• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انسانی حقوق کا نعرہِ مستانہ اور امریکہ کے کونسل پر تین حرف۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

انسانی حقوق کا نعرہِ مستانہ اور امریکہ کے کونسل پر تین حرف۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا کی اکثریت کو ہمیشہ دلکش نعروں سے دھوکہ دیا جاتا ہے، آزادی، مساوات، جمہور کی حکمرانی اور جانے کیا کیا نعرے لگا کر طاقتور گروہ اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں۔ انسانی حقوق بھی ایک ایسا ہی دلکش نعرہ ہے، جس کے ذریعے استعمار نے اپنے مفادات  کو حاصل کیا ہے۔ جس ملک پر جب چاہتے ہیں، انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگا کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ انسانی حقوق کو اس وقت ایک ایسی چیز بنا دیا گیا ہے، جس پر گویا پوری دنیا کا اتفاق ہے اور ان کی خلاف ورزی گویا کسی تسلیم شدہ حقیقت کی خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کا نعرہ الگ سے ایک مذہب کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ نام نہاد بین الاقوامی طاقتوں کا اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے تشکیل دیا گیا انسانی حقوق کا چارٹر ایک نامکمل دستاویز ہے، جس کی بنیادوں میں پچاس کی دہائی کی چند طاقتور قوموں کا نظریہ حیات ہی شامل کیا گیا ہے، اکثر مسلم ممالک اس وقت غلامی میں تھے یا تازہ تازہ آزاد ہو کر اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہے تھے، ایسے میں ان کی توجہ ایسے مسائل کی طرف بالکل نہیں تھی، جو بظاہر سادہ مگر دور رس اثرات کے حامل تھے۔ انسانی حقوق کے اس مغربی تصور کی کوئی شق مذہب کی بنیادی تعلیمات سے متضاد ہو تو یہ کہا جاتا ہے کہ مذہب کو تبدیل کر لیں، یہ تبدیل نہیں ہوگی۔

ہم ناصرف انسانی حقوق کے قائل ہیں بلکہ  مغربی تصور سے بڑھ کر انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، کسی تفصیلی کالم میں اسلام کے  انسانی حقوق کے تصور کی وضاحت کروں گا۔ انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کا مسئلہ پیدا کیا گیا، اس وقت میڈیا زیادہ متحرک نہ تھا، کیونکہ وہاں استعمار نے  اپنے پنجے گاڑنے تھے، ایک اسلامی ملک کو  تقسیم کرنا تھا، اس لئے فوراً اس کو بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دے کر انڈونیشا کو مجبور کر دیا کہ وہاں نام نہاد ریفرنڈم کرایا جائے، ریفرنڈم ہوا اور مشرقی تیمور ایک الگ ملک کی صورت میں معرض وجود میں آگیا۔ پیمانے ایک سے رکھنے چاہیں، کیا امریکہ سمیت انسانی حقوق کے اداروں کو یہ نظر نہیں آرہا ہے، اس سے کہیں پہلے کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ظلم و بربریت کی ایسی  دردناک حقیقتیں ہیں، جن کی مثال ملنا مشکل ہے۔ نہتے نوجوان مظاہرین پر براہ راست بیلٹ گنز کے ذریعے فائر کئے جا رہے ہیں۔ سینکڑوں نوجوان زندگی بھر کے لئے اپنی آنکھوں سے محروم ہوچکے ہیں، کئی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور کئی اپاہج ہوچکے ہیں۔ اب تو عجیب صورتحال پیدا ہوچکی ہے، چند نہتے کشمیری نوجوانوں کو پکڑا جاتا ہے اور انہیں گاڑی کے آگے باندھ لیا جاتا ہے۔ اس طرح نہتے نوجوانوں کو بطور انسانی ڈھال کے استعمال کیا جاتا ہے، نہتے جوانوں کو یوں ڈھال کے طور پر استعمال کرنا ایک جرم ہے۔

عراق کو ہی دیکھ لیں، جہاں چند سالوں میں ہاف ملین لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ یہیں پر ابو غریب جیل میں نام نہاد مہذب دنیا کی طرف سے وہ مظالم کئے گئے کہ جنہیں دیکھ کر شائد ہلاکو خان بھی شرما جائے۔ نہتے قیدیوں کو ننگا کیا جاتا تھا، ان پر کتے چھوڑے جاتے تھے اور لکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی ہے، ان پر پیشاب کیا جاتا تھا۔ جب براہ راست حملوں سے مسئلہ حل نہیں ہوا تو جنگ زدہ عراقیوں پر داعش جیسے بھیڑیے چھوڑ دیئے گئے، جو انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ یہ جدید تاریخ کے ظالم ترین لوگ تھے، انہوں نے ہر وہ ظلم کیا، جس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو آگ میں جلایا، پانی میں ڈبویا اور ٹینکوں کے نیچے بھی ڈالا۔ یعنی وہ کام جو خود کسی وجہ سے نہیں کرسکتے تھے، وہ ان کے ذریعے کرائے گئے۔ انسانی حقوق کا کوئی ادارہ تحقیق کرے اور ان طاقتوں کو بے نقاب کرے، جن کی وجہ سے ان درندوں نے یہ انسانیت سوز مظالم کئے۔ یہ مسئلہ اب مشکل نہیں رہا، اتنے بڑے پیمانے پر داعش کو گاڑیاں کس نے مہیا کیں؟ ان کا اسلحہ کہاں سے آیا؟ اس طرح کی دیگر چیزیں جن کے ذریعے انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ شام کو دیکھ لیں،جہاں شامی فوج نے دہشگردوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے۔ جن قوتوں نے ان دہشگردوں کو پالا تھا، انہوں نے دیکھا کہ ان کی محنت ضائع جا رہی ہے تو وہ براہ راست جنگ میں شریک ہوگئیں اور الزام یہ لگایا کہ شامی فوجوں نے ممنوعہ گیس کا استعمال کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس طرح انسانی حقوق کے دلکشن نعرے پر لوگوں کو گمراہ کیا، فضائی حملوں کے ذریعے شامی حدود کی پامالی کی اور دسیوں لوگوں کو شہید کر دیا۔

مسئلہ فلسطین بھی ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ آئے روز اسرائیلی فورسز انسانیت سوز مظالم ڈھانے میں مشغول ہیں۔ ہر وہ تشدد اور ظلم جو انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزی ہوسکتا ہے، اسرائیلی فورسز نے وہ انجام دیا ہے۔ گھروں کو واپسی کے نام سے  فلسطینی مہاجرین نے  بہت بڑی مہم کا آغاز کیا، جس میں نہتے اور پرامن لوگ جلوس کی شکل میں اسرائیلی بارڈرز تک جا رہے تھے۔ کچھ لوگ اکٹھے ہوں، نعرے لگائیں، پوسٹرز لہرائیں اور واپس ہو جائیں، اس سے کسی ریاست کو کیا پریشانی ہوسکتی ہے؟ مگر اسرائیل نے ان نہتے لوگوں پر براہ راست حملے کئے، فوجیوں نے نشانہ باندھ کر سروں پر گولیاں ماریں اور جب کسی نہتے فلسطینی کو گولی لگی اور گر گیا تو اس پر اسرائیلی فوجیوں نے اچھل کود کرکے اس پر جشن منایا۔ صیہونی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان پر بہت زیادہ تشدد کیا گیا ہے، انہیں مارا اور جلا وطن کیا گیا ہے، اس وقت تک اسرائیل نے جو سلوک فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہے، لگتا اس کا عشر عشیر بھی ان کے ساتھ نہیں ہوا۔ غزہ میں سینکڑوں گھروں کو تباہ برباد کر دیا گیا ہے، خواتین اور بچوں کو گولیاں ماری گئی ہیں، راستے بند کئے گئے ہیں، غزہ کے اردگرد چاردیواری بنا کر اسے ایک جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ ایک طرف سمندر ہے اور دوسری طرف چاردیواری ہے، فلسطینیوں کا کھانا پینا جب چاہتے ہیں، بند کر دیتے ہیں، مریضوں اور زخمیوں پر حملے کئے جاتے ہیں۔ گھروں کو واپسی کی تحریک کے دوران زخمیوں کا علاج کرنے والی ایک نرس کو شہید کر دیا گیا، پہلے ایک جوان کو بمباری کرکے پاوں سے معذور کیا گیا، اس کا جذبہ حریت پھر بھی جوان رہا تھا، اسے گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ انسانیت کے یہ دشمن اب تو غزہ کے جن گھروں میں پتنگ اڑتی ہے، انہیں ایف سولہ کے ذریعے بمباری کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان تمام حالات میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے کونسل نے ان مظالم کے خلاف اسرائیل کی مذمت میں  قراردادیں منظور کیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل  کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو امریکہ ویٹو کر دیتا ہے، جس سے اس کے خلاف اٹھنے والی ہر قرارداد کی حیثیت ردی کے ایک کاغذ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ انسانی حقوق کی کونسل سے مسلسل اسرائیل کے خلاف قراردادوں کا آنا امریکہ کے لئے کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں تھا۔ اسی لئے پہلے امریکہ نے دباو ڈال کر رائے عامہ کو اسرائیل کے حق میں کرنے کی کوشش کی، مگر اس میں ناکام رہا، پھر مسلسل اس کونسل پر تنقید کرتا رہا ہے، جب اس سب کے باوجود اسرائیل کے خلاف قرارداد آگئی تو امریکہ نے کونسل پر تین حرف بھیجے اور نکل گیا۔ وہ ملک جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر دوسرے ملکوں پر پابندیاں عائد کر دیتا ہے اور بعض اوقات ان پر حملے کر دیتا ہے، ٹرمپ کے آنے کے بعد صورتحال اس حد تک تبدیل ہوچکی ہے کہ اب وہ اس اہم عالمی فورم کو چھوڑ چکا ہے اور چھوڑنے کی وجہ فقط اسرائیل ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply