• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انتخابی نشان ۔۔ الیکشن کمیشن کی خدمت میں چند سوالات؟۔۔۔آصف محمود

انتخابی نشان ۔۔ الیکشن کمیشن کی خدمت میں چند سوالات؟۔۔۔آصف محمود

الیکشن کمیشن کی خدمت میں چند سوالات رکھنے سے پہلے تمہید کی صورت ایک سوال آپ سے۔ کیا آپ کو معلوم ہے امیدواران کو انتخابی نشان کیوں جاری کیے جاتے ہیں؟ بیلٹ پیپر پر محض امیدواران کا نام دیکھ کر بھی تو ووٹ ڈالے جا سکتے ہیں پھر یہ ہر امیدوار کو انتخابی نشان کیوں جاری کیا جاتا ہے؟ انتخابی نشان جاری کرنے کی ایک حکمت ہے۔اور وہ یہ کہ ہر ووٹر اتنا باشعور اور پڑھا لکھا نہیں ہوتا کہ وہ امیدواران کے نام دیکھ کر پڑھ سکے اور جان سکے کہ اسے اپنا ووٹ کسے دینا ہے۔بعض ووٹر بالکل ان پڑھ ہوتے ہیں۔ وہ اپنا نام تک نہیں پڑھ سکتے ۔اس لیے اجتماعی طور پر ایک ایسا نظام وضع کیا گیا ہے کہ تعلیم یافتہ اور ان پڑھ ہر قسم کا ووٹر آسانی سے ووٹ ڈال سکے۔چنانچہ انتخابی نشان جاری کیے جاتے ہیں۔( یہ ایک الگ بحث ہے کہ جو حضرات امیدوار کا لکھا ہوا نام پڑھنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے کیا ان کا ووٹ بھی ایک پروفیسر ، ڈاکٹر اور عالم کے برابر ہونا چاہیے۔اس بحث میں ہر دو اطراف کے پاس مضبوط دلائل موجود ہیں، تاہم اس بحث کو ہم کسی اور نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور فی الوقت خود کو انتخابی نشان تک محدود رکھتے ہیں)۔ اب اگر انتخابی نشان جاری کرنے کی شان نزول یہ ہے تو کیا الیکشن کمیشن کے لیے لازم نہیں کہ وہ ایسے انتخابی نشانات جاری کرنے سے پرہیز کرے جو کسی بھی حوالے سے ووٹر کو الجھن میں ڈال سکیں؟تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا ہے۔ تحریک انصاف کے ناراض کچھ لوگوں کے نام پر ایک گروہ سامنے آیا ہے جس کا نام تحریک انصاف نظریاتی ہے۔ اس میں تحریک انصاف کے ناراض لوگ کم اور بھان متی کے کنبے کے افراد نمایاں ہیں۔الیکشن کمیشن نے انہیں ’’ بلے باز‘‘ کا انتخابی نشان عطا فرما دیا ہے۔ اب بیلٹ پیپر پر ایک طرف ’’ بلے‘‘ کا نشان ہو گا اور ساتھ ہی ’’ بلے باز ‘‘ کا۔ بلے باز بھائی جان بھی ہاتھ میں ’’ بلا‘‘ پکڑ کر کھڑے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے بلے باز بھائی جان کی نسبت ان کے دست مبارک میں تھاما ہوا ’’ بلا‘‘ زیادہ نمایاں ہو۔ ووٹر کی اجتماعی استعداد آپ کے سامنے ہے۔ اسے امیدواران کا نام پڑھ کر ووٹ ڈالنے میں دقت پیش آتی ہے ۔ اس کی آسانی کے لیے انتخابی نشان جاری کیا جاتا ہے۔ اب ’’ بلے‘‘کے ساتھ اگر ’’بلے باز‘ ‘کا انتخابی نشان جاری کر دیا گیا ہے تو اس بات کا امکان نہیں کہ ووٹرز کی کچھ تعداد اس سے کنفیوز ہو جائے؟ یہاں دو سوال اہم ہیں۔ اول: الیکشن کمیشن نے ’’ بلے ‘‘ کی موجودگی میں ’’ بلے باز‘‘ کا انتخابی نشان کیوں جاری کیا؟ یہ الیکشن کمیشن کی سادگی اور غفلت ہے یا معاملہ کچھ اور ہے؟ دوم: تحریک انصاف نے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیوں نہیں کیا کہ ’’ بلے باز‘‘ کا انتخابی نشان اس کے ووٹر کو الجھن میں ڈال سکتا ہے اس لیے اسے ختم کیا جائے؟تحریک انصاف اس معاملے کو اتنا اہم نہیں سمجھتی یا یہ اس کے پالیسی سازوں کی غفلت ہے جن کا سارا زور سوشل میڈیا پر داد شجاعت دینے پر صرف ہو رہا ہے اور وہ آج بھی یہ بات سیکھنے کو تیار نہیں کہ الیکشن کیسے لڑا جاتا ہے؟ یا پھر وہ کسی غیر معمولی اعتماد کا شکار ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن تو وہ ہر حال میں جیت رہے ہیں اس لیے ان معمولی معمولی باتوں پر اب کیا شور ڈالا جائے؟ یہ بات مگر معمولی نہیں ہے۔ گزشتہ انتخابات میں الیکشن کمیشن نے ’’ بلی‘‘ کا نشان رکھا ۔ مسلم لیگ ن کو علم ہوا کہ ’’ بلی‘‘ کا نشان جاری ہو رہا ہے تو وہ فورا حرکت میں آئی ۔اس نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ ہمارا ووٹر ابھی اتنا باشعور نہیں ہوا اس لیے اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ ’’ شیر ‘‘ کے کچھ ووٹ غلطی سے ’’ بلی‘‘ کو پڑ جائیں۔مسلم لیگ ن کے مطالبے پر الیکشن کمیشن نے انتخابی نشانات میں سے ’’ بلی‘‘ کا نشان ختم کر دیا۔اب سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ اس باب میں اس قدر حساسیت کا مظاہرہ کر سکتی ہے تو پاکستان تحریک انصاف اس معاملے کی سنجیدگی کا احساس کیوں نہیں کر رہی؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ جب الیکشن کمیشن اس تجربے سے گزر چکا اور اس امکان کو تسلیم کر چکا کہ ووٹر ’’ شیر‘‘ اور ’’بلی‘‘میں تمیز نہ کر سکے تو اس نے ’’ بلے باز‘‘ کا نشان جاری کرتے وقت ماضی کے تجربے سے رہنمائی کیوں نہیں لی اور اسے یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ ووٹر جس طرح ’’ شیر ‘‘ اور ’’ بلی‘‘ میں فرق نہیں کر سکتا اسی طرح امکان موجود ہے کہ وہ ’’ بلے‘‘ اور ’’ بلے باز‘‘ میں بھی فرق نہ کر سکے؟ ’’ بلے باز‘‘ کا نشان دیا جا سکتا ہے تو کسی اور امیدوار کو ’’ شیر کی خالہ‘‘ کا انتخابی نشان کیوں نہیں دیا گیا؟ یہی معاملہ مجلس عمل کے انتخابی نشان کے ساتھ پیدا ہوا۔ اے این پی نے ماضی میں الیکشن کمیشن سے کہا کہ کسی کو بھی کتاب کا نشان جاری نہ کیا جائے ۔ اے این پی کا خیال تھا کہ کے پی کے کا ووٹر ’’ کتاب ‘‘ کے نشان کو کہیںقرآن سمجھ کر ووٹ نہ دے آئے۔ الیکشن کمیشن سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر آپ نے مجلس عمل کو ’’کتاب ‘‘ ہی کا نشان جاری کرنا ہے اور اگر مجلس عمل کو بھی اصرار ہے کہ اسے ’’ کتاب ‘‘ ہی کا نشان دیا جائے تو پھر بند کتاب کی بجائے کھلی ہوئی کتاب کا نشان جاری کیجیے اور اس کھلی ہوئی کتاب پر ’’ A.B.C‘‘ لکھ دیجیے یا اس پر ’’ الف ، ب ، پ ، ت‘‘ لکھ دیجیے تا کہ ووٹر کو اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ یہ ایک عام کتاب ہے ، قرآن نہیں۔ یہاں بھی وہی دو سوالات ہیں؟ الیکشن کمیشن کہاں ہے؟ اور تحریک انصاف کیا کر رہی ہے؟ کے پی کے میں تحریک انصاف کے خلاف سیاسی مہم کا مرکزی کردار تحریک انصاف کی کارکردگی کی بجائے یہ الزام رہا ہے کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہیں اور وہ فلاں فلاں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جب کہ ہم دین کی خدمت کے لیے نکلے ہیں۔ اس ماحول میں اول تو الیکشن کمیشن کے لیے لازم تھا کہ وہ صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے اے این پی کے پرانے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے کھلی ہوئی کتاب بطور نشان جاری کرتا جس پر ABC یاالف ب پ ت لکھا ہوتا ۔اور اگر الیکشن کمیشن نے یہ نہیں کیا تو یہ کام تحریک انصاف بھی کر سکتی ہے۔تحریک انصاف کی اہلیت پرسوالیہ نشان ہے یا پھر وہ کسی غیر معمولی اعتماد کا شکار ہے؟ تحریک انصاف کی بات تحریک انصاف جانے۔الیکشن کمیشن البتہ ایک قومی ادارہ ہے اور اس سے ضرورپوچھا جاناچاہیے اس نے اس معاملے میں حساسیت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply