چھوٹا گوشت……….رعایت الله فاروقی

گزشتہ شب یہ سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی کہ کافی عرصہ ہوا کوئی سیاسی خواب نہیں دیکھا۔ شاید قبولیت کی گھڑی تھی کہ آنکھ لگتے ہی ایک ایسی نورانی شخصیت کی زیارت نصیب ہوئی جن کی ٹوپی علامہ طاہر القادری والی، وھیل چیئر علامہ خادم حسین رضوی والی اور جسامت علامہ طاہر اشرفی والی تھی۔ میں ان کے حضور پیش ہوا تو مصافحے کے لئے اپنی دو انگلیوں کے لمس سے نوازتے ہوئے فرمانے لگے

’’ہمیں صدمہ ہے کہ نیا پاکستان اس بار بھی نہیں بن سکے گا !‘‘

یہ خبر پاکر میں گہری سوچ میں چلا گیا تو انہوں نے پوچھا

’’کیا سوچ رہے ہو ؟‘‘

عرض کیا

’’بس یہی کہ اگر نیا پاکستان بن جاتا تو کیسا ہوتا ؟‘‘

فرمانے لگے

’’ہمارے ہاتھ میں ہاتھ دو !‘‘

حکم کی تعمیل بجا لاتے ہوئے اپنا ہاتھ ان علامہ طاہر خادم اشرفی قسم کی ہستی کے ہاتھ میں دیدیا۔ ہاتھ ان کے ہاتھ میں جاتے ہی ایک چھماکہ سا ہوا اور آنِ واحد میں نئے پاکستان کے دارالحکومت پہنچ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی نئے پاکستان کے نظام کار کو سمجھنے کے لئے اس کے اداروں کا رخ کیا کیونکہ پرانے پاکستان میں سن یہی رکھا تھا کہ نئے پاکستان کے ادارے مثالی ہوں گے۔ آغاز وزارت خارجہ سے کیا، اس کی عمارت میں داخل ہوا تو ہلچل کی سی کیفیت تھی۔ کوریڈور سے گزرتے ہوئے ایک جونیئر افسر سے ہلچل کا سبب پوچھا تو پتہ چلا کہ بھارت اپنی فوج سرحدوں پر لے آیا ہے۔ میں نے وزیر خارجہ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو فورا ان کے دفتر میں پہنچادیا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ نیلے چمکدار بالوں والی ایک بہت ہی بھاری بدن اور مسالہ سخن خاتون وزیر خارجہ ہیں۔ وہ بھارت کے خلاف اپنی ہنگامی تیاریاں فرماتے ہوئے سیکریٹری خارجہ کو کچھ دیتے ہوئے فرما رہی تھیں

’’یہ ہاتھ پر باندھنے والا تعویذ ہے اور یہ گلے میں ڈالنے والا۔ یہ دنوں فورا کسی موچی سے موم جامہ کرانے ہیں جبکہ یہ دو مقدس نقش فریم کروانے ہیں، ان میں سے ایک یہاں میرے دفتر میں لگے گا اور ایک آپ کے دفتر میں‘‘

یہ کہہ کر وزیر خارجہ فورا دفتر سے نکلنے لگیں تو سیکریٹری خارجہ نے پوچھا

’’میڈم ! یہ بازو اور گلے والے تعویذوں کا کیا کرنا ہے ؟‘‘

وہ چلتے چلتے پلٹ کر بولیں

’’یہ میری فلائٹ کی روانگی سے قبل ایئرپوٹ کے وی وی آئی لاؤنچ میں مجھے مل جانے چاہئیں‘‘

میڈم چلی گئیں تو میں نے پیچھے رہ جانے والے سیکریٹری خارجہ سے پوچھ لیا کہ میڈم کہاں گئیں ؟ وہ بولے

’’واشنگٹن کے ہنگامی دورے پر !‘‘

وزیر خارجہ تو ہاتھ سے نکل چکی تھیں، سوچا اس صورتحال میں وزیر دفاع سے مل لینا ہی مناسب ہوگا۔ وزیر دفاع کے دفتر پہنچا تو یہ دیکھ کر مسرت کی انتہاء نہ رہی کہ سوات سے الیکشن جیتنے والا ایک گورا چٹا مگر شدید غصے والا نوجوان نئے پاکستان کا وزیر دفاع ہے۔ میں نے وزیر دفاع سے پوچھا

’’اگر بھارت نے خدانخواستہ حملہ کردیا تو ہماری تیاری کیسی ہے ؟‘‘

وزیر دفاع بولے

’’ہمارے خفیہ ادارے بھارت کی تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی ماؤں کے نام معلوم کرکے مقدس خانقاہ پہنچا چکے ہیں جہاں بندش والے تعویذ تیار ہورہے ہیں‘‘

’’مقدس خانقاہ ؟‘‘

’’کیا آپ نہیں جانتے کہ نیا پاکستان بنتے ہی بنی گالہ شیش محل کو مقدس خانقاہ ڈیکلیئر کردیا گیا ہے ؟‘‘

’’ہماری فوجی تیاری کیسی ہے ؟‘‘

’’ہم نے ہر فوجی بیرک کو خانقاہ ڈیکلیئر کردیا ہے اور مسلح افواج کو ختم خواجگان کا حکم جاری کردیا گیا‘‘

میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا کہ خان صاحب کے ذہن میں جس قسم کی ’’مدینہ کی ریاست‘‘ تھی وہ انہوں نے بنا کر دکھادی۔ خیال آیا کہ جنگ کا تو کوئی امکان ہی نہیں کیونکہ بھارت کے فوجی سربراہوں پر بندش والے تعویذ اب تک ہو بھی چکے ہوں گے۔ مسلح افواج ختم خواجگان میں مشغول ہیں اور وزیر خارجہ بھی واشنگٹن کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے بازو اور گلے والے تعویذ کو کام میں لاچکی ہوں گی لھذا کیوں نہ اس ’’پر امن‘‘ ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر وزراء سے بھی مل لیا جائے۔ لمبے قد اور گھنی وگ والے وزیر خزانہ نے بتایا کہ معیشت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ہم نے بہت ہی نیک سیکریٹری خزانہ رکھے ہیں جو روز فجر کی نماز کے بعد رزق میں برکت والے وظائف پابندی سے کرتے ہیں۔ وزیر تجارت نے بتایا کہ تجارت میں فروغ کے لئے سرکار ہر تاجر کو ایک مقدس نقش مفت فراہم کرتی ہے جو دکان کے مرکزی دروازے کے مقابل لگانا ہوتا ہے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ یہ نقش گاہک کو کھینچنے کے کام آتے ہیں۔ میں نے بیتابی سے قیمتوں کا حال پوچھا توبولے

’’جب سے نیا پاکستان بنا ہے زعفران کی قیمت مسلسل چڑھ رہی ہے باقی قیمتوں میں استحکام نوٹ کیا جا رہا ہے‘‘

سب سے زیادہ خوشگوار وزیر خوراک سے ملاقات رہی۔ انہوں نے یہ انکشاف کرکے مجھے سکتے سے دوچار کردیا کہ

’’نئے پاکستان میں صرف انسانوں کے لئے ہی خوراک کا بندو بست نہیں ہوتا بلکہ یہاں جنات کی خوراک کے لئے بھی وزارت خوراک میں ایک پورا سیکشن قائم کیا گیا ہے‘‘

پوچھا

’’اور جنات کھاتے کیا ہیں ؟‘‘

بولے

Advertisements
julia rana solicitors

’’چھوٹا گوشت !‘‘

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply