تبدیلی کے گہرے ہوتے سائے۔۔ذیشان نور خلجی

بچپن میں میری نادانیوں کے باعث اکثر مجھ سے اس بات کی تصدیق لی جاتی تھی کہ تم واقعی بے وقوف ہو یا جان کے کرتے ہو۔ گو اب بھی کچھ لوگوں کی بابت اس سوال کا پوچھنا بنتا ہے لیکن بڑے لوگوں سے ایسی گستاخی بھلا کون کر سکتا ہے اور ویسے بھی سارا معاملہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے۔
تبدیلی کا سفر شروع ہوا تو بیچ راستے سستانے کی غرض سے خان نے ایک ارب درخت لگا دئیے۔ اور پھر انہی کی چھاؤں میں چندے کا ڈبہ رکھ کر مانگنے بیٹھ گئے کہ چلو نواز شریف سے کرپشن کے جو پیسے برآمد ہوں گے، سو ہوں گے لیکن ڈیم کی تعمیر کے لئے جو کچھ کم ہوئے، وہ عوام سے فی سبیل اللہ نکلوا لیتے ہیں۔ مانگے کے پیسوں سے ڈیم تو تعمیر ہو گیا بلکہ جناب ثاقب نثار چوکیداری کی غرض سے اس کی بنیادوں میں بھی بیٹھ گئے۔ تو خان صاحب آگے کو چل دئیے اور پٹاری میں پڑی ایک کروڑ نوکریاں نکال کر بانٹنا شروع کر دیں۔ جس کی بدولت لوگوں کو روزگار میسر آ گیا اور بے روزگاری کا جن قابو میں آ گیا۔ لیکن ساتھ ہی ایک نیا مسئلہ بھی کھڑا ہو گیا کہ بہت سے لوگ نوکری کے فرائض ادا کرنے کے بعد باقی کا وقت گھر میں بے کار بیٹھے گزار رہے تھے تو ایسے قیمتی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کسی پارٹ ٹائم روزگار سے اپنی آمدنی میں مزید اضافہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ پھر سے قوم کا درد بننے والے، معافی چاہتا ہوں قوم کا درد رکھنے والے عمران خان آگے آئے اور انڈے دینا شروع کر دئیے۔ یعنی لوگوں میں انڈے اور مرغیاں بانٹنا شروع کر دیں۔ کہ اگر شیخ چلی انڈوں سے اتنی بڑی ایمپائر کھڑی کر سکتا ہے تو پھر ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ اور ساتھ ہی ڈیری فارمنگ کو پروموٹ کرنے کے لئے کٹے بھی بانٹے گئے۔ ان ریلو کٹوں کی بدولت نئے پاکستان میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو گئیں لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ ہمیشہ دودھ اور شہد کی نہریں اکٹھی ہی بہتی آئی ہیں اور اکیلی دودھ کی نہریں بہتیں اچھی نہیں لگتیں۔ لیکن یہ حالات کی ستم ظریفی ہی تھی کہ خان صاحب کو وہ کابینہ ہی نہ مل سکی جو اتنی قابل ہوتی کہ مشورہ دیتی، حضور ! ساتھ ہی مگس بانی کا کام بھی شروع کرنا چاہئیے۔ خیر، پھر اسی پر اکتفاء کر لیا گیا اور نئے پاکستان کے عوام کٹوں کا دودھ پی کر سو رہے تھے۔ لیکن تبدیلی کا سفر تو جاری تھا نا، لہذا مسافروں کے سوتے ہوئے ہی یہ گاڑی 2020ء کے اسٹیشن پر پہنچ گئی اور پھر کرونا نے آگے بڑھ کر ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اور حکومت بھی جاگ گئی اور یاد کرنے لگی کہ ہم نے تو عوام کو پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے تھے۔ تو پھر کیوں نا وہ منصوبہ شروع کر کے نئے پاکستان کی تعمیر کی جائے۔ ویسے بھی ہم تو فارغ ہی بیٹھے ہیں۔ چنانچہ جب پوری دنیا کرونا وائرس سے بچنے کی تدبیریں کر رہی تھی ہمارے ہینڈسم وزیراعظم نے کنسٹرکشن انڈسٹری کی طرف منہ پھیر لیا۔ لیکن اس ساری مصروفیت میں بھی وہ کرونا وائرس سے بیگانہ نہ ہوئے، کیوں کہ یہ ہوتا ہے لیڈر۔ بلکہ اب تو خان صاحب کا وہ ٹیلنٹ، جو دھرنے کے وقت اچھل اچھل باہر آتا تھا ایک دفعہ پھر سے جاگ گیا۔ بس جی پھر اللہ دے اور بندہ لے والا معاملہ ہو گیا۔ کوئی دن نہ گزرتا جب وزیراعظم ٹی وی اسکرین پر جلوہ افروز نہ ہوتے ہوں۔ اس سے عوام کا تو کوئی فائدہ نہ ہوا لیکن نیوز کاسٹرز کا نقصان ہو گیا کہ ان کے حصے کی ساری خبریں تو عمران خان سنا جایا کرتے تھے۔ اور ان کی اس خداداد صلاحیت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگلے الیکشن کے بعد، جب وہ حکومت میں نہیں رہیں گے تو انہیں کسی میڈیا ہاؤس میں ایک اچھے پیکج کے ساتھ اینکر پرسن کی نوکری مل جائے گی۔ اگلی دفعہ ان کی حکومت نہ بننے کا اس لئے کہا ہے کہ اس دور حکومت میں وہ جس منفرد انداز سے حکومت کر رہے ہیں تو ان کا یہی دور حکومت تاریخی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور عوام کی بھی خواہش ہو گی کہ اگلی بار پھر عمران خان خود ہی اپنا ریکارڈ نہ توڑیں۔
ایک طرف اینٹوں اور گارے سے ملک کی تعمیر جاری تھی تو دوسری طرف اشرافیہ کے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ بھوکے مر رہے تھے لہذا خان صاحب نے ان کی مدد کو ٹائیگر فورس بھجوا دی۔ جس کی بدولت عوام بھوکے مرنے سے بچ گئے۔ لیکن تب ان کے یار غار نے پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور بجائے عوام کو ریلیف دینے کے، چینی مزید مہنگی کر دی۔ اب خان صاحب کیا کوئی پیچھے رہنے والے تھے۔ لیکن انہوں نے چینی سستی کرانے بجائے پوری دنیا میں پہلے ہی کوڑیوں کے مول بکنے والا پٹرول پاکستان میں بھی سستا کر دیا۔ بلکہ اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے لئے ساتھ ساتھ نایاب بھی کر دیا۔ اب ہوتا یہ ہے کہ سرکاری طور پر پٹرول تو کافی سستا ہے لیکن ملتا کہیں نہیں۔ اور اگر کہیں ملتا بھی ہے تو لائنوں میں لگ کے دو چار گھنٹے کی ذلالت کے بعد۔ اور اس ریٹ پر کہ شاید ہی کبھی اس ریٹ پہ ملا ہو۔ چنانچہ عوام سٹپٹائے ہوئے ہیں کہ پیسے بھی دیں اور ذلیل بھی ہوں۔
اور اب کسی منچلے نے افواہ اڑائی ہے کہ نارووال میں عوام کے مشتعل ہجوم نے ایک پٹرول پمپ کو آگ لگا دی ہے۔ اب بجائے لوگ اس خبر کی تصدیق کرتے یا ان عوامل پر غور کرتے جس باعث ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ انہوں نے عقل کے گھوڑے دوسری سمت دوڑانے شروع کر دئیے۔ دراصل عقل کی طرح بے وقوفی بھی کسی کی میراث نہیں۔ لہذا ان نابغہ روزگار ہستیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ عمران خان اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی نے عوام کا رخ کرپٹ مافیا کی طرف کر دیا ہے۔ تو ان عقل کے دیوتاؤں کی خدمت میں عرض ہے کہ فرض کرتے ہیں واقعی پٹرول پمپ کو نذر آتش کیا گیا ہے پھر بھی یہ خوش ہونے کی بجائے رونے کا مقام ہے اور یہ خان صاحب کی کامیابی نہیں بلکہ صریح ناکامی ہے کہ عوام کے مشتعل ہجوم نے پٹرول پمپ نذر آتش کر دیا کیوں کہ اگر یہ عوام منظم ہوتے تو بجائے کسی کی املاک کو نقصان پہنچانے کے سیدھا حکومت کے گریبان پہ ہاتھ ڈالتے۔ جیسے امریکہ میں عوام نے پولیس گردی کے بعد وائٹ ہاؤس کا رخ کیا ہے۔ کیوں کہ مافیا تو ہمیشہ پیسے کمانے کے چکروں میں رہے گا لیکن معیاری قیمت پر پٹرول کی فراہمی سراسر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply