڑا اس کی خامیوں کو قانونی طور پر درست ثابت کرنا ،جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔ سیاست دان حزب اقتدار میں ہوں یا اختلاف میں، انہیں یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ سیاسی شعبدہ بازی سے کچرے کو سونا ثابت کرکے ہر سطح پر لے جانے کی خصوصی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے انہیں کسی بھی نام نہاد نمائش میں لے جانا ممکن ہو جاتا ہے جس سبب ایسے مقبول سیاست دان کو نااہل قرار مشکل اور سزا دینے میں بھی تامل کا مظاہرہ کرے گا، بعض اوقات مجاز اداروں کی جانب سے اسے یہ لقب بھی نہیں ملا ہوگا لیکن یہ قاعدہ آج تک ایسا ہی ہے۔

یہی بات نامناسب ماحول بنانے والوں پربھی لاگو ہوتی ہے۔ آپ زیادہ وزن والی یا کمزور سیاست کو عنوان سے محروم کر سکتے ہیں، لیکن آپ نااہل قرار دینے کی وہ اتھارٹی نہیں رکھتے، جس کے مظاہر مملکت کے عنوان کئی برسوں سے دیکھتے آ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری ذاتی رائے میں، یہ غلط نقطہ نظر ہے جی ہاں، یقیناً، جو کہ ایک سیاست دان یا حکومت سے وابستہ شخص  سمیت کسی بھی فرد کو نظریاتی طور  پر نقصان پہنچاتی ہے۔(خرابی قابل وراثت نہیں ہے) لیکن سب سے پہلے، سیاست کے اس کھیل میں تھکاوٹ یا تو ذہنی نفرت کی موجودگی کو ظاہر کرتی ہے یا اپنے بیانیہ کو اخلاقیات میں رکھنے کی مناسب دیکھ بھال کی کمی وجہ ٹھہرتی ہے۔ در حقیقت جس چیز کیلئے نااہل قرار دیا جاتا ہے وہ بذات خود ایک متنازع امر ہے جس کی تلوار کا وار موقع پڑنے پر کوئی بھی کسی پر بھی کر سکتا ہے، جس کی کم از کم دو وجوہات ہوسکتی ہیں، اوّل ناقص سیاست کا نتیجہ یا میوٹیشن کی خامی، مستقل ہونے کیلئے ، یہ بظاہر دیکھ بھال کی کمی نہیں ہے، بلکہ اس نقص کی موروثی وجوہ میں تلاش کرنے کی ضرورت پر غور کرنا چاہیے۔ جو اس طرح کے سخت نقطہ نظر اختیار کرنے کا سبب بنتی ہیں ۔مقبولیت کے معیار کو کسی کی خامی یا قانون سے انحراف کئے جانے کی سند مہیا نہیں کی جا سکتی۔ موجودہ نا اہلیت کے دور میں  کیونکہ ابھی کئی قانونی مراحل باقی ہیں، اس لیے مناسب یہی ہے کہ ملک کے سنجیدہ، بدترین سیاسی و معاشی استحکام کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے دلائل مناسب فورم میں رکھیں تو یہ زیادہ مناسب اور سب کے حق میں بہتر ہوگا۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply